فون آیا۔ ’’میں احمد سلیم بول رہا ہوں اسلام آباد سے ۔ سنگت کے دوستوں سے ملنا چاہتا ہوں۔ آپ کا ماہانہ اجتماع کس تاریخ کو ہوتا ہے؟‘‘ ۔
بہت عرصہ گزرا ۔ فون آیا ۔’’ میں جعفر احمد بول رہا ہوں کراچی سے۔ سنگت اکیڈمی کا ماہانہ اجلاس اِس اتوار کو ہور ہا ہے ناں؟۔ میں اور احمد سلیم اس میں شرکت کرنا چاہ رہے ہیں‘‘۔
’’نہیں سید ۔ ہم ہر ماہ کے آخری اتوار کو اپنی نشست منعقد کرتے ہیں۔ چنانچہ تیس ستمبرکو ’’پوہ زانت ‘‘منعقد ہوگا۔ آپ اپنی ٹکٹیں کینسل کردیں اور اُنہی تاریخوں میں رکھ دیں‘‘۔
زندگی قتل اور زچگی کی اپنی سائیکلیں چلاتی رہی ۔امانت میں دی ہوئی مخلوق میں سے موٹے ‘لاغر، بیمار ‘تندرست جانداروں کا گلہ دبوچ دبوچ کر وقت گزاری کرتی رہی ۔پھنے خان انسان بے بس،مجبور، اوربے مدد اِس زندگی کی سڑک کوٹنے والی مشین کے بڑے بھاری پہیوں تلے کچلتا رہا ۔ کبھی اس کی لائی شاد مانیاں رقص کرواتی ہیں اور کبھی غموں کے کوہِ گراں مٹھی بھر حجم کے دلوں کو برباد کرتے رہتے ہیں ۔ روز شب بے نیاز باریاں لیتے رہے ۔ یوں سمینار کے دن قریب آتے گئے۔
سنگت اکیڈمی کی کابینہ،موضوع اور مقرر ین کا فیصلہ کر کے سمینار کی تیاریوں میں لگ گئی۔ مقالوں کا عنوان تھا :’’بلوچستان میں آج کل کیا لکھا جا رہا ہے : بلوچی میں ، اردو میں، پشتو میں، اور براہوی میں۔ بلوچی کے لیے ساجد بزدار نے پیپر پڑھنا تھا، اردو کے لیے عابد میر نے ،پشتو کے لیے محمود ایاز اور براہوی کے لیے لیاقت سنی کے نام فائنل ہوئے۔
ملکی سیاست کی طرح جہازوں کی آمدورفت کے سارے ٹائم ٹیبل برباد ہیں۔ ہوائی سروس نے بھی جب جی چاہا کنونشن لیگ کو پیپلز پارٹی بنا لیا اور جب چاہاجھاڑو پھیر کر سفر کے نشہ میں غلطاں ، ناموس وتکریم کی اٹھکیلیوں سے مبرامسافروں کو اکٹھا کیا اور انہیں ایک ’’باپ ‘‘ میں پرودیا۔جب چاہا کراچی کوئٹہ فلائٹ کینسل کر کے وہی جہاز ملتان کو روانہ اور جب چاہا فلائیٹ آٹھ دس گھنٹے لیٹ کردی۔ ایسی انار کی میں 30ستمبر کے پروگرام میں شرکت کے لیے ظاہر ہے کہ باہر کے دوستوں کے لیے محفوظ ترین دن ،سمینار سے ایک دن پہلے یعنی 29ستمبر ہی ہے ۔ چنانچہ ہمارے دونوں مہمان اِسی دن آنے کی ٹکٹیں بک کر چکے تھے ۔ کراچی سے صبح کی جہاز کے لیے جعفر احمد نے اور اسلام آباد سے شام کی فلائٹ میں احمد سلیم نے۔ یہ ہفتے کا دن بنتا تھا۔ واپسی جعفر صاحب نے منڈے کا دن رکھا تھا جبکہ اسلام آباد فلائیٹ نہ ہونے کے سبب احمد سلیم کو دو اور دن کوئٹہ رہناتھا۔
جیسے کہ تنطیموں میں ہوتا ہے ۔ جنرل باڈی کا بڑا دائرہ ، پھر سنٹرل کمیٹی کا نسبتاً چھوٹا مرکزہ ، اور پھر کابینہ کا بہت ہی چھوٹا مگر بہت ہی پیوست نیوکلی اَس۔ واٹس ایپ پہ جنرل ممبروں کے بڑے دائرے میں دوستوں کی آمد کے ٹائم کی اطلاع دی گئی، استقبال کی سب کو گویا دعوت تھی یہ ۔
سید جعفر احمد ایئر پورٹ سے باہر نکلا ۔ وہی گورا رنگ ، درمیانہ قد، گٹھا ہوا بدن ، پینٹ شرٹ میں ملبوس ، کلین شیو، موٹی خوبصورت آنکھوں پہ علم کی موٹی عینکیں ، عمر کی توسیع پسندی کی علامت کے بطور ہرچہار شش ماہ پیشانی کی بڑھتی ہوئی سرحد۔
یہ بغلگیر کیسا بکواس لفظ ہے ۔ بغل کو پکڑنا ۔ ارے سیدھی طرح بولو امباز، ، بولو بھانکر، بولو جھپی ۔ ہونہہ،’’ بغلگیر‘‘ ! کہتے ہوئے منہ بھی نہ بھرپائے۔ یاروں سے ملنے میں توپسلی سوز بھانکر چاہیے ہوتا ہے ۔ ورنہ دماغ میں تسکین کا سینٹر مطمئن ہی نہیں ہوتا ۔ لہذا میں نے بھانکر میں لیا سید کو ۔ مگر میرے دوسرے ساتھی پہلی بار ملنے کی وجہ سے ایسا نہ کرسکے۔ مہمان کے نام کا تو دونوں کو معلوم تھا اس لیے یک طرفہ تعارف کرایا۔’’ یہ جاوید اختر ہے کالج میں انگلش کا استاد اور سنگت کا نائب منتخبہ کمانڈر ۔ اور یہ عطاء اللہ بزنجو ہے چائلڈ سپیشلسٹ اور سنگت سمینار شعبہ کا منتخب سربراہ‘‘۔
پھر‘عام انسانی موضوعات :سفر اچھا تھا؟۔ نیند پوری ہوئی؟ ۔موسم کیسا تھا؟ ۔ اُدھر سے :دوستوں کا کیا حال ہے ؟ ،تو، کل ہے آپ کا سمینار؟، یقیناًزبردست ہوگا۔ مجھے بہت بے حد اشتیاق ہے اُسے اٹنڈ کرنے کا۔۔
چونکہ ڈاکٹر جعفر کے پاس ، بس آج کا دن فری تھا لہذا ہم اُسے کتابوں کی دکان (سیلز اینڈ سروسز )پر لے گئے۔
سلیز اینڈ سروسز سابقہ گوشہِ ادب ہے ، منصور بخاری کا ۔ (اور اب تو اس کے بیٹے زعیم کا بھی) ۔دلچسپ آدمی ہے ۔ منافع کمانا خوب جانتا ہے ۔ دکانداری کرنا خوب جانتا ہے ۔ دوکانداری میں دکانداری دیکھی جاتی ہے ، باقی سب باتیں دکانداری کے قانون میں ملاوٹ کرنا ہوتی ہیں ۔عجب طرح کے خریدار ہیں اُس کے۔ سیاست دان ، بیوروکریٹ ’’سرکار‘‘ ،سردار ۔۔ ستر کی دہائی سے ہم اُس کے خریدار ہیں۔ اور اس نے بھی ہم پہ اپنی کتابیں خوب بیچیں۔ (ہم خود جو اپنی گردن اُس کی چھری کے حوالے کرنے جاتے ہیں)۔ ضیا مارشل لا میں تو وہ ہمارا خاص استاد رہا تھا۔وہ ہمارے لیے ایسی ایسی چیزیں فوٹو سٹیٹ کر کے لفافوں میں رکھتا تھا جن پر سخت پابندی ہوتی تھی۔ مارشل لا مخالف مضامین جہاں بھی چھپتے (نیوز ویک ، ٹائمز وغیرہ) بحفاظت اور مفت ہم تک یہی بخاری پہنچاتا تھا۔ وہ اتنا پرانا کتاب والا ہے کہ اُسے ملک بھر میں کتاب دوست لوگ پہچانتے ہیں۔
جعفر احمد دکان میں داخل ہوا تو سامنے وہ خود ہی بہ نفسِ نفیس ڈھیروں کی صورت پڑا ہوا تھا(اس کی کتابیں )۔اُس ڈھیر میں اُس کی اپنی کتابیں تھیں،سبطِ حسن پہ اُس کی لکھی کتابیں ، سبطِ حسن کی کتابیں تھیں ۔ہمارا یہ دوست ہماری دونسلوں کی تربیت کرنے والے سید سبطِ حسن کا مرید اعظم ہے ۔ اسی لیے ہم سب کو عزیز ہے ۔
منصور ملنے آگے بڑھا ، تو جعفر احمد نے میرے کان میں پوچھا یہ منصور بخاری نہیں ؟۔ ہاں ، ہاں بھئی وہی ہے، عمر کے ساتھ ساتھ پیٹ اور پیٹھ بڑھے ہیں، داڑھی چھوڑی ہے اور عینک پادری کی صلیب کی طرح گلے میں لٹک رہی ہے ، باقی تو وہی ہے ۔
ہم نے کتابیں دیکھیں ، جانچیں ،خریدیں او رڈیڑھ گھنٹہ بخاری کے تہہ خانے میں گرم پیٹریز اور چائے پی۔ ۔ شہروں میں کتاب دکانیں بہت ہوں تو کتاب پہ بندش لگانے والوں کی دنیا سمجھو اندھیر!۔
کھانے کا وقت تو ذرا دور تھا مگر احمد سلیم کے جہاز کا وقت نسبتاً قریب۔ اسلام آباد ایئر پورٹ پہ فون کر کے شرارتاً اُس سے کہا کہ’’ کراچی کے پُر تکلف لوگوں کا نمائندہ جعفر احمد کہتا ہے کہ جہاز پہ کچھ نہ کھانا۔ میں آپ کامنتظر ہوں ، آپ کے بغیر کھانا نہیں کھاؤں گا ‘‘۔ ہمارا مقصد تویہ تھا کہ وہ جہاز میں کچھ نہ کھائے تاکہ اس کی بھوک نہ مٹ جائے ، اور ہم مزے سے مل کر کھانا کھائیں۔ مگروہ شریف آدمی اتنا پریشان ہوا کہ جعفر احمد کو فون کیا۔’’ دیکھیے ،آپ تکلف نہ کیجیے۔ میرے لیے انتظار نہ کریں۔ مجھے احسان بار نہ کیجیے وغیرہ وغیرہ‘‘۔
کچھ وقت تھا توہم نے مہمان جعفر احمد کو سمینار کی جگہ کے انتخاب ،سیٹنگ اور مینجمنٹ وغیرہ کے کام میں میزبان بنایا۔ وہ انتظامیہ کے ساتھ گھل مل گیا۔ نظریاتی ہم بستگی اجنبیت کہاں رہنے دیتی ہے ۔ ہال کے مالک عبدالقادر سے اُس کی تازہ حاجی گیری کا فرداً فرداً، تسبیح ، زمزم اور کھجوریں وصول کیں۔ اس نے حسبِ معمول اجوہ کھجور کا میرا حصہ گھر پہنچانے کا جھوٹا وعدہ کیا اور میں نے حسبِ معمول دل میں اس کے وعدے کا بھروسہ نہ کیا۔ وہ رہ رہ کر حج کے سفر کے قصے دہرانا چاہتا تھا اور ہم اس کے اس ارمان کا بار بار خون کرتے رہے۔ بالآخر وہی ہار گیا اور گروپ تصویریں بنوابنوا کر ہا ل اور انتظامات مکمل کر کے ہمیں رخصت کیا۔
احمد سلیم کو ایئرپورٹ سے لیا۔ پاکستان میں سوشل سائنسز میں تحقیق اور تحقیقی مواد کا ایک بڑا پروپرائٹر احمد سلیم ہے ۔ اُس عجزو انکساری کے نمونے کے اٹھیائے جانے میں محض دو ایک سال باقی ہیں۔ سفید کپاس جیسے بال، درمیانہ قد، نیم گندمی اور نیم ’’نہ گندمی‘‘ رنگ، کندھے پہ ایک بیگ نماز مبیل لٹکائے یہ شخص اِس عمر میں بھی سب سے زیادہ سفر کرنے والا شخص ہے ۔ مسکراتا کم ہے مگر کوئٹہ آیا توایک اور ’’نہ مسکرانے والے ‘‘ہمارے دوست غنی پرواز کی طرح قہقہوں میں ہی رہا۔ اس عمر میں قہقہے دلچسپ ہوتے ہیں ۔آدمی قہقہہ لگاتے لگاتے رو دیتا ہے ۔ آنکھوں کی ساخت ایسی ہوجاتی ہے کہ آنسو چہرے پہ نہیں سیدھا دامن بھگو دیتے ہیں۔ آپ مزید ہنساتے ہیں وہ مزید روتا جاتاہے ۔
جگر کے ٹرانس پلانٹ کرنے والے ہندو ڈاکٹروں نے اُس پہ سبی کے ہندوؤں کی سائز والی ایک چپاتی سے زیادہ نہ کھانے کی پابندی لگا رکھی ہے۔ یہ پوری چپاتی ہمارے چرواہے کا ایک نوالہ بھی نہیں بنتی!۔اسی طرح ’’سرخ گوشت‘‘ سے سخت پرہیز کا کہا تھا۔ مگر اس ڈسپلن والے آدمی کو ہم جیسے ’’لُوز‘‘ ڈسپلن والے ’’مزید ‘‘ نمکین روسٹ، ’’مزید ‘‘کڑھائی گوشت اور ’’مزید ‘‘مغز کھانے سے روکتے رہے۔
اس قدر جہاں گرد، کثیر مطالعہ اور ٹرک بھرے رائٹر کے لیے کوئی بات ،نئی نہیں ہوتی۔ اس لیے آپ کوئٹہ کی جگہوں ، واقعات اور شخصیتوں کے بارے میں جتنا چاہیں اُسے بتاتے جائیں، وہ آخر میں اسی موضوع پہ ایک آدھ فقرے کا اضافہ کر کے آپ کو جتلا دے گا ’’ تُو کچھ نہیں جانتا ،بچو!‘‘ ۔وہ بلوچستان تو بالخصوص بہت گھوما۔ اتنا کہ شیطان بننے سے قبل ابلیس نے یہاں اتنے سجدے بھی نہ کیے ہوں گے ۔چنانچہ وہ ماسوائے سرداروں نوابوں کے، ہمارے سارے اکابرین کا ذاتی دوست ومہمان رہا ۔جی ہاں، اُس کے نامہِ اعمال میں کسی نواب کی حاشیہ برداری اور نمک خواری کا افتخار نامہ موجودنہیں۔ بنیاد پرستی کی حد تک مارکس وادی احمد سلیم ۔
ہم ایئر پورٹ سے نکلے اور شہر سے دور مضافات کے چھوٹے قصبے کچلاک پہنچے۔ مقصد اِن شہری لوگوں کو مقامی کھانا کھلانا تھا۔ ہوٹل میں زمینی نشست تھی ۔ محض چار انچ اونچائی والی ڈائننگ ٹیبل تھی ، ہشت گزی نان تھے اور بحیرہِ بلوچ والیوم والے لسی کے جگ ۔دال اور سبزی تو ہم نے حفظِ ماتقدم کے بطور منگالیے کہ مبادا وہ گوشت نہ کھاپائیں۔ مگر کمال بات ہے کہ دال اور سبزی کی ڈشیں بھری کی بھری واپس گئیں اور نستعلیق لوگ نمکین روسٹ کے بلوچی تھیریم جتنے بڑے بڑے ٹکڑوں کا صفایا کر گئے ۔ پرہیز ورہیز سب بھاپ ہو گیا تھا اور ہم ہم دل میں ماشاء اللہ کاوردکرتے رہے۔
پیشین ، دیگر ہوتی جارہی تھی ،اس لیے ہم کچلاک سے نکلے اور کوئٹہ کے مغربی بائی پاس کے راستے واپس ہوئے ۔ اپنے ہم فکر دوستوں کو بتائے بغیر کہ منزل کہاں ہے۔ مگر راستہ لمبا ہوتا گیا تو ایک دو بار انہوں نے پوچھا کہ کہاں جا رہے ہیں؟۔تو جواب دیا‘ سازش کر رہے ہیں آپ لوگوں کے ساتھ۔
اُن دونوں دوستوں کی حیرت کی انتہا تھی جب ہم نے بریکیں برصغیر کے اولین کمیونسٹ رہنمابابو عبدالکریم شورش نے مقبرے پر لگادیں۔ احمد سلیم بلاساختہ بولا’’ تم نے سب سے بڑے ثواب کا کام آج کیا‘‘۔جعفر احمد کا رد عمل بھی دلچسپ تھا:’’ یقین تھا کہ آپ نیک سازش ہی کرو گے ‘‘ ۔ ہم نے بڑے آدمی کے پائنتی کھڑے ہو کر سورہِ فاتحہ پڑھی اور دیر تک وہاں کھڑے رہے۔ بابو کی زندگی اور افکار کے بارے میں اپنی اپنی معلومات کا تبادلہ کرتے رہے۔شام ڈھلی تو اسی بزرگ کے تبصروں کی چھتری میں ہی واپس لوٹے اور بلوچستان یونیورسٹی کے سامنے ’’ چائے شائے ‘‘نامی ہوٹل پہ رکے ۔سٹیل کی بڑی سائز کے پیالوں میں زبردست چائے۔ کمال یہ تھا کہ سٹیل کا پیالہ گرم نہ ہوا تھا۔ سٹیل کا پیالہ ٹھنڈا اور چائے گرم!۔ اُس کی انوکھی اچھی چائے نہ صرف پی بلکہ چائے کی اپنی اماں دادی کی تاریخ ، انواع اور ذائقوں پراتنی باتیں کیں کہ چائے کا اپنا لطف پیچھے رہ گیا۔
’’بلوم سٹار‘‘نامی ہوٹل میں کمروں کی چابیاں لیں، مہمانوں کا سامان رکھا۔ آدھ پون گھنٹہ گپ شپ کی اور پھر رات کا کھانا کھانے افضل کڑاھی کی مشہور دکان گئے ۔ ویسے تو دانشوروں ادیبوں کو شاذونادر ہی خاموش کرایا جاسکتا ہے ۔ موضوعات کے ڈھیر ہوتے ہیں اُن کے پاس ، معلومات کی بوریاں ہوتی ہیں ان کے پاس ۔ مگر،کمال یہ ہوا کہ ہم ایک گھنٹہ وہاں مکمل طور پر خاموش رہے۔ ۔۔۔ہم انسانوں کے مجمعے میں جو آئے تھے ۔ اتنے زور سے باتیں ہورہی تھیں کہ ہم سب کے ووکل کارڈز اپنی حاضری تک لگوا نہیں سک رہے تھے۔ ایسے ہوٹلوں میں عموماً خوشی کے موقع پر آیا جاتا ہے ، دعوت پہ۔اس لیے قہقہے تھے ، سگریٹ کے دھوئیں تھے، عوام الناس کا محبوب تکیہ کلام یعنی گالیاں تھیں، برکتیں تھیں۔ سچ ہے کہ انسان مسرت کے لیے ، مسرتیں بانٹنے اور وصول کرنے کے لیے ہی مناسب مخلوق ہے۔ اُسے مسرتیں ہی ملنی چاہییں ۔ غم قابو پایاجانے والا عارضی مظہر ہے ۔ انسان اُسے کبھی نہ کبھی ضرور دفن کردے گا۔
پتہ نہیں مہمانوں میں سے کس نے کہا کہ تم لوگ اتنا کھلا رہے ہو کہ ’’خوردم خوردم گاؤ شدم‘‘ والی بات صادق آتی ہے، تو مجھے کمال خان خدائیداد ، ماما، سی آر ، میاں محمود ۔۔۔جانے کن کن کی یاد آئی ۔حال ہی میں اپنے بچھڑنے والے نوجوان بچے کی بھی۔۔۔۔ دل کو شاید رونے کے لیے ہی پیدا کیا گیا۔
رات زاہدوں ، عاشقوں، اور چوروں کے ہاں سونے کے لیے نہیں ہوتی۔ہم نے اس لسٹ میں بہت عرصہ بعد ملنے والے دوستوں کا اضافہ کیا۔ ہم بہت دیر تک باہر بلوم سٹار کے لان میں گفتگو کرتے رہے ۔ سیاست پہ ،ریاست پہ، حکومت پہ، ارتقا پہ، انقلاب پہ۔عجب بات ہے انسان باتیں کرتا ہے ، اور گدھا بادشاہی۔
یہ تو ٹھیک ہے کہ کوئٹہ میں اب ستمبر میں زیادہ سردی نہیں ہوتی مگر پھر بھی رات جب ڈھلتی جاتی ہے تو خنکی سردی میں بدلتی جاتی ہے ۔بحث اور گفتگو کی گرمائش کے باوجود ہم نے رفتہ رفتہ مہمانوں کو کرسیوں پہ پیہم سکڑتے ہوئے دیکھا تو سمجھے زمستان ہے ۔ ہم نے عطا شاد کو یاد کیا۔ اور یوں زمستان اور سردی کے ہاتھوں محفل برخواست ہوئی ۔ کل صبح سمینار کے لیے انہیں پک کرنے تک کے لیے خدا حافظ اور ہر شخص اپنے گھروں کو روانہ۔
سنگت پوہ زانت کی نشستیں عام ادبی نشستوں سے بڑی اور تقریباً سمینار جتنی ہوتی ہیں۔ سیڑھیاں نہ چڑھ سکنے والے بزرگ احباب کی غیر موجودگی ہمیشہ دل میں ایک پشیمانی ،خلش اور تلخی پید اکرتی ہے ۔ اور نوجوانوں کی بڑھتی تعدادایک تسکین واطمینان عطا کرتی ہے ۔ دو چار دراز ریش نوجوان ہماری اِن نشستوں میں بالخصوص نمایاں نظر آتے ہیں ۔بالکل اُسی طرح جس طرح کہ ’’بے ریش ‘‘حاظرین کی اکثریت میں موجود چار چھ ’’بے ریش وبے بروت‘‘ شرکا ممتاز نظر آتے ہیں۔ حاجیوں کی تعداد اچھی خاصی ہوتی ہے ، کچھ حاجی نام کے ساتھ یہ سابقہ لگا لیتے ہیں اور کئی اُسے نام کے ساتھ نہیں چپکا تے۔ قاری افضل مینگل کے علاوہ بھی ایک دو ملا مولوی موجود رہتے ہیں۔
بقیہ مجمع بھی کسی صورت یکساں نہیں ہے ۔ نہ عمروں میں، نہ علاقوں میں اور نہ لسانی عقیدوی طورپر۔
کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ کاش نشست کی باقاعدہ شروعات سے قبل کے وقت میں بے تحاشا اضافہ کیا جائے۔ ہر اجلاس میں دوست پچھلے دن کی ہماری لائنوں میں لگائی گئی کرسیوں کی ترتیب بے دردی سے بگاڑ کر ہماری ساری محنت کا ستیاناس تو کرتے ہیں۔ مگر وہ جس بے تکلفی سے دو دو چار چار کے گروپ بنا کر خوشگوار شور مچاتے ہیں وہ تو مجھے لاکھ روپے جتنی قیمتی لگتی ہے ۔ کہیں قہقہے برس رہے ہیں۔ تو کہیں کوئی کسی کی بات کی توثیق کرنے اُس کی ہتھیلی پر ہتھیلی دے مار تا نظر آتا ہے ۔کوئی کسی کے سگریٹ کے پاکٹ سے ایک سگریٹ بلاتکلف اٹھا رہا ہوتا ہے ۔کوئی شعر سنا رہا ہے تو کوئی کسی کا حال حوال پوچھ رہا ہے۔
اور اُس وقت ہال میں ایک زبان نہیں بولی جارہی ہوتی ، ایک پورا چڑیا گھر ہوتا ہے۔۔۔ زبانوں کا چڑیا گھر۔ اور زبان چلاتے وقت مختلف زاویوں میں حرکت کرتے بازو ، ہتھیلی ، انگلیاں ، گردن، آنکھ سب بول رہے ہوتے ہیں۔ گلے شکوے ہورہے ہوتے ہیں۔ حکومتِ وقت اور حکمران طبقات کو لطیفوں میں ملفوف کو سنے دیے جارہے ہوتے ہیں۔۔ سوفیصد زندہ انسانوں کی سوفیصد زندہ محفل ۔
پروگرام کی باقاعدہ شروعات سے قبل کی یہ بہار ستان اُس نگار ستان سے بالکل مختلف ہوتی ہے جو پروگرام کے باقاعدہ اختتام کے بعد سجتی ہے ۔ وہ تو ایسا سماں ہوتا ہے جیسے بقول انجیلا ڈیوس ’’ بدمست شرابیوں کی محفل ابھی ابھی درہم برہم ہوئی ہو‘‘۔وہاں زیادہ تر مقالہ نگاروں سے اُن کے پیپرز کی توصیف وتبصرے کیے جاتے ہیں، حاضرین، ایک دوسرے کو چائے یا کھانے کی دعوت دے رہے ہوتے ہیں، واپسی کے لیے ٹرانسپورٹ کے ذرائع کی جستجو پہ باتیں ہوتی ہیں۔ کس کی گاڑی کس طرف سے جارہی ہے ، کون کس کی موٹر سائیکل کالفٹ لے گا اور کون ذاتی کام سے کس کے ساتھ واپس نہ جائے گا۔
پری سمینار گپ شپ اس قدر شور وشرابے والی ، اور اس قدر مستغرق تھی کہ بلند آہنگ سٹیج سیکریٹری کے بسم اللہ الرحمن الرحیم کے آخری حصے ہی انہیں متوجہ کر پائے۔ اور تب وہ یک دم ڈسپلن میں آگئے ، کرسیاں آواز پیدا کیے بغیر سیدھی کر لیں ،اور متوجہ ہوکر سننے لگے ۔
پوہ زانت کے انچارج ڈاکٹر عطاء اللہ بزنجو نے سنگت اکیڈمی آف سائنسز کے راہنما پروفیسر ساجد بزدار سے اس جلسے کی صدارت کروائی جبکہ احمد سلیم اور ڈاکٹر جعفر احمد کو مہمانانِ خصوصی کی نشستوں پر بٹھایا گیا۔ حسبِ معمول 60، 65کے مجمعے میں اگلی نشستوں میں موجود،چار خواتین بھی موجود تھیں۔
ڈاکٹر بزنجو نے ساحر وجالب کو تو سنگت اکیڈمی کا تقریباً تقریباً آفیشل شاعر بنا ڈالا ہے ۔ آج بھی عطا شاد اور گل خان نصیر کے ایک آدھ شعر کے سوا انہی دو شاعروں کا سایہ سمینار پہ رہا۔
20منٹ لگا کر ایک ممبر نے بلوچستان میں ادبی تحریک کی سوسالہ تاریخ بیان کی، اس تاریخ میں آنے والے مختلف پڑاؤ پڑھے اور سنگت اکیڈمی کی اپنی بائیس سالہ تنظیمی تاریخ بیان کی ۔
اردو کے لیکچرار عابد میر اُس نے اردو میں آج کل کیا لکھا جارہا ہے کے حوالے سے بتایا کہ بلوچستان میں ناول میں غیر معمولی کام آغا گل نے انجام دیا ہے ۔نئے لکھنے والے نوخیز لکھاریوں کے دو ناولٹ بھی حال ہی میں شایع ہوئے ہیں۔افسانوں میں آغا گل، خادم میرزا، فاروق سرور، افضل مراد، یعقوب شاہ غرشین کا کام مجموعے کی صورت میں سامنے آیا ہے۔علاوہ ازیں خاکہ نگاری میں وحید زہیر کی دو کتابیں پڑھنے کے قابل ہیں ۔ کچھ قابلِ ذکرسفرنامے بھی لکھے گئے ہیں۔
ادبی تحقیق و تنقید کے شعبہ میں ،اردو میں کچھ بڑا کام سامنے نہیں آسکا۔ چند صاحبان نے اپنے تبصرہ جاتی مضامین ضرور شایع کیے۔
ہر سال اردو شاعری کے درجن بھرمجموعے سامنے آتے ہیں۔ نئے لکھنے والے جدید شعری حسیت کے ساتھ اظہار کر رہے ہیں، اور خوب توجہ بھی حاصل کر رہے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت بطور مجموعی کوئٹہ جدید اردو شاعری کا سب سے بڑا مرکز ہو گا۔
الغرض ،کہا جاسکتا ہے کہ مجموعی طور پر بلوچستان کا معاصر ادب موضوع واسلوب کے معاملے میں بہت غنی ہے۔ سب سے اہم یہ کہ یہ اپنے معروض سے لاتعلق نہیں ۔ اس میں اس وطن کے سبھی رنگ اور ذائقے موجود ہیں ۔ حتمی نتیجے میں بلوچستان کا معاصر ادب اپنی جون میں بھر پور ہے۔
بلوچستان یونیورسٹی کا پروفیسر ڈاکٹر لیاقت سنی براہوئی معاصر ادب پہ بولنے آیا۔زبان کے بارے میں درد رکھنے والا یہ پروفیسر براہوئی زبان میں تمام مثبت اور منفی رجحانات پہ بات کرتا رہا۔ اُسے بلوچستان یونیورسٹی میں براہوئی میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے کور سز سے بہت تبدیلی نظر آئی ۔اسی طرح پندرہ رکنی ادبی فیڈریشن ’’بلوچستان ادبی فورم‘‘ بھی زبان کی ترقی میں رول ادا کر رہا ہے ۔ البتہ ادبی کرٹسزم پہ وہ زیادہ مطمئن نظر نہ آیا۔ پروفیسر نے سوشل میڈیا کے ہلکے پن کے آشکار ہونے پر اطمینان کا اظہار کیا۔
پشتو زبان کے سینئر ادیب وشاعر محمود ایاز نے پشتو میں جدید رجحانات پر طویل بات کی۔بہت زیادہ تفصیل اور کبھی کبھی موضوع سے ہٹ جانے کی وجہ سے مقالہ اچھا خاصا طویل ہوگیا تھا۔ تالیوں کی دو چار بوچھاڑیں بھی کارگر ثابت نہ ہوئیں ،اور سٹیج سیکریٹری کا چٹ بھی ڈِس لفٹ ہوا ۔پروفیسر نے پشتو ادب میں لورالائی کی اہمیت پہ چار صفحے پڑھ کر مختلف اصناف کے موضوعات پہ مفصل روشنی ڈالی۔
بلوچستان یونیورسٹی میں بلوچستان سٹڈیز کے استاد ڈاکٹر ساجد بزدار کو بلوچی زبان میں حالیہ ادب کے بارے میں بلایا گیا ۔اس نے محمود ایاز کی طویل تقریر کے ہاتھوں مضمحل شرکا کو انسانی ہمدردی کے تحت معاف کیا اور اپنے مقالے میں سے دو صفحے تو سرے سے پڑھے ہی نہیں۔ بزدار ،نہ رنجیدہ کرتا ہے اور نہ سنجیدہ ۔ وہ نہ تو مبالغہ کرتا ہے اور نہ ہی ابلاغ میں مشکل پیدا کرتا ہے ۔ دوچار بلوچی نظمیں اٹھاتا ہے ، انہیں نفس مضمون سے میچنگ یا کنڑا سٹ کے جھمیلے میں پڑے بغیر اپنے مقالے میں اڑس لیتا ہے ۔ کبھی کبھی تو اصل متن سے نظموں کی طوالت بڑھ جاتی ہے ۔
مہمان نوٹس لیتے رہے ۔ پتہ نہیں وہ اپنی تقریروں کے لیے پوائنٹس نوٹ کر رہے تھے یا مقالہ نگاروں کی باتوں کو معلومات کے بطور لکھ رہے تھے۔ بہر حال ،مقالہ نگاری کا مرحلہ بہت خوبصورتی سے اختتام پذیر ہوا تو مہمانوں کی باری آئی۔ سامعین اشتیاق بھرے سروں کو جھٹکادے کر سنبھلے اور پہلے مہمان سید ڈاکٹر جعفر احمد کو سٹیج پر دیکھا۔
جیسے کہ پہلے ذکر ہوا کہ ڈاکٹر جعفر احمد ،جناب سبطِ حسن کا سب سے خاص اور وفاشعارشاگرد اور ساتھی ہے۔ اس نے سید سبطِ حسن کی ساری غیر مطبوعہ تحریروں کو نہ صرف جمع کیا بلکہ ایک ایک کر کے چھاپا بھی۔ وہ سبطِ حسن کا بایو گرافر بھی ہے ۔شارح بھی اور ناشر بھی۔ ڈاکٹر جعفر احمد نے کراچی یونیورسٹی میں پاکستان سٹڈیز سنٹر کی کئی برس تک سربراہی کی ۔
جعفراحمد نے کوئٹہ سے وابستہ اپنی یادوں میں ہمیں شریک کیا۔ اپنی پی ایچ ڈی کی تحقیق کے سلسلے میں بلوچستان دوروں کا تذکرہ کیا۔بالخصوص بزنجو صاحب کے ساتھ نال میں کچھ عرصہ قیام کی باتیں کیں۔ ماما عبداللہ جان سے مشترکہ مریدی کی بات کی۔ اور پھر سنگت اکیڈمی سے اپنی وابستگی کا ذکر کیا۔
پروگریسو رائٹرز ایسوسی ایشن کے وفاقی جنرل سیکریٹری کی حیثیت سے اُس نے اعلان کیا کہ بلوچستان میں سنگت اکیڈمی ہی ہماری تنظیم ہے ۔ اس نے یہ بھی اعلان کیا کہ ہم ایسوسی ایشن کے ریکارڈ میں اِس وابستگی اور تنظیمی ایکتا کو 1997سے اپنے آفشل ریکارڈ کا حصہ بنائیں گے ۔
اس نے سنگت اکیڈمی کی حاصلات کی بہت توصیف کی ۔ بالخصوص شعبہ اشاعت ، شعبہ تراجم، ریسرچ فیکلٹیز اور سمینار فیکلٹی کو خطے میں سب سے منظم وفعال قرار دیا۔ سید صاحب نے وفاقی تنظیم کی اپنی اِس صوبائی تنظیم ،سنگت اکیڈمی کے ساتھ روابط میں مزید گہرائی اور اضافے کاعزم کیا ۔
احمد سلیم نے اپنی بزرگ سنی اور سنگت اکیڈمی کی بے بزرگی کو خوب جوڑا۔ اُس نے دوسرے علاقوں میں روشن فکر ادبی سماجی تحریک کی سرگرمیوں کے بارے میں سامعین کو آگاہ کیا۔ ایک جگہ کے ادیبوں کو دوسرے علاقہ کے ادیبوں سے روابط مضبوط کرنے کی تلقین کی ، مختلف زبانوں کے روشن فکر ادب کے تراجم کرنے کی اہمیت پر زور دیا اور روشن فکری پر پیوستگی سے جڑے رہنے کی نصیحت کی ۔
عابدہ رحمن قرار دادیں منظور کرانے کے لیے سٹیج پہ آئی۔ اس نے پہلی قرارداد پیش کی ’’کہ ملک بھر میں اور مختلف زبانوں میں روشن فکر ادبی تحریک کی ٹکڑیوں کے وجود اور خود مختاری کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں باہم مربوط کیا جائے ۔ ایک دوسرے کی مشکلات اور مسائل کو سمجھا جائے اور انہیں حل کرنے کی مشترکہ کوششیں کی جائیں‘‘۔
زبردست تالیوں سے حوصلہ پاکر اس نے اگلی قرار داد پیش کی : ’’بلوچستان کا مسئلہ سیاسی اور معاشی ہے ، اس کا کوئی دوسرا حل موجود نہیں ہے‘‘ ۔
تیسری قرار دادمیں ادب اور صحافت پہ ہر طرح کی پابندیوں کے خاتمے کا مطالبہ تھا۔
مہنگائی اور بے روز گاری کو لگام دینے کے مطالبہ کی قرار داد بھی پر جوش تائید پاگئی ۔
آخری قرار داد میں رائٹرز کے لیے مفت علاج اور رہائش کا لونیوں کی تعمیر کا مطالبہ تھا۔
قرار دادوں کی منظوری کے بعد صدر نے صدارتی تقریر میں پراگریسورائٹرز ایسوسی ایشن کے اپنے مرکزی راہنماؤں کی آمد پر اُن کا شکریہ ادا کیا۔ مقالہ نگاروں کو سراہا اور حاضرین کی آمد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اجلاس کے خاتمے کا اعلان کیا ۔ سٹیج سیکریٹری نے تنظیم کی طرف سے سب کو چائے پلائی۔ دوستوں نے زبردست فوٹو گرافی کی اورہنسی خوشی اپنے اپنے آشیانوں کی طرف چل دیے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے