اس بلوچی ناول کا اردو ترجمہ(شاہ محمد مری) پڑھتے ہوئے چھ باتیں آپ کو گرفت میں لیتی ہیں۔
انتساب کا یہ فقرہ’’اس تڑپ ،حسرت کے نام جو مجھے گندم کی روٹی کا محض ایک ٹکڑا ملنے کے لئے ہوتی تھی
’’ دوسرا شاہ محمد مری کے دو دیباچے جو شاہنامے کے ہم پلہ ہیں سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا لکھوں کیا چھوڑوں؟’’نظریات سے ہٹ کر بھی دیکھیں تو آرٹ،کلچر اور لٹریچر سب پیسے کی مٹی میں ملا دیے،ہماری زمین کی کوکھ ایسی اولاد پیدا کرنے پر لگا دی گئی ہے،جس کا بیج بھی باہر سے(جالندھر/ضیا الحق) کھاد بھی(عرب ممالک) اور کرم کْش ادویات بھی(امریکہ) یعنی ہماری اگلی نسلوں کے پیروں تلے اپنا کلچرل گراؤنڈ ہوگا ہی نہیں۔۔۔۔۔بد بخت ہیں وہ جو بلوچی کو قومی زبان بننے نہیں دیتے جو اسے تعلیمی و سائینسی زبان بننے نہیں دیتے‘‘
تیسری بات یہ کہ یہ ناول بلوچی کے رخشانی لہجے میں لکھا گیا جو افغان بلوچ بولتے ہیں دریائے ہلمند کے کنارے پر بسنے والے اسی لئے ڈاکٹر مری نے باید(چاہئے)کا ترجمہ نہیں کیا اور اسے ایسے ہی رہنے دیا ہے
چوتھی بات یہ کہ یہ ناول پریم چند کے گؤدان اور کرشن چندر کی کئی کہانیوں کی فضا کی یاد دلاتا ہے’’کس کو جرات ہو سکتی ہے کہ کہے کہ حاجی خان کے جعلی بہی کھاتے جھوٹے ہیں جبکہ اس کا گواہ مولوی عبدل ہے‘‘
پانچویں بات یہ کہ مظلوموں کو اندھیری رات میں دھکیلنے کی کوشش نہیں کی بلکہ ندیم اور شوکت صدیقی کی طرح مظلوموں کو جیل میں جا کر پڑھ لکھ کر اپنے معاشرے کو بدلنے کا عزم دیا ہے
البتہ چھٹی بات تھوڑا سا افسردہ کرتی ہے کہ انقلاب کے بعد آپ کا ٹالسٹائی، چیخوف، تورگنیف اور پوشکن فوت ہو جاتے ہیں اور اچھے بھلے ناول کا تاثر ملیا میٹ ہو جاتا ہے کہ سوشلسٹ انقلاب کی ضرورتیں پوری کی جا رہی ہیں۔