چھپکی 

سنو نظم اپنی کو تکیہ کیا ہے
کہ بستر پہ لیٹے
خودی کو لپیٹے
خیالی جمودوں کے اس قافلے میں
تمھاری ہی باتیں کیے جا رہے ہیں
جنوں میں، ہواؤں، فضاؤں کے گہرے دھویں میں
نظر بانجھ ٹھہری
کہ دستک بھی کانوں سے کب سن رہے ہو
مگر اندھی آنکھوں کو کوئی دکھائے
جسے تم نے کھوجا نہیں آج تک وہ
کہیں اپنی چادر کو اوڑھے بچھائے
تمھارے ادھورے سے سپنوں میں ڈوبے
کہیں اور راتوں میں دن کو سجائے
دبے پاؤں رکھ کے
چلے اپنی جانب
دیئے کو بجھائے
وہ سونے چلی ہے…..۔

تمثالچہ

تماشہ آج دیکھو گے
ذرا کردار تو سن لو
پری اک جن کی قیدی ہے
وہ بونے قد کا شہزادہ
میری تصویر لے لے کر
ہوا پانی کی بنیادیں
زمیں آکاش کے پردے
خلا کشتی کو لے کر وہ
خدا سے جنگ کر آیا
دعا داخل، دیا، جگنو
دَرُودوں سے سجی لڑکی
سیاہ چادر میں لپٹا گھر
میرے قد سے بہت اوپر
وہ بونے قد کا شہزادہ
خدا سے آج مل آیا۔۔۔۔

گٹھی گم

میں سوچوں کے ریشم کو جتنا سمیٹوں
کوئی خواب ان میں پروؤں، کریدوں
کہ تکیے پہ رکھ دوں، سلاؤں، جگاؤں
کسی تار پہ دھو کے انکو بچھاؤں
گراؤں، اٹھاؤں، زمیں پہ سجاؤں
سلجھتی نہیں ہیں، سلگتی نہیں ہیں
الجھتی ہوئی نرم ریشم کی گتھی کو آؤ بناؤں
کہ سوچیں نئی ہیں
یہ سوچیں نہیں ہیں
انہیں سی کے رکھ دوں
کہ تم سے ملیں تو
یہ سمٹی ہوئی ہوں۔۔۔۔۔

بیراگ

خوف کے ستاروں میں
آخری ستارہ تم
جس کو توڑ لائے ہم
ایک سانس گھٹتی ہے
روشنی ستارے کی
ایک سانس مرتے ہیں
آخری ستارے پہ
موت سب کو لاحق ہے
پر جنوں کے صدقے میں
ایک لمحہ جی لیتے
عشق کی زیارت میں
دور سے ہی تکتے تو
عمر تھوڑی بڑھ جاتی
آخری ستارے کی
اور اسکی داسی کی
روشنی جو کھو بیٹھی
ایک اُسکی لالچ میں
بس زمیں کی ہو بیٹھی

در، دریچہ، دروازہ

دوڑو بھاگو
ریس لگاؤ
آنکھیں میچیں
کنڈی تالہ
دستک دل پہ
چھید لگاؤ
بند دروازہ
خالی چوکھٹ
موت اندھیرہ
در سے جھانکو
کان لگاؤ
سوکھی ٹہنی
بند گلی میں
ایک دریچہ
آس دلائے
کھولو مُٹھی
آؤ جاؤ
ریس لگاؤ
دوڑے جاؤ

گڑیاں

البیلی اٹھکیلی سکھیاں
کٹھ پتلی کے دھاگوں جیسی
لپٹی سہمی گیلی چڑیاں
تارا تارا گنتے رہنا
بھیگی بھیگی ننھی پریاں
جو آنگن سے اُڑ جاتی ہیں
آوازوں سے ڈر جاتی ہیں
پھرچیخوں سے مر جاتی ہیں
البیلی اٹھکیلی سکھیاں
یوں دھاگوں میں بٹ جاتی ہیں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے