منظر نامہ

آنکھوں میں کچھ خواب اُترے ہیں
تخیل نے کچھ منظر بُنے ہیں
اک انجان ڈگر ہے اور میں ہوں
شاید کوئی خواب فکر ہے اور میں ہوں
شش جہت خوشبو پھیلی ہے
عشق پیچاں کے پھول کھلے ہیں
دھرتی ماں کے دامن میں
کاسنی شگوفے پھوٹے ہیں
پاکیزہ سوچوں کے گلاب کھلے ہیں!۔
خواب نگر کی باڑ سے آگے
اک اور درکھلا ہے
ذرا دیکھوں تو
یہ میرے شہر کا رستہ ہے
مگر تمام رستہ لال لہو جیسا
لال لہو کا سمندر کوئی نہیں
کئی خالی پوشاکیں، تن اندر کوئی نہیں
یہ میرے شہر کے رستے میں کونسی قتل گاہ ہے ؟
جہاں معصوموں کا لہو رِ ستا ہے
جہاں انسانوں کی گردنیں کٹتی ہیں
کسی کی سوچ کی دھجیاں پڑی ہیں
لہولہان ہے خواب کوئی
پتی پتی بکھرا ہوا گلاب کوئی
کیا یہ اُسی دھرتی ماں کی چھاتی ہے
جہاں ہر جانب سے بارود کی بو آتی ہے
یہ چلتے چلتے کونسا منظر آگیا
میرا خواب نگر کہیں پیچھے رہ گیا
بلبل چڑیا، دھنک ، نہیں کچھ
شبنم نہ کلیاں، پھولوں کی مہک نہیں کچھ
کسی متوالی کا آنچل نہیں، تار تار ردائیں ہیں
بین کرتی کچھ مشترکہ صدائیں ہیں
خدارا کسی طور آنکھ کُھلے ، منظر بدلے، یہ خواب ٹوٹے
ڈھل جائے رات، سحر ہو، شفق پھوٹے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے