ثمینہ راجہ
یہ بے حجاب عورتیں
جنہوں نے سارے شہر کو
کمالِ عشوہ وادا سے
شیوہِ جفا نما سے
بے قرار اور نڈھال کر رکھا تھا
جانے کون چور راستوں سے
کوچہِ سخن میں آکے بس گئیں
کسی سے سُن رکھا تھا ۔۔۔’’یاں فضائے دل پذیر ہے
ہر ایک شخص اس گلی کا ، عاشقِ نگاہِ دلبری
معاملاتِ شوق وحسن وعشق کا اسیر ہے
کہ سینکڑوں برس میں پہلی بار ہے
زنانِ کوچہِ سخن کو اِذن شعرو شاعری
بس ایک دعوی ء سخن وری کی دیر ہے کہ پھر
تمام عیشِ زندگی
قبولِ عام ۔۔ شہرتِ دوام کی اضافی خوبیوں کے ساتھ
پیش ہوں گے طشتِ خاص میں سجے ہوئے
مگر یہ ہے کہ دعوی ء سخن وری کے واسطے
کہیں کوئی کمال ہونا چاہیے
خریدنے کو مصرعہ ہائے تربتر
گِرہ میں کچھ تو مال ہونا چاہیے‘‘
یہ پُر شباب عورتیں
چھلک رہی تھیں جو وفورِ شوق سے
تمام نقدِ جسم۔۔۔
زلف وعارض ولب ونظر لیے ہوئے
مچل گئیں۔۔ متاع شعر کے حصول کے لیے
سخن کے تاجروں کو اس طلب کی جب خبر ہوئی
تو اپنے اپنے نرخ نامے جیب میں چھپائے ۔ ۔ پیش ہوگئے
’’نگاہِ ناز کے لیے یہ سطر ہے
یہ نظم، مسکراہٹوں کی نذر ہے
یہ ایک شعر ، ایک بات کے عوض
غزل ملے گی۔۔۔ پوری رات کے عوض‘‘
نہ پاسبانِ کوچہِ سخن کو کچھ خبر ہوئی
نجانے کب یہ مول تول۔۔ بھاؤ تاؤ ہوگیا
نجانے کب مذاقِ حسن وعشق
اپنامنہ چھپاکے سوگیا
کمالِ فن ۔۔لہو کے اشک روگیا
یہ کیا ہوا کہ پوری طرح روشنی سے قبل ہی
تمام عہد ۔۔۔ایک سردتیر گی میں کھوگیا
اور اب جدھر بھی دیکھیے
ہیں بے حساب عورتیں
ہر ایک سمت جگنوؤں کی طرح ٹمٹما رہی ہیں
شب کے سارے راستوں پہ
دستیاب عورتیں