میں مار دیا جاؤں گا

افسوس کہ
بہت سا وقت
ان ہاتھوں کو ہموار بنانے میں ضائع ہوگیا
جو ایک دن میرا گلا گھونٹ دیں گے

ژاں ژینے کی بالکنی کے نیچے
موسیقی فروش
اور کباب بھوننے والے
مجھے بتاتے ہیں
مجھے ایک دن کھڑا کر کے مار دیا جائے گا
میری قبر بے شناخت رہ جائے گی

اسی عمارت کی پہلی منزل پر
دانتے کا جہنم ہے
اور اس سے اگلی منزل پر خدا کا
مگر میرے ساتھ ایک دریا ہے
جس کو ابھی سیڑھیوں پر چڑھنا نہیں آتا

مجھے سؤروں کے باڑے میں سلا دیا گیا
جب کہ جس معاوضے پر
میزبان مجھے اپنی بیوی کے بستر پر سلا دیتا
وہ میری جیب میں موجود تھا

افسوس کہ
میری نیندیں
میری راتوں پر ضائع ہوگئیں
افسوس کہ
میں نے جان ڈن کے گرتے ہوئے ستارے کو پکڑ لیا
افسوس کہ
افسوس کرنے میں بہت سا وقت ضائع ہوگیا
اتنا وقت کہ
اینٹوں سے ایک مکان بنایا جا سکتا تھا
نظموں سے ایک مجموعہ چھاپا جا سکتا تھا
ایک عورت سے ایک بچہ پیدا کیا جا سکتا تھا

افسوس کہ
میرا بچہ
ایک عورت کے بطن میں ضائع ہوگیا
جب کہ مجھے مارا جانا چاہیے تھا
جب کہ

جلد یا بدیر
میں مار دیا جاؤں گا
میں مار دیا جاؤں گا
جیسے کہ تادیوش روزے وچ کی نظموں کے
کرداروں کو مار دیا جاتا ہے

اگر تم تک میری آواز پہنچ رہی ہے

اگر تم تک میری آواز نہیں پہنچ رہی ہے
اس میں ایک بازگشت شامل کرلو
پرانی داستانوں کی بازگشت

اور اس میں
ایک شاہزادی
اور شاہزادی میں اپنی خوبصورتی

اور اپنی خوبصورتی میں
ایک چاہنے والے کا دل

اور چاہنے والے کے دل میں
ایک خنجر۔۔۔۔۔۔

خشک ہوتی ہوئی بندر گاہ

می شام لی اسٹریٹ پر
رہنے والی شمائلہ
غنی کو چاہتی ہے
جو ایک افسوس ناک ملازمت پر جاتے ہوئے
اس کے گھر کے سامنے سے
گزرتا ہے
پولیس ہیڈ کوارٹرز کے احاطے میں قید
بادام کے درختوں تک
پہنچ کر
غنی
اسے دن بھر کے لئے فراموش کرنے میں کامیاب ہوچکا ہوتا ہے
ایک بد وضع کھڑکی
جس کی تعمیر کی درجہ بندی نہیں کی جا سکتی
ہر صبح کھل جاتی ہے
ایک شخص کو اس بندر گاہ کی مخالف سمت جاتے ہوئے
دیکھنے کے لئے
جو خشک ہو رہی ہے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے