6/6

مری آنکھیں
تمہاری دید کی خواہش لئے
جب بھی تمہاری جھیل آنکھوں تک پہنچتی ہیں
وہاں پہلے سے ہی اک آنکھ (یعنی تیسری)
موجود ہوتی ہے
یہ سن رکھا تھا میں نے
روزمرہ کی مثالوں میں
کہ اندھوں میں جو کانا ہو
اسی کا راج چلتا ہے
مگر اندر ہی اندرہر کوئی واقف ہے
(بھیتر جو کہانی ہے)
یہاں کانا تو بینا شخص پر بھی راج کرتا ہے
یہ کانا کیا کوئی دجال ہے
تم جس سے ڈر کر
مجھ سے پہلے اس کو
اپنا آپ اچھے سے دکھاتی ہے
تم اپنی دید کا پہلا نوالہ اس کو دیتی ہو
مجھے جھوٹا کھلاتی ہو
”نہیں کھانا مجھے دجال کا جھوٹا”
(یہ میں اس سے نہیں
بس دل ہی دل میں خود سے کہتا ہوں)
اسے معلوم ہی کب ہے
کہ یہ جو تیسری ہے
اس کے ریٹینا کا پچھلا در جہاں کھلتا ہے
وہ دیوار دنیا کو نکلتی ہے
(میری برداشت سہہ جائے
اگر بس ایک ہی دجال تم کو دیکھ سکتا ہو)
یہاں لیکن تمہارا سب کاسب
دنیا میں جتنے ہیں
وہ سب کے سب۔۔۔
میں یہ سب سہہ نہیں سکتا
تمہیں دیکھے بنا بھی رہ نہیں سکتا
مجھے بی پی کا کوئی مسئلہ پہلے نہیں تھا
ہاں مگر اب خون میرا کھولتا ہے
جب کبھی گاڑی چلاتے وقت کوئی بورڈ آ جائے
جہاں لکھا ہوا ہو سپیڈ کم رکھیں
یہاں سے کچھ قدم آگے سڑک پر
کیمرے کی آنکھ تم کو دیکھتی ہے

ٹچ اسکرین

میں اپنی شاعری
اک ڈائری میں نوٹ کرتا تھا
کوئی احساس مجھ میں نظم بھرتا
یا کوئی مصرعہ اترتا تھا
تو سب سے پہلے مجھ کو
نوٹ بک درکار ہوتی تھی
جہاں کاغذ کی حدت سے
قلم کی روشنائی کی حرارت سے
غزل تیار ہوتی تھی
ِبنا اس دھیمی دھیمی آنچ کے
میرے لئے ہر نظم ہی دشوار ہوتی تھی
پھر اک دن مجھ کو (چچا زاد) بھائی نے یہ بتلایا
(وہ خود بھی نوجواں اردو کا شاعر ہے)
وہ اپنی شاعری سیل فون میں محفوظ کرتا ہے
سو جب چاہے اسے پڑھتا ہے
اوروں سے شیئر کرکے انہیں محظوظ کرتا ہے
اسے بجلی کے آنے جانے سے
کچھ فرق پڑتا ہی نہیں
نہ ہی اسے دن رات سے کچھ لینا دینا ہے
اسے جب شاعری کرنی ہو
تو کاغذ قلم کی کھوج میں
لمحہ تلک ضائع نہیں کرتا
جہاں وہ شعر اپنا نوٹ کرتا ہے
اندھیرا بھی وہاں سایہ نہیں کرتا
سو اُس کی بات سن کر
میں نے اپنی ڈائری سنبھال لی
اور اپنے موبائل میں مصرعہ لکھتے لکھتے
دوست کی اک کال لی
پھر کال گھنٹوں تک چلی
بیکار کی خواہش (وہ مصرعہ پورا کرنے کی)
میرے اندر پلی
لیکن وہ پھر جاتی رہی
پھر یوں ہوا جب بھی کوئی الہام
میرے در کو کھٹکاتا رہا
جب کیفیت کوئی میرے احساس تک آتی رہی
میں اس سمے
سیل فون کو ڈھونڈا کیا
لیکن وہاں احساس کو اک ربط میں
تحریر کر پانے سے پہلے
بیسوں بے ربط بے حس نوٹی فیکیشن
میری سکرین پر ظاہر ہوئے
اور ہم ہمیشہ کے لئے کچھ لکھنے سے قاصر ہوئے
گم ہو گئے ان بےِ حسوں کی فوج میں
آئی نہ میری شاعری پھر موج میں
اب سوچتا ہوں کیا پرانی ڈائری بہتر نہیں
دیوان میرا فون کے اندر نہیں
ٹچ سکرین کے اس پار ہے
شاید میرے الفاظ کی یخ بستگی کو
صرف کاغذ کی تپش درکارہے

مَوت تک مَون ورتھ

میں کارخانہ ہوں خامشی کا
مشینیں جو
(شور سے گزر کر)
مرے لیے خامشی بناتی ہیں
نصب ہیں وہ بدن کے اندر
یہ میری آواز اور الفاظ
را میٹرئل ہیں اس عمل کا
کوئی بھی خواہش ہو
یا محبت
یا شاعری ہو
سبھوں کا پروڈکٹ خامشی ہے

ذخیرہ اندوزی ایک ممنوع عمل ہے لیکن
مرا تو بچپن کا مشغلہ ہے
بدن کے اندر گودام ہیں جو بھرے پڑے ہیں
گودام خالی بھی کس طرح ہوں
نہ خامشی کی کوئی صدا ہے
نہ ایسا آلہ بنا ہے کوئی
جو زیرو ڈیسی بل کو سن سکے
اور نہ کوئی بازار ہے جہاں پر
ڈیمانڈ ہو اس قدر نویلی
اور ایسی اینٹیک خامشی کی
مونوپلی ہے
یہاں تو شورش کی دھاندلی ہے
اُسی کی سپلائی ہر طرف ہے
ہماری پرڈوکٹ بر طرف ہے

مگر مشینوں کو کون روکے
بنا رہی ہیں
سٹاک بڑھتا ہی جا رہا ہے
یہاں پہ ایکسچینج کا کوئی سلسلہ نہیں ہے
فقط گوداموں کا سلسلہ ہے
جو اب بدن کے تمام حصوں سے چلتے چلتے
نڈھال پیروں کی انگلیوں تک پہنچ چکا ہے
اور اس سے آگے
بس ایک تاریک خامشی ہے

اور جو دسترس میں نہیں

جب وہ غصے میں ہوتی ہے تو
کچھ بھی کہہ جاتی ہے
دکھ تو ہوتا ہے پر
اصل میں مجھ کو تشویش رہتی ہے
اُس بارے جو
اس کے ہونٹوں پہ آ تا نہیں
دل میں رہ جاتا ہے

دوست کتنے ہیں جو
دل میں آنے سے پہلے ہی بَک دیتے ہیں
کہتے رہتے ہیں اچھی بُری
اور وہ دوست جو ہر جگہ
بیٹھا رہتا ہے خاموش
بس سر ہلاتا ہے ہاں میں
مگر کچھ بھی کہتا نہیں
کوئی لاوا ہے اس میں ابلتا ہوا
جاننے کا اُسے
کس قدر اشتیاق ہے مجھے

ماں کی آنکھوں میں
رحمت کی ٹھنڈک
مجھے ماں کے ہاتھوں میں
شفقت کی حدت
مجھے ماں کے دل میں
دعاؤں کی کثرت
بہت ہے یقیناً بہت ہے
مگر مجھ کو وہ پیار بھی دیکھنا ہے
جو ستر گنا ہے

پہاڑوں سے لگ کر نظر رک سی جاتی ہے
دل ان کی ہیبت سے لرزاں سا رہتا ہے
پر کانپتے کانپتے بھی
یہی ذہن میں گونجتا ہے
کہ اس پار کیا ہے
جو آنکھوں سے اوجھل ہے

بس دیکھ لیتا ہوں میں
نظم میں نظم موجود ہے
نظم میں نظم کا ذکر ہے
ہاں مگر
نظم سے بھی زیادہ مجھے
نظم سے ماورا نظم کی فکر ہے

This age of lurkers

وہ دکھتے نہیں ہیں
مگر دیکھتے ہیں
یہ کارِ مسلسل وہ کب سے کیے آ رہے ہیں
وہ کچھ بولتے ہیں
نہ کچھ لیکھتے ہیں
مگر ان کو سب کچھ پتا ہے
وہ پہلے بھی تھے
کم تھے!
لیکن نہ جانے وہ کب سے چلے آ رہے ہیں
اگر ابتدا تک پہنچ پاؤ
تو یہ کھلے گا
وہ صرف ایک تھا
اب تو اتنے زیادہ ہیں
گر دو تہائی کہو بھی تو کم ہے

تماشائی بھی دو تہائی ہی ہوتے ہیں
وہ ہر تماشے پہ ہنستے ہیں روتے ہیں
جب جب تماشا
بدلتا ہے کروٹ
تو بجتی ہے تالی
کہیں قہقہے اور ہوٹنگ
کہیں سیٹیاں اور نعرے
ایجنسیز سر گرم ہیں
سردیوں گرمیوں میں
ویرانوں میں آبادیوں میں
جنازوں میں اور شادیوں میں
اداروں پہ، افراد پہ
گھر محلوں پہ
سڑکوں پہ، چوکوں پہ
ان کی نظر ہے
بازاروں میں، مالوں میں
مسجد میں
پارکنگ میں، پارکوں میں
اور پارلروں میں
چوباروں میں، چکلوں میں
ہوٹل کے کمروں میں
اور باتھ روموں میں
ہر ایک اینگل سے کیمرے لگے ہیں
گنا جائے گر ان کی آنکھوں کو
اور کیمروں کو
تو یہ بھی کہاں دو تہائی سے کم ہیں

فرشتے جو کاندھوں پہ بیٹھے ہیں
چپ چاپ
خاموش
وہ بھی تو دو ہیں
گنے جا رہے ہیں گناہوں کو
اور نیکیوں کو
انہیں اس قدر دیکھنے کی ہدایت ہے

وہ نیتیں بھی نہیں چھوڑتے
یعنی یہ دو تہائی
کوئی عام طبقہ نہیں ہے
یہ وہ لوگ ہیں
سلسلہ جن کا جا کر ملائک سے ملتا ہے
ایجنسیوں کی ہے بنیاد ان کے اصولوں پہ
اور یہ تماشائی ہیں
جو کہ اسباب ہیں اس تماشے کے پیچھے

بھلے فیس بک ہو
یا ٹویٹر یا وٹس ایپ
یا زندگی ہو
کوئی ان کی آنکھوں سے بچتا نہیں ہے
اگر یہ کہیں
کچھ صحیح یا غلط دیکھتے وقت
پکڑے بھی جائیں
تو شرمندگی ان کو ہوتی نہیں ہے
جو ہو بھی تو کیوں کر
صحیح اور غلط کا ہر اک فیصلہ
دو تہائی ہی کرتی ہے

نظم کو نظم کے حال پر چھوڑ دو

ابتدا سے کبھی نظم ہوتی نہیں
اور کبھی ابتدا سے بھی پہلے کہیں
نظم ہونے کے آثار ملتے ہیں
جیسے کہیں قبل از زندگی
زندگی کے تصور سے پہلے
(مگر۔۔۔۔زندگی سے بھی بہتر)
برآمد ہوئی کوئی تہذیب۔۔۔

تہذیب ملتی تو ہے
پر کبھی ابتدا اس کی ملتی نہیں
ابتدا سے بھی پہلے۔۔۔۔
تلک ذہن جاتا نہیں
(اور تہذیب سے لینا دینا بھی کیا)
نظم کی ابتدا نون سے۔۔۔
نون لیگی نہیں
یہ حروفِ تہجی کا اک رکن ہے
۱۔ جیم سے جسم
۲۔ چے سے چمک
۳۔ ڈال سے ڈالڈا
۴۔ سین سے scene (اوپر کے تین)
۵۔ wow سے وہم

جو کس قدر اہم ہے
نظم کے وسط میں
جو کہ ہوتا نہیں
دائرہ تو نہیں
ٹرائی اینگل نہیں
ہیگزا گونل نہیں
خط نہیں۔۔۔۔ wave ہے
یعنی آواز جیسی کوئی چیز ہے
میگنٹ کی طرح کوئی شے ہے
ہوا سا کوئی معاملہ ہے
کوئی کرنٹ ہے
جس کے لگنے سے بھی
نظم مرتی نہیں

نظم کی انتہا کیوں کہ ہوتی نہیں
ختم ہو جاتی ہے بیچ میں ہی کہیں
(جس طرح کچھ جواں مرگ۔۔۔۔)
یا انتہا پر پہنچ کر بھی تشنہ ہی رہتی ہے
جیسے
۔ وہ سب زندہ لاشیں کہ جو موت کی ڈیٹ کے بعد بھی جی رہی ہیں۔
۔ دوا اپنی مدت مکمل کیے ایک بیمار گاہک کی رہ دیکھتی ہے۔
۔ یہ پانی کی لالچ بہت بڑھ گئی ہے جو ٹینکی کو بھر کر لبالب بقایا دیواروں کی بنیاد میں چھوڑ دیتے ہیں
۔ بجلی کے آنے کا وقت آ بھی جائے مگر ان کی اپنی گھڑی ہے۔
نجی دفتروں کے ملازم کی چھٹی کے اوقات ہوتے ہیں لیکن اسے دیر تک بیٹھنے اور بٹِھانے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے