سو اب کچھ بھی نہیں ہیں
نہیں ایسے کہاں تھے
سفر کی ابتدا میں
ہماری روشنی سے بھرچکی آنکھوں میں خوابوں کے خزانے تھے
سبھی موسم سہانے تھے
ہمارا دل دھڑکتا تو
کسی کا نام سنتے تھے
اک ایسا نام جس کو ہم سے مشرک اسم اعظم جانتے تھے
ذہن اک باغ تھا
جس میں خیالوں کی حسیں پریاں مسلسلِ محو رقصاں تھیں
حسیں گیتوں کا منبع تھے ہمارے لب
صبا کی دھن پہ گائے گیت
جن سے سارا گلشن جھومتا تھا
مگر اب….
کہاں گلشن کہ جھومے
صبا اپنی جگہ صرصر بھی نالاں ہے
لبوں پر پپڑیاں ہیں خامشی کی
ہمارے گیت مردہ ہوچکے ہیں
ذہن پر واہموں نے ایسے قبضہ کرلیا کہ
خیالوں کی وہ سب پریاں چڑیلیں بن چکی ہیں
سبھی غنچوں پہ امکانات کھلتے ہیں تباہی کے
مگر وہ اسم اعظم
وہ کسی کا نام شیریں
جو ہمارے دل کی دھڑکن تھا
کسی کے نام ہوکر جاچکا ہے
ہمارا دل کسی کہرے میں گم ہے
مرچکا ہے
اب اک ایسی جگہ ہیں
جہاں بس حبس کا موسم ہی رہتا ہے
ہماری اندھی آنکھوں میں خلائیں جم چکی ہیں
ہمارے خواب تعبیروں کی قیمت دے نہیں پائے
سو اب ہم کچھ نہیں ہیں
ملامت کے خلا میں تیرتا بیجان پتھر ہیں
سبھی کچھ کھوچکے ہیں
بس اتنا یاد آتا ہے
سفر کی ابتدا میں
ہم ستارہ تھے
لٹّو۔۔
کسی شام خوابوں کی آوارگی سردہوگی
تو دریا کی لہروں کو الہام ہوگا
ہمارا تماشا ہمیِں دیکھتے ہیں
صداؤں کے جنگل گھنے ہیں مگر جل رہے ہیں
کہیں درد کی ملگجی روشنی کو اداسی کے کہرے نے لپٹا لیا ہے
مجھے اُس کے ہونے کاپورا یقیں ہے… مگر میں؟
پرندوں کے پر کترو ورنہ تباہی نہیں رک سکے گی
یہ گیدڑ کے پلے بھلا اپنے اجداد کی خوئے کہنہ کہاں چھوڑتے ہیں
ہوا خود نہیں جانتی
کونسا خشک پتہ کہاں تک اڑے گا
سکندر کے چمچے بڑے بیوفا تھے
تمہارا تعاقب فرشتوں کی شمشیر کرتی رہے گی
تو کیا موت حل ہے سبھی مسئلوں کا؟؟
چیخ
دانشورو!۔
ڈرے ہوؤ،
مجھے بتاؤ
چپ کیوں ہو
حق پہ جان دینے کے
عظیم نعرہ بازوں
چپ کیوں ہو؟
کیا تمہیں بھی جاں کا خوف ہے؟
جہاں_ بے اماں کا خوف ہے؟
تمہیں بھی اپنی بیٹیوں کا بیویوں کا خوف ہے؟
تمہاری نعرہ بازیاں
فقط تمہارا ڈھونگ ہیں؟
تمہیں کسی کی کوئی فکر کوئی دکھ نہیں؟
مگر بس اپنی جان اپنے نام کی
چلو یونہی مرے رہو
پڑے رہو
سڑے رہو
…
شاعرو!
مرے ہوؤں،
یہ بات بات پر
فراز و فیض
کرنے والے
نامراد عاشقو!
جنوں کے جھوٹے دعویدارو!۔
کیا تمہیں بھی موت آگئی؟
کبھی بھی چپ نہ رہنے والے مینڈکو!۔
تمہارے منہ میں کیسے چھالے پڑگئے؟
تمہیں بھی جاں کا خوف ہے؟
…
چلو پڑے رہو
سڑے رہو
کوئی نہیں
میرے قبیلے والے اپنی موت سے
ویسے بھی
کبھی نہیں ڈرے
کبھی نہیں جھکے
کسی بھی ظلم و جبر کے خدا کے سامنے
ہزاروں سال سے
ہماری مرنے، مارنے کی مشق ہے
ہماری موت طے ہے تو
لڑینگے ہم
مرینگے اپنی شان سے
سکوں کی موت
مگر ہمارے بعد
جب تمہاری باری آئیگی
تو کیا کروگے تم؟
ابھی سے سوچ لو
کیا پتہ کہ پھر
تمہیں یہ سوچنے کا وقت بھی نہ مل سکے..