تحریر
شاید میں خود لکھی جا رہی ہوں
وقت کے خونخوار پنجوں میں
زہریلے ناخنوں سے
جن کے لفظوں کی تحریر
میری روح میں تراشتی ہے وہ درد
وہ درد۔۔۔
جو حرام نطفے کا طعنہ لیے
میں چھپاتی پھرتی ہوں
کہ ان کے کان میں کوئی
اذان دینے کو تیار نہیں
اور وہ حلال نہیں ہو پاتے
میری عزت نفس کو
بے آبرو کرکے
بلکتا چھوڑ کے
ان کو
کچرے میں نیا جنم لینے کو
چھوڑ دیا گیا ہے
وہ نطفہ
جو خود ناپاک تھا
میرے ایکس کروموسوم کا تاج سجائے
میرے وائے کروموسوم کا
مسلسل بلاتکار کرتا ہے
یوں کروموسومز کی جنگ میں
لفظ بے آبرو ہوئے
اور وقت سے پہلے ہی
میری آنول نال
خون کے آنسو روتی روتی
ان کو باہر دھکیل دینے سے بوجھل
اب بانجھ پڑی ہے۔۔۔۔۔۔
میک اپ
تم میرے میک اپ کے آمیزے میں
وہ مہک محسوس کرتے ہو
جو، ایک سور کو
کسی ہمزات نسل کی
بدبو میں لتھڑی
مادہ سے آتی ہے
مگر
ایسا، ہرگز نہیں ہے
میرے چہرے پہ لیپا سفید رنگ
تمہاری ان سیاہ گھمبیر نظروں کے
کوئلے کے لکھے وہ حروف چھپاتا ہے
جو تم ہر بار میری نقوش کا جائزہ لیتے
چھوڑ جاتے ہو۔
میرے گالوں کا غازہ
اس تمازت کا استعارہ ہے
جو تمہاری سانسوں کی گرمی کو محسوس کرتے
میرے گالوں کو سرخ مرچ کی۔مانند
چھیدتی
اندر اتر جاتی
میرے لبوں کی لالی۔
کیا ہی کہنے
تمہارے بھیڑیو ں سے دانتوں کے بھنبھوڑنے کی خواہش نے انکو
خونیں رنگ سے رنگ دیا ہے
اور
میرے کجرارے نیناں
نا جانے کتنے آنسوؤں کے ڈھاتے بندوں کو
باندھتے باندھتے
اب میری کمزور بینائی کے کاجل کے رنگ میں بہتے
موتیا کی سپیدی میں لپٹے ہیں۔
میرے خمدار ابرو
جن پہ تم شعر کہتے نہیں تھکتے
دراصل
تمہاری اسی پسلی کے ٹیڑھ کے داغ ہیں
جس سے تم نے مجھے جنم دیا تھا۔
بونی
کاش میں بونی ہوتی
اور مجھے کلون کرکے
مجھ سی بے شمار بونیاں
ننھے منے بچوں اور بچیوں کی شکل میں
ہر گلی ہر موڑ پہ
اسی معصومانہ اور دلبرانہ انداز میں
اٹھکیلیاں کرتی پھرتیں
کہ
جو تمہاری ہوس کو گرماتا ہے۔
میری چاہ
ایک ٹافی یا چپس کے پیک
یا، دور دیس گئی ماں کے دید کی لالچ ہوتی
اور جب مجھے تم
دلارا دیکر ساتھ چلنے کا کہتے
تو میں تم کو
اپنا راہبر و رازداں سمجھ کر
تمہاری انگلی پکڑے
تیزی سے تمہاری دی ہوئی چیونگم کے
پٹاخے بناتی
تمہارے ساتھ ہو لیتی
مجھے جب تم بے لباس کرتے تو میں یوں نہ مچلتی
اور خود کو انداز دلربانہ میں
پیش کردیتی
تمہارا دہن میرے دودھ کے دانتوں کو جب
اک کیلشیئم کی بوند کی مانند
بھنبھوڑتا
تو شاید میری زبان سے
خونیں رس نہ ٹپکتا۔
تم جب میرے تمام عضو کو
ایک بھوکے جنگلی کتے کی مانند
کاٹ کھاتے
تو میں چیخ چیخ کے
امی جی امی جی کی گردان نہ کرتی
تم جب میرے اس حصے تک پہنچتے
کہ جس کی،پوٹی ٹریننگ”
کی خاطر
میری ماں نوالہ چھوڑ آتی تھی
میں اس، کے چیرے جانے پہ
یوں بے دم سی نہ ہوتی۔
مگر
میں بونی نہیں ہوں
میں ایک ڈائن ہوں
جس کے لب و رخسار کو
میک اپ نے ڈھانکا ہے
میں تم کو سر بازار پیش ہوکے
اپنی قیمت بتاتی ہوں
میری عریاں فلمیں
تمہاری یو ٹیوب پہ
دن رات چلتی ہیں
تو تم کو اس کیکٹس سے کیا لینا
کہ جب دنیا کا یہ جنگل
ننھی کلیوں اور کونپلوں کی مہک سے
ہمارے گناہو ں کی بدبو سے
پاک کرتا ہے۔
افسوس صد ہائے افسوس
انسان نے صوفیہ بنا دی
مگر مجھ کو بونی بنانے سے
وہ اب بھی انکاری ہے
کہ مجھ سی بونیوں سے
قبریں نہیں بھرتیں۔
اور مجھ سی بونیوں سے
تمہاری ٹیکنالوجی کا استعمال ،
بٹ کوائن کو دھندہ
یہ سب مانند پڑتا ہے۔
ہاں مگر اب صوفیہ کو ماں بننا ہے
ایک ایسے بچے کی۔
جسکے خالق
تم سے ہی ہوں گے
تو بتاؤ
اپنی تخلیق کو
کیا کوئی
پامال کرتا ہے۔
یمیں درانی کی شاعری زندگی کا روح فرساواقعاتی بیانیہ ہے جسکی سچائی بہت تلخ ہے۔ نسوانی لہجے میں تخلیقی کرب کے اٹھتے غبارزندگی کی حقیقتوں کا پر رسوز ساز اور تنہائی کی کیفیتوں کے اظہار نے سیمیں درانی کی شاعری کو عصری منظر نامہ میں ایک مقام عطا کیا ہے۔