اے یادگارِشہرِ اجل، وصلِ جاں میں رہ
اے ہجرتوں کے پیڑ، نظر کی اماں میں رہ
خوابوں کے نمکدے سے گزر کر زمیں پہ آ
شیرینیء خیال میں آبِ گماں میں رہ
اْس گْمشدہ وْجْود کی خوشبْو کو ڈھونڈنے
گْم گَشتہ سبزہ زار کی راہِ رواں میں رہ
پھولوں کی عْمر چْن کہ تْو مجھ سے جدا نہ ہو
بن کر ہَوا، ہمیِشگی کے صْبحداں میں رہ
دیوانگی کو چھوڑ کے ملتا ہے گر شرَف
بہتر یہی ہے قافلہ رائیگاں میں رہ
دیدہ ورانِ فن کی گروہ بندیوں سے بھاگ
غارِہنر کی چْپ میں یا کْنجِ نِہاں میں رہ
آنکھوں میں تیری رات ہے اور رات میں سفر
کچھ پل ٹہر بْریدہ شفق آستاں میں رہ
جو داغ جل رہے ہیں یہ لشکر کو سَونپ دے
لَو بن کے اپنی مِٹی کے آئندگاں میں رہ
تیرے لیے نہیں رہی بھیدوں بھری فِضا
اے عْمر خود سے آنکھ مِلا، نیستاں میں رہ