بحر قلزم کے کنارے

مدوجزر تلے سرکتی
سنہری ریت
قدموں تلے چبھتے گدگداتے کھلکھلاتے مونگے
اور دور پرے افق سے ابھرتی
گھاٹ کی جانب رواں کشتیاں
عجب تمکنت سے
موجوں کا سینہ چیرتی ہیں
تیرے ان متبرک پانیوں کا
کہ جن پر
ناخدا کے بنا بھی
شکستہ سفینے
ساحلوں پر لنگر انداز ہوتے رہے
دنیا بھر کے ملاح
جس طرف بادبان اٹھائیں
تیری ہواؤں میں
تخلیق کے وظائف
اور
ازمنہ قدیم سے تیرے پانیوں میں نمو
تیرے سینے پر نقش
ضربِ موسیٰ کی دھمک
تیری ریت پر
فرستادہ الٰہی کی سواری کے
سْموں کے نشاں
کہ جن کی روئیدگی سے
جلوہ گر
ہر قطرہِ قلزم
بشر کے سینے میں دبے
اسرارِ کائنات
کی مانند
مگر اب
تیری سبھی ساحلی پٹیوں پر
خیرہ نگاہ طلائی سکوں کی کھنک ہے
اور انسانوں کا اک ہجوم بیکراں
آزردہ و شکستہ سکڑ رہا ہے
طبریہ کی مانند
اور کوئی ساحر
فرستادہ الٰہی کے قدموں تلے بچھی
بابرکت سْموں کی
مٹھی بھر مٹی لیے
کھنکتی طلائی دھاتوں سے
پھر وہی
بچھڑے کا کھیل رچاتا
گلیوں بازاروں میں فرمان امروز بنا
"لامساس” پکارتا ہے

پیاس

سوا نیزے کے سورج تلے
پیاس کی تپتی آنکھیں
جو تھری ریت کے بگولوں سے بلند ہوتی ہیں
تکتی ہیں چناب اور جہلم کی جانب
کئی سسیاں کئی مارویاں
ننگے پاؤں میلوں تک
پانی کی تلاش میں بھٹکتی ہیں
اور لاہور کی فضا میں
کثیف دھواں اترنے لگتا ہے
بادل راستے میں سے ہی
عیار ہوائیں چرا لیتی ہیں
اور مجھے شبہ ہوتا ہے
کہیں تھر کی تپتی آنکھوں نے
اپنی اْس زبان سے موسموں کو
کوئی بددعا تو نہیں دی تھی
جو قحط زدہ مور کے ساتھ
سوکھ کر کانٹا ہو گئی تھی

وہ روئی کیوں ہیں
جب دولت کے ایما پر
عقل کی بجائے طاقت
تمام علوم سے جماع کرنے لگی
تو مشین کو حمل ٹھہرایا گیا
اس نے جس دن جنم دیا تھا
اسی دن طے ہوا
کہ اب گوشت پوست کے
بیکار وجود
فقط جنگ کا ایندھن بنیں گے
بچوں کے اعضاکٹیں گے
مگر سیلیکون کے سامنے
لہو کا رنگ کوئی نہ دیکھے گا
عالمی منڈی کے اقتصادی ہندسوں میں
انسان بدستور سب سے ارزاں
جنس رہے گا
کبھی تیل کے بھاؤ بڑھیں گے
کبھی ہتھیاروں کے
جگمگاتے ہندسوں کے سامنے
کٹے پھٹے سکول کے بچے
کون گنے گا ؟
مذمت ہی سہی
مگر ! ۔
کون کرے گا ؟
کیوں کہ ہنستی مسکراتی
طنز کرتی غصہ دکھاتی
خوبرو صوفیہ میں
رو دینے کا سافٹ وئیر
انسٹال ہی نہیں ہوا

دھواں اور لڑکی
دھوئیں نے ماتھے پر گہرے بل ڈالے
روشنی کی عینک اونچی ناک پر کھسکاتے ہوئے
فلک تک پھیلی گرد سے
زہریلی سی سرگوشی کی
بچے کھچے درخت ساکت کھڑے
سیمنٹ کے بلند ستونوں کی اوٹ سے
سہم کر جھانکنے لگے
صبح صادق کی نرم ہوا نے
قریب سے گزرتے ہوئے
جب پتوں میں سرسرانا چاہا
تو فقط کھانس کر رہ گئی
ست رنگی تیاگے دودھیا سورج
تپتی دوپہر میں
سارے شہر کی سلواتیں
اپنی جھولی میں بھرے
اک تاسف سے
زمین زادوں کی جانب
دیکھنے لگا
سورج جو کائنات کے ابدی گیتوں کا
رازداں ہے
وہ جانتا ہے
ہر روز زمین پر
کئی نظموں کا دم گھٹنے لگ جاتا ہے
دھوئیں سے لڑتی ریحانہ جباری اور نورا حسین کو
گرد رسمِ عیسی کا پروانہ تھما جاتی ہے
ورکنگ وومن کا طوق گلے میں پہنے
ایک کم سن لڑکی
سڑک کنارے
دھوئیں کے ہاتھوں
قتل ہو جاتی ہے
کیونکہ وہ دھوئیں کی آغوش میں پھسلنے کی بجائے
اس کا ہاتھ جھٹکا جانتی ہے
دھواں دم توڑتی نظم کے پہلو میں کھڑا
سگریٹ کے گہرے کش لگاتا ہے
اور نظم کے بطن سے
ایک چیخ جیسی کہانی
جنم لیتی ہے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے