اتفاق سے اُنہیں دنوں میری ملاقات کئی کمیونسٹ گھرانوں سے ہوئی اور بٹینا اپٹھیکر جو مشہور کمیونسٹ مؤرخ ہربرٹ اپٹھیکرکی بیٹی تھی میری دوست بن گئی۔
امریکہ میں کروڑپتیوں کی ایک فرم وول ورتھ ہے ۔ وول ورتھ کے جنرل سٹور امریکہ کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں درجنوں کی تعداد میں پھیلے ہوئے ہیں۔ نسلی امتیاز ان سٹوروں میں بھی برتا جاتا ہے ۔ چنانچہ فروری1960میں ایک تحریک چلی کہ ان دکانوں پر بھی نیگرو کلرک ملازم رکھے جائیں ۔ میں اور میرے کئی ساتھی چھٹی کے وقت نیویارک میں وول ورتھ کے سب سے بڑے سٹور کے سامنے پکٹنگ کرتے اور گاہکوں سے درخواست کرتے کہ وہ وول ورتھ میں سامان نہ خریدیں ۔ ۔۔یہ میرا پہلا انقلابی ، بپتسمہ تھا۔
دو سال کے بعد مجھے برنیڈس یونیورسٹی میں سکالر شپ مل گیا۔ یہ درس گاہ نیویارک سے تھوڑے فاصلے پر ایک چھوٹے سے قصبے میں واقع ہے ۔ یونیورسٹی میں گنتی کے فقط تین کالے طالب علم تھے اور وہ بھی لڑکیاں۔۔۔ ابتدائی چند مہینوں میں میں نے نصاب کی کتابوں پر بہت کم توجہ دی البتہ ادبی کتابیں زیادہ پڑھیں۔ اور کامیوؔ اور سارترؔ کے ذریعے وجودیت کے فلسفے سے بھی واقفیت حاصل کی ۔ میں کمیونسٹ ہونے کا دعویٰ کرتی تھی ۔ مگر یونیورسٹی میں ترقی پسند طلباء کی جو چھوٹی سی تحریک تھی اُس سے ربط ضبط بڑھانے کی خواہش مندنہ تھی ۔ مجھے اندیشہ تھا کہ کہیں یہ لوگ بھی مجھے نیگرو سمجھ کر میری سرپرستی نہ کرنے لگیں۔
اسی اثنا میں ایک دن خبر ملی کی مشہور نیگرو وادیب جیمس بالڈوین ادب پر لیکچر دینے والے ہیں۔مجھے اُن کا ناول ’’پہاڑ کی چوٹی سے پکار‘‘ (Go tell it on the mountain) بہت اچھا لگا تھا۔ اور میں نے اُس کی سب تحریریں پڑھیں تھیں ۔وہ تقریر کرنے کھڑے ہوئے تو میں ہال کی پہلی صف میں جاکر بیٹھ گئی مگر ابھی وہ تھوڑی دیر ہی بولے تھے کہ خبر آئی کہ کیوبا اور امریکہ کے درمیان سوویٹ اسلحوں کی وجہ سے ٹھن گئی ہے اور تیسری عالمگیر جنگ بس چھڑنے ہی والی ہے ۔ اس خبر سے جلسے میں بل چل مچ گئی۔ اور بالڈوین نے لیکچر ختم کردیا ۔
اس بحران کا رد عمل طالب عملوں میں بے حد خود غرضانہ تھا۔ جس کو دیکھو کینیڈا بھاگنے کی تیاری کر رہا تھا۔ کسی کو یہ خیال نہ تھا کہ ایٹمی جنگ چھڑی تو لاکھوں کروڑوں آدمی ہلاک ہوجائیں گے ۔ اور کیوبا کا نام ونشان تک باقی نہ رہے گا۔ بس تھوڑے سے طالب علم تھے جنہوں نے بڑی ثابت قدمی سے اس بحران کا مقابلہ کیا۔ اور امریکی حکومت کی جارحانہ پالیسی کے خلاف احتجاجی جلسوں اور جلوسوں میں پیش پیش رہے ۔ ان جلسوں میں جیمس بالڈوین اور پروفیسر ہربرٹ مارکوس نے بڑی پُر جوش تقریریں کیں۔ اور طلبہ سے اپیل کی کہ وہ ڈریں نہیں اورنہ مایوس ہوں بلکہ امریکی حکومت پر دباؤ ڈالیں کہ وہ دھونس اور دھمکی سے باز آئے۔ پروفیسر مارکوس نے ہٹلر کے زمانے میں جرمنی سے بھاگ کر امریکہ میں پناہ لی تھی اور اُن کا شمار دنیا کے چوٹی کے فلسفیوں میں ہوتا ہے۔
یونیورسٹی میں میری دوستی زیادہ تر غیر ملکی طلبا سے تھی ۔ اُن میں کوئی ہندوستا نی تھا کوئی ویت نامی ،اور کوئی جرمن ۔مجھے یہ تو یاد نہیں کہ تجویز کس کی تھی لیکن میں نے ہیلسنکی میں ہونے والے نوجوانوں کے عالمی میلے میں شرکت کا فیصلہ کر لیا۔ اس لیے کہ میری بڑی آرزو تھی کہ دوسرے ملکوں کے انقلابی نوجوانوں سے ملوں ۔ میرے پاس کوئی پونجی نہ تھی۔ لٰہذا میں نے یونیورسٹی کی لائبریری میں ، کافی ہاؤس میں، یونیورسٹی کے باہر کی ایک چھوٹی سی دوکان میں کام کر کے سفر خرچ جمع کیا۔
آخر میلے کے دن آگئے اور ہماری ٹولی ہیلسنکی روانہ ہوگئی۔ یورپ میں میں نے کئی ہفتے فرانس اور سویز ر لینڈ میں بھی گزارے۔
ہیلسنکی کا تیوہاردو ہفتے جاری رہا۔ اس سلسلے میں وہاں بڑے دلکش تہذیبی پروگرام ہوئے، سیاسی جلوس نکلے ، اور افریقہ ، لاطینی امریکہ اور ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ پر بے شمار سمینار منعقد ہوئے ۔ مگر میری رائے میں سب سے دلچسپ وہ میٹنگیں تھیں جن میں دو دو ملکوں کے نوجوان نمائندے بڑی بے تکلفی سے آپس میں تبادلہ خیال کرتے تھے۔
میں میلے سے امریکہ واپس لوٹی تو سی آئی ڈی والے میرے منتظر تھے۔ تم کمیونسٹوں کے میلے میں کیا کرنے گئی تھیں ؟ ۔کیا تم نہیں جانتیں کہ کمیونسٹوں کے بارے میں ہماری رائے کیا ہے اور ہم ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں؟‘‘۔
۔1963کے موسم خزاں میں مجھ کو برنیڈ یز یونیورسٹی کی طرف سے فرانس جاکر فرانسیسی زبان و ادب پڑھنے کے لیے ایک سال کا وظیفہ مل گیا۔ میں نے فرانسیسی زبان سیکھ لی تھی اور فلائبیر، بالزاک ؔ ، باڈلیئرؔ ، رمبا،ؔ پروسٹ،ؔ اور سارترؔ کی کتابیں فرانسیسی زبان میں پڑھ چکی تھی۔ حتیٰ کہ سارتر کی فلسفیانہ تصنیف وجود وعدم (Being and Nothingness) کو سمجھنے کی کوشش بھی کی۔ فرانسیسی زبان اور تہذیب سے آشنا ہونے کے لیے ہم کو ابتدا میں پیرس سے دور خلیج بسکے کے ساحل پر ایک چھوٹی سی تفریح گاہ بیار یز میں قیام کرنا پڑا۔ جگہ سنسان تھی کیونکہ دولت مند سیاح گرمیاں گذار کر واپس جاچکے تھے ۔ دکانیں اُجاڑ تھیں اور اُونگھتے ہوئے دکاندار راہ چلتوں کو بڑے اشتیاق سے دیکھتے تھے ۔ وہاں سڑکوں پر سے گزرتے ہوئے مجھے یوں لگتا تھا گویا بدمست شرابیوں کی محفل ابھی ابھی درہم برہم ہوئی ہے۔ اور کسی کو چیز وں کو طریقے سے رکھنے اور جھاڑ پونچھ کرنے کی فرصت نہیں ملی ہے ۔
ایک دن میں اپنے تین چار ہم سبقوں کے ساتھ کلاس سے لوٹ رہی تھی راستے میں میں نے نیویارک ہیرلڈٹر یبون کا پیرس ایڈیشن خریدا اور یوں ہی چلتے چلتے سرخیوں پر نگاہ ڈالی تو ایک جگہ لکھا ہوا تھا’’ چار لڑکیوں پر گرجا گر میں بم کا دھماکہ‘‘۔ میں نے رُک کر خبر کو غور سے پڑھا تو سناٹے میں آگئی۔ برمنگھم میں سولھویں سڑک بیپٹسٹ گر جا گھر ۔۔۔ او رنام؟ کیرول ، سنتھیا، ایڈی ، ڈنسی ، میرے منھ سے چیخ نکل گئی۔ انہوں نے تم کو قتل کر دیا؟ ۔میرے ساتھی حیران نظروں سے مجھے دیکھ رہے تھے مگر میں نے اخبار ان کی طرف بڑھادیا۔ اور بولی میں ان کو جانتی تھی وہ میری سہیلیاں تھیں۔ انہوں نے افسوس کا اظہار بڑے خلوص سے کیا اور مجھ سے یوں ہمدردی کرنے لگیں گویا ان لڑکیوں کی موت کوئی اتفاق حادثہ تھا۔ اُن بے چاریوں کے لیے یہ سمجھنا محال تھا کہ امریکہ کے سفید فام نسل پر ستوں نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نیگرو گر جاگھر پربم پھینکا تھا۔بم پھینکنے والے ذہنی مریض نہ تھے بلکہ اپنے سماجی ماحول کی قدرتی پیداوار تھے ۔ وہ چند دیوانے انتہا پسندوں کی حرکت نہ تھی بلکہ صورت حال کا لازمی اور منطقی نتیجہ تھی۔ میں نے اپنے ساتھیوں کو اس حادثے کے بنیادی اسباب سمجھانے کی بہت کوشش کی لیکن یہ بات اُن کے دماغ میں کسی طرح نہ گھستی تھی کہ پورا امریکی معاشرہ اس قتل میں ملوث ہے ۔ اور میں کیوں ان کے محبوب کینڈی کو ، پورے حکمران طبقے کو، نسل پرستی کا مجرم اور اس قتل کا ملزم ٹھہرا رہی تھی۔