آج بہارکا آخری دن ہے
اور فضا میں
کلیوں اور پھولوں کی سسکی گونج رہی ہے
پتے جھڑ جانے سے پہلے
شاخ کے سینے سے لپٹے ہیں
اور اخباریں چیخ رہی ہیں
غزہ پہ وہ بارود گراہے
لگتا ہے اس بار سمندر جل جائے گا
اور لاہور میں
ماں اور اس کے دو بچوں کی لاشیں نہر میں تیر رہی ہیں
مہنگائی کی ڈائن آکر
غربت کے پامال گھروں کا سارا راشن چاٹ گئی ہے
جانے شام کی کیا حالت ہے
وہاں پہ سورج نکلے گاہ یا رات رہے گی
آج بہار کا آخری دن ہے
پھول کا ماتم،
دل کے زخموں کا نوحہ لکھنے بیٹھے تھے
لیکن ان سوچوں نے دل کے غم کا رستہ روک دیا ہے
مصرعہ مصرعہ
سوچ پیادہ نئی ڈگر پر چل پڑتا ہے
اس کا رستہ کیسے روکیں
ہاتھ،
کوئی زنجیر نہیں ہیں
ان آنکھوں کے نرم ملائم خواب،
کوئی تعزیر نہیں ہیں
اور اس غم کو دو مصرعوں میں کیسے باندھیں
صاحب ہم کوئی میر ؔ نہیں ہیں
مست توکلی
توکلی مست !۔
سمو کی خواب آلود آنکھوں سے
گری تھی جو تجلی تیرے سینے پر
اگر وہ طور پر گرتی تو جل کر راکھ ہوجاتا
وہ کیسا حسن آفاقی تھا
جس تمثیل کی خاطر
نجانے کیسے کیسے حسنِ فطرت کے فسوں انگیز نقشے کھینچتا تُو
تری رمز آشنا نظروں نے کیسا خواب دیکھا تھا
نہ تھی جس کی کوئی تعبیر ممکن
نجانے کتنے رنگوں کو سمیٹا
کتنے احساسات کا میلہ لگایا
پرندے ، پھول، چاند، جگنو، تتلیاں، لعل وگہر، کہسار ، صحرا ، پیڑ ، چشمے (نخلِ طوبہ، آبِ کوثر)
استعارے لے کے آیا
پروہ کیا تصویر تھی تیرے تخُیل میں
یہ کس آغوش کی خواہش تھی تیری بے قراری کو
کہ جو کاہاں سے لے کر
سندھ کے بے انت صحراؤں کی بانہوں تک نہیں ملتی
زُباں کو کس طرح اس بات پر قائل کیا تُونے
کہ اس صحرا برابر تشنگی کو کم نہیں کرنا
نظر کو مست رکھنا ہے
مگر ساغر کا پیکر نم نہیں کرنا
گراں لمحہ تھا وہ کیسا
جسے تو عمر ساری تیاگ کر بھی جی نہیں پایا
وہ کیسا زخمِ لامحدود تھا
جس کو کہ تارِ زلفِ جاناں سی نہیں پایا
میزان
زمانے ہوگئے
آسودگی ایسی نہیں دیکھی
کہ جیسا غم ملا ہے
زباں نے قہقہوں کی اتنی شیرینی نہیں چکھی
کہ جتنا آنکھ پتلی نے
نمک کے سنگ چاٹے ہیں
نجانے اختیارِ جبر کی معیاد کتنی رہ گئی ہوگی؟
ہنوز اُمید کی شمعیں یہاں جلنے سے ڈرتی ہیں
نجانے خواہشوں نے کتنا جیون جی لیا ہوگا
جو لمحہ لمحہ مرتی ہیں