”وقت”
1
پرانی حویلی
کے اک خستہ و سالخورہ سے کمرے میں
رونے کی آواز
۔ بچے کے رونے کی آواز ۔
ادھر کچھ صداؤں کی آپس میں سرگوشیاں
قہقہے
اور گھٹتے ہوئے قہقہے
اور پھر خامشی
وقت چلتا رہا
2
محلے کے اک گھر میں
جلتے ہوئے
قمقموں کی دھنک
اور ڈھولک کی تھاپ
نشۂ رقص میں محو قدموں کی چھاپ
گیت، گانوں کا شور
اور
بجتی ہوئی تالیاں
تیز رنگوں میں ملبوس
کچھ دوستوں کی
شرارت بھری
گالیاں
قہقہے
اور گھٹتے ہوئے قہقہے
اور پھر خامشی
وقت چلتا رہا
3
دواؤں کی بدبو سے لبریز کمرے میں
کچھ آبدیدہ نگاہوں کا مرکز بنا
وہ بوڑھا
کہ جو حالت نزع میں
جانے کیا بک رہا تھا
جو چپ ہوگیا تو
بکھرنے لگیں چار سو سسکیاں
لمحہ در لمحہ
بڑھتی ہوئی سسکیاں
اور پھر خامشی
وقت چلتا رہا؟
یا رکا؟
کیا خبر!
مجھے کیا خبر!!.
کہ میں ہی وہ بوڑھا تھا جو مرچکا تھا۔۔۔۔
گاڑی کا پچھلا پہیہ
پیٹھ سے ملتے میرے پیٹ نے اپنے دل پر پتھر رکھا
اور اندر کو دھنسی ہوئی بے خواب آنکھوں نے
اک سپنے کو چھوڑ کے باقی سپنے بیچے
بینائی پر دھندلاہٹ کا پردہ کھینچا
پچکے گالوں کی اندر کی دیواروں میں
رہنے والے خشکیدہ میلے دانتوں نے
لقمۂ تر سے رشتہ توڑا
کام میں جت کر رہنے والے
ان کمزور اور کانپتے بے قابو ہاتھوں نے
روز روز بھر میرے منہ کا منہ نہیں دیکھا
سر میں جوں ہی چکر آیا
گلی گلی کے چکر کاٹنے والی میری ٹانگوں نے بھی
اس چکر کا مان رکھا
اور
جسم کو زور سے دھکا دے کر
کبھی کسی دیوار سے مارا
گاہ زمیں پر ایسے پھینکا
گویا اک کچرے کا ڈھیر ہو
یا پپسی کا خالی ڈبہ
۔۔۔۔ کچھ سکے ہیں میری جیب میں
جن کو میری بھوک نے پس انداز کیا ہے
گلی کی اک دکان میں جوتوں کا اک جوڑا
روز مجھے یوں پاس بلائے
گویا مقناطیس کوئی لوہے کا ٹکڑا کھینچ رہا ہو
اور میں اس دکان کے باہر
گھنٹوں چمکیلے شوکیس کے اک شیشے سے
لگ کر ان کو جتنی محبت، جتنی عقیدت سے تکتا ہوں
اتنی عقیدت مجھ کو خدا سے بھی نہیں ہوگی
۔۔۔۔ شاید۔۔۔۔
اب تو مرا معمول ہے ان جوتوں کو تکنا
اور پھر اپنی زخمی ایڑیوں کو سہلانا
جن کی دراڑیں اب ٹخنوں تک آپہنچی ہیں
میرے پیسے بڑھ نہیں پاتے
اور جوتوں کی قیمت دوگنی ہوجاتی ہے
آہ! مری آنکھوں میں پھر سے آنسو آئے!!۔
جھلمل جھلمل خواب آنکھوں کے مرتے رہتے ہیں
میری نظریں چاٹتی رہتی ہیں شوکیس کے شیشے کو
اور کچھ چوہے میری جیب کترتے رہتے ہیں!!!۔