ایک یا قوتی نظم
(کوئٹہ کا نوحہ)

اے مرے دوست
میری ایک تمنا تھی کہ میں
تیری چاہت میں
کوئی نظم لکھوں
اک تیرے پیار کی حدت میں تپکتی ہوئی نظم
جس کا ہر لفظ ہو
یا قوت کا لفظ
تیرے جذبات کی حدت میں
سلگتا یا قوت
اور یا میرے حیا رنگ
لبوں سا یاقوت
سرخیِ حُسن سے دہکا یا قوت
گرمئی عشق سے جلتا یاقوت
مگر افسوس……….!۔
مرے شہر کی بازاروں میں
ہر دکاندار سجائے ہوئے ہے
سرخ انگار
بنامِ یاقوت
جس میں نفرت ہے، تعصب ہے ریاکاری ہے
جس کی سرخی میں وہ
حدت ہے کہ جل اٹھتے ہیں ہاتھ
ایسے عالم میں،بھلا کیسے کہوں
نظم کی صورت کوئی بات
اے مرے دوست
مجھے دکھ ہے کہ
میرے اطراف
اب فقط ایک ہی سرخی ہے
لہو کی سرخی
بے گناہی کے لہو کی سرخی جو مرے جسم سے نکلا ہے
بررنگِ دریا
جو تیرے جسم نے اَگلا ہے
سرِ کرب و بلا
جو مری آنکھ سے بہتا ہوا اِک آنسو ہے
جو تیرے ہونٹوں سے چپکا ہوا اِک نوحہ ہے
سو میرے دوست!
محبت کی کسی نظم میں بھی
کوئی آنسو کوئی نوحہ تو نہیں ہوتا ہے!؟
شہرِ جاں خون میں ڈوبا تو نہیں ہوتا ہے!؟
ہاں مری جان!
مرے پاس کوئی لفظ بھی یاقوت نہیں
اس لئے نظم نہیں
تیری چاہت میں لکھی اور محبت میں گندھی
کوئی بھی نظم نہیں!۔
کوئی بھی نظم نہیں!۔

محبت اِک ستارہ ہے

محبت سرخ ہونٹوں پر سجی مسکان ہوتی ہے
محبت آنکھ کا آنسو نہیں ہوتی
محبت رات کی تاریکیوں میں جگمگاتا
اک ستارہ ہے
محبت نفرتوں کی آگ میں جھلسے
تو نسلوں کا خسارہ ہے
محبت بچپنے کے ہاتھ پر رکھا کھلونا ہے
محبت نوجوانی کی حسیں آنکھوں میں
بے خبری کا سونا ہے
محبت اپنی بے توقیریوں پر خون روتا ہے
محبت موت کی قبروں پہ جا سوئے
تو باقی کچھ نہیں بچتا
نظر میں کچھ نہیں جچتا
محبت سرخ ہونٹوں پر سجی مسکان ہوتی ہے
تو پھر آ? چلو اس مسکراہٹ کو بچا لیں
وہ جن کے خواب آنسو ہیں انہیں مل کر
ہنسا لیں
نئی نسلوں کی خاطر
زندگی کے گلستانوں میں
محبت کا کوئی غنچہ کھلا لیں
محبت کو بچا لیں
محبت کو بچا لیں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے