۔2۔خاندان میں عورت مزدوروں کی حالت
بلاشبہ عورت مزدور صرف اس لیے دکھ نہیں اٹھاتی کہ وہ کام کرنے باہر جاتی ہے۔ بلکہ وہ عورت ہونے کی وجہ سے بھی دکھ اٹھاتی ہے ، مرد کی محتاج ہونے کی وجہ سے بھی۔
بچپن ہی سے کسان لڑکی اپنے والدین کی محض ایک ملکیت قرار دی جاتی ہے۔ وہ اُس سے صبح سے لے کر رات تک کام کراسکتے ہیں ، کام کے لیے باہر بھیج سکتے ہیں اور اس کی ساری کمائی اُس سے چھین کرلے جاتے ہیں مندرجہ ذیل باتوں سے۔بڑے پیمانے پر کسان لڑکی کی اپنے باپ کی ملکیت ہونے کو دیکھا جاسکتا ہے ۔ ایسے بہت سے واقعات ہوئے ہیں جہاں ایک گاؤں کے لوگوں نے ایک لڑکی کو اُس وقت تک شادی سے روکے رکھا جب تک کہ اُس کے باپ نے اپنے قرضے ادا نہ کیے ہوں ۔ اس طرح کے معاملے میں لڑکی کی شخصیت کوئی معنی نہیں رکھتی۔ اس لیے کہ اُسے محض ایک ملکیت کے بطور دیکھا جاتا ہے جسے قرض کی ادائیگی کے بطور رہن رکھا جاسکتا ہے ۔ لڑکی کو عموماً ایک ایسے فرد کے ساتھ بیاہ دیا جاتا ہے جسے وہ جانتی تک نہیں ۔ آہ و فریاد کی رسم جو کہ ہر جگہ موجود ہے اورجوشادی کے موقع پر لڑکیوں کے لیے اداکی جاتی ہے اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ کس قدر کم خوشی، اُس کا انتظار کرتی ہے ۔ جب ایک دلہن کا انتخاب کیا جاتا ہے تو جواہم صفات اس میں تلاش کی جاتی ہیں وہ یہ ہیں کہ لڑکی صحت مند ہو، اچھی طرح کام کرتی ہو، اور جو مضبوط ہو، چست وچالاک ہو اور سخت جان ہو ۔ لڑکی باپ کے خاندان کوچھوڑ کر شوہر کے خاندان چلی جاتی ہے ۔ وہاں ، سابقہ انداز میں ، وہ بغیر کسی وقفہ کے کام کرتی ہے ، اور حسبِ سابق ، محتاج رہتی ہے ۔ یقیناًایسا نہیں ہوتا کہ مرد اور عورت آپس میں اچھے رہیں اور ایک دوسرے سے محبت کرنے لگیں، مگر یہاں تو عورت کو اُس چیز سے بھی حفاظت نہیں ہوتی جسے’’خاوند کا سبق‘‘ کہتے ہیں ۔ ایسی کسان عورت اس وقت تک مارپیٹ کو عام بات سمجھنے کی عادی ہوجاتی ہے جب تک کہ شوہر بالکل ہی وحشی نہ ہو۔ اُس حالت میں بھی عورت کے شوہر کے پاس اُس کے اپنے ایک پاسپورٹ رکھنے کی اجازت نہ دینے کا اختیار ہوتا ہے اور جہاں کہیں وہ جائے گی شوہر اسے گارڈ کے تحت واپس لاسکتا ہے۔
عورتوں کی محتاجی کی ایسی حالت کو کس طرح بیان کیا جاسکتا ہے؟۔ مرد مالک کی حیثیت سے کام کا حکم دیتا ہے اور عورت کا کام ہے اُن احکامات کی بجاآوری کرنا۔مرد سب کچھ کا فیصلہ کرتا ہے: کس وقت ہل چلانا ہے ، کس وقت بوائی شروع کرنی ہے۔؟ فلاں اور فلاں کام شروع کیا جائے یا نہیں؟۔ مرد ہی ٹیکس ادا کرنے کے لیے پیسے وصول کرتا ہے اور اناج اور بیل بیچنا بھی اس کی ذمہ داری ہے ۔ کام کے بارے میں سارے عمدہ نکات کو دیکھنا اسی پر منحصر ہے ۔ جس طرح کہ گھر مرد چلاتا ہے اسی طرح وہ کمیونٹی کے معاملات پہ بحث میں حصہ لیتا ہے جو کہ زمین اورٹیکس اور حصہ وغیرہ وغیرہ کے بارے میں اجلاسوں میں طے ہوتے ہیں ۔ عورت سارے سماجی معاملات سے خارج ہوتی ہے وہ گھر اور بچوں کے معاملات کے ساتھ بندھی ہوتی ہے ۔ شوہرفیملی کا سربراہ ہوتا ہے اس لیے کہ سارا گھرانہ اُس پہ قائم ہوتا ہے۔ شوہر اس لیے بھی خاندان کا سربراہ ہے کہ ساری جائیداد ، زمین ، جھونپٹری ، جانور وغیرہ اُس کے ہیں۔
عورت’’گھر لائی جاتی ہے‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ عورت کی شخصیت اس قدر حقیر شمار ہوتی ہے ۔ اور یہی وجہ ہے کہ کسان رواج کے مطابق عورت کو جائیداد کے بطور دیکھا جاتا ہے۔ جس کی قدر صرف اس کے کام کی صلاحیت سے کی جاتی ہے ۔
اُن کاٹیج انڈسٹریز میں جہاں کاروبار کاشتکاری کے لیے صرف ایک ضمنی کام ہے عورت کی پوزیشن کم تبدیل ہوتی ہے اور گوکہ وہ اپنے شوہر کی مدد کرتی ہے ، مگر یہ بات اسے زیادہ آزاد نہیں بناتی۔ مگر جہاں کاشتکاری پس منظر میں پسپا ہوتی ہے اور کاٹیج دستکاریاں آمد نی کا اہم ذریعہ بن جاتی ہیں، جہاں عورت فیملی سے باہر ایک زندگی گزار کر کافی آمدن کر لیتی ہے تب چیزیں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ عورت کی رائے فیملی میں زیادہ اہمیت اختیار کرتی ہے اور طلاق آسان ترہوجاتی ہے ۔ جہاں عورت مینوفیکچر میں کوئی رول ادا کرنے کی بدولت آزادی حاصل کرتی ہے وہاں وہ کبھی کبھار زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کر سکتی ہے، لہذا وہ مرد کی طرح کے شرائط پہ زمین رکھنے کا مکمل حق حاصل کر لیتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ انڈسٹری کی ان شاخوں میں جہاں عورت کی محنت دستو ر کے موافق ہوجاتی ہے فیکٹری میں کام کرنے والی عورت کو مرد سے ذرا سی کم اجرت ملتی ہے اور وہ اپنی روزی خود کماسکتی ہے ۔ شوہر کااس کے لیے ’’روٹی کمانے والا‘‘ کی حیثیت ختم ہوجاتی ہے۔ وہ اپنی ضروریات خود مہیا کرتی ہے اور کبھی کبھی جب اس کا شوہر بے روزگارہوجاتا ہے ، تو وہ اس کی بھی کفالت کرتی ہے۔ وہ شوہر سے مکمل الگ اور آزادانہ فیکٹری میں کام کرتی ہے، کسان زندگی سے برعکس اُس کی کمان میں ہوئے بغیر۔ یہ سب کچھ، یعنی ، ایک عورت کی آزادانہ آمدن کے ساتھ آزادانہ کام میاں بیوی کے درمیان تعلقات کو متاثر نہیں کرسکتی ۔
بیوی اب شوہر کی غلام نہیں رہتی ، بلکہ فیملی کی ایک مساوی ممبر بن جاتی ہے ۔شوہر پر مکمل انحصار اب مساوات میں بدل جاتی ہے ۔ والدین کے لیے فیکٹری کی لڑکی کو شادی میں حوالے کردینااتنا آسان نہیں رہتا ۔وہ ایک ایسا دولہا منتخب کر سکے گی جو اُس کے لیے مناسب ہو۔ ایک فیکٹری ماحول میں شادیاں زیادہ تربا ہمی رضا مندی کے مطابق ہوتی ہیں بجائے میٹریل حساب کتاب کے ۔ ایسے معاملات میں جہاں میاں بیوی ساتھ نہ چل سکیں تو اب اُن کے لیے علیحدہ ہونا کسان حالات کی بہ نسبت آسان ہوتا ہے ۔ اس لیے کہ اب اگر وہ علیحدہ ہوجاتے ہیں تو وہ ایک گھرانے کے بزنس کو برباد نہیں کریں گے اس لیے کہ اُن میں سے ہر ایک اپنی آمدن پہ زندہ رہ سکتا ہے ۔
فیکٹری ورکرز میں کسانوں کی نسبت طلاق بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ مزید برآں ان میں مردوں اور عورتوں کے بیچ آزادانہ تعلقات ایک عام سی بات ہوتی ہے۔ مرد اور عورتیں اکٹھے رات کا کام کرتے ہیں اور فیکٹری میں رہائشی حالات شادی سے باہرروابط بنانے میں آسانیاں پیداکرتے ہیں ، حتیٰ کہ بہت آسان ۔دوسری بات ہو بھی نہیں سکتی ۔ فیکٹری خواب گاہوں میں مختلف کمروں میں صنفوں کی علیحدگی کا اصول نہیں ہے اور فیکٹریوں کی واضح اکثریت کے اندرمرد، عورت اور بوڑھے نوجوان سب مکس ہوتے ہیں۔ بچے اور بڑے ، مرد اور عورتیں ، سنگل اور شادی شدہ اسی کمرے میں، تختوں پہ سوتے ہیں ۔ تو کون صحیح صحیح انداز ہ کرسکتا ہے کہ کون ’’قانونی‘‘ طور پر شادی شدہ ہے یا نہیں؟ ۔مزدوروں میں مرد اور عورت شادی سے باہر تعلقات کو وہی کا من حقوق ملتے ہیں جو ’’قانونی‘‘ شادی والوں کو حاصل ہیں۔ اس طرح کے تعلقات میں عورت اُس حالت سے زیادہ آزاد ہے اگر وہ ’’خاوند کی بیوی‘‘ ہوتی ، اس لیے کہ وہ اُس مرد کی محتاج نہیں ہے جس کے ساتھ وہ رہتی ہے۔ مرد کے عورت پر کوئی’’ لیگل‘‘ حقوق نہیں ہیں ۔مثال کے طور پروہ اُسے ایک پاسپورٹ رکھنے سے منع نہیں کرسکتا ، یا اپنے ساتھ زبردستی رہنے پر مجبور نہیں کرسکتا۔ دوسرے لفظوں میں ایک آزاد آمدن عورتوں کو مردوں کی قوت سے آزاد کرتی ہے۔
لیکن اگر عورت گزارے سے کم کماتی ہے ، جیسا کہ عورت کی اجرت انڈسٹری کی اُن تمام برانچوں میں کم ہوتی ہے جہاں اُن کی محنت اب تک دستور کے مطابق نہیں ہوتی، اسی طرح کچھ کاروباروں میں بھی ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں انہیں اپنے والدین یا خاوند کے ساتھ رہنا پڑتا ہے اور اگر اس کے پاس یہ نہ ہوں اور نہ وہ تو اُسے اضافی آمدن کے لیے رنڈی بننا پڑتا ہے ۔ ابھی حال ہی میں مئی 1899میں ریگا ؔ کے اندر اِس بات پہ مزدوروں کی بہت بڑی شورشیں ہوئیں ۔ انہوں نے یہ شورشیں اِس بات سے شروع کیں کہ پٹ سن کی مل کی عورتو ں نے تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کیا اور وہ فیکٹری انتظامیہ کے خلاف شکایت کرنے گروپ کی صورت میں گورنر کے دفتر روانہ ہوئیں۔
راستے میں عورتوں کو روک دیا گیا اور الیگزنڈروف پارک میں بند کر دیا گیا۔ جب فونِکس فیکٹری اور دوسری فیکٹریوں سے مرد مزدور کام ختم کر کے نکلے تو انہوں نے عورتوں کو زبردستی آزاد کرنا شروع کردیا۔ گورنر نے فوج طلب کر لی اور 5سے 15مئی تک ریگاؔ میدان جِنگ بنا رہا اس لیے کہ فوجیوں نے مزدوروں پر گولیاں چلائیں اور مزدور فوجیوں پر پتھر برسانے لگے ۔ انہوں نے کھڑکیاں توڑدیں اور عمارتوں کو آگ لگادی ۔ مگر مزدوروں کے بڑے غضب کو چکلوں کے خلاف کردیا گیا اورایک ہی رات میں گیارہ چکلے تباہ کر دیے گئے ۔ مزدور چکلوں کی طرف کیوں گئے؟۔چکلوں کا ہڑتال اور مزدور بے چینی سے کیا لینا دینا تھا؟ ۔پتہ چلا کہ جب مزدوروں نے اعلان کیا کہ اُن کی بیویوں کے لیے اُن اجرتوں سے گزارہ کرنا نا ممکن ہے جو انہیں ملتی تھیں تو حکام نے طنز کے ساتھ انہیں بتا دیا کہ انہیں اضافی آمدن چکلوں سے مل سکے گی۔ اس طرح کھلے عام جتلا یا گیا کہ ایک عورت اپنی گزر بسر کے لیے اپنی دکھ بھری تنخواہ میں صرف اُسی صورت میں اضافہ کرسکتی ہے!۔ تو ایک غربت زدہ عورت کو اپنے آپ کو بیچنے کا مجرم کسے قرار دیا جائے؟۔ بھکاری گیری، بھوک اور کبھی کبھی ایک بھوکی موت کی ایک اضافی آمدن کے لیے واحد موجودراستہ چننے پر کسے مجرم قرار دیا جائے۔؟یہ بات ذہن میں رہے کہ ایک رنڈی بننے میں کسی طرح کی مسرت نہیں ملتی۔ سننے کی چیز ہوتی ہے کہ کس طرح ایک کھاتا پیتا بورژوا اور اس کی بیوی فیکٹری عورتوں اور لڑکیوں کے بارے میں اس قدر توہین سے بات کرتی ہیں۔اور یہ عورتیں جنہوں نے کبھی غربت نہیں دیکھی کس منافقانہ حقارت سے لفظ ’’رنڈی‘‘ بولتی ہیں۔بورژوا پروفیسر بے شرمی کے ساتھ یہ زور دینے کے لیے پریس جاتے ہیں کہ رنڈیاں غلام نہیں ہوتیں بلکہ وہ لوگ ہوتی ہیں جنہوں نے خود یہ راستہ اختیار کیا ہے!۔ یہ وہی منافقت ہے جو اصرار کرتی ہے کہ مزدور کو ایسی کسی فیکٹری کوچلے جانے سے کوئی نہیں روکتا جہاں سانس لینا ناممکن ہو، گردکی وجہ سے ، زہریلے بخارات کی وجہ سے ، گرمی وغیرہ کی وجہ سے ۔وہ وہاں رضا کارانہ طور پر دن میں 16سے 18گھنٹے تک کام کرتے رہتے ہیں۔
لیکن اگر ایک عورت کو اپنے کام کے لیے مشقت بھرے سکّے ملیں، اور پھر بھی خود کو بیچنے پر مجبور نہیں ہوتی ، اور ابھی تک خاوند یا والدین اس کی مدد کرتے ہوں تو اُس کے پاس ایک ایسی عورت والی آزادی نہیں ہوتی جسے کسی اور کی مدد کی ضرورت نہ ہو۔ اُسے پھر بھی خود کو اُن کے سامنے ماتحت رکھناہوتا ہے جو اسے قبضے میں رکھتے ہیں ،اس لیے کہ وہ اُن کی مدد کے بغیر اس قابل نہیں ہوتی ۔
لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ آزاد آمدنی ایک مزدور عورت کوایک عورت کے بطور آزاد کرتی ہے ، اور اُسے ایک مرد کے برابر بناتی ہے ۔ وہ صرف اُس وقت آزاد ہوسکتی ہے جب وہ ایک بڑے پیمانے کی صنعت سے منسلک ہوتی ہے ۔ البتہ یہ ضرور نوٹ کرنا چاہیے کہ ابھی تک بہت کم عورتیں ہیں جو فیکٹری یا مل میں اجرت پہ کام کرتی ہیں۔ جیسے کہ ہم نے دیکھا کہ 1890میں ایسی عورتیں محض چوتھائی ملین تھیں۔ آج وہ تعداد یقیناًزیادہ ہے مگر اس کے باوجود نصف ملین سے زیادہ نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ صنعت کی کئی شاخوں میں عورت مزدور کو اس قدر کم اجرت دی جاتی ہے کہ وہ عورت صرف اُس پیسہ پر زندہ نہیں رہ سکتی۔ نیز ، حتی کہ جہاں عورت کو وقتی طور پر مقا بلتاً اچھی اجرت ملتی ہے، تو اسے (نئی نئی )مشینری کے کے نتیجے کے لیے تیار رہنا ہوگا یا خود کو گلی پر ڈالنے کے لیے ۔ پھرکیا؟ ۔یا تو اُسے پھر اپنے خاوند یا عزیزوں پر بوجھ بننا ہوگا، پھر محتاج ہونا ہوگا، یا رنڈی بننا ہوگا۔
صرف موجودہ نظام کو ایک سوشلسٹ نظام سے بدلنے کی جدوجہد میں مصروف مزدوروں کی مکمل فتح ہی عورتوں کو مکمل آزادی دلاسکتی ہے۔ ہم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ سوشلزم میں ، ایک سوشلسٹ نظام میں ،سارے صحت مند اور بالغ لوگ کام کریں گے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ حاملہ اور دودھ پلانے والی عورتوں کو نکال کر باقی ساری عورتیں کام کریں گی۔ مگر اس کے بدلے میں سب اُس پیداوار کے فوائد کے حصہ دار ہوں گے؛ سب کو زندگی گزارنے کے ذرائع کی ضمانت ہوگی اور اس کا مطلب ہے کہ اس کا اطلاق عورتوں پر بھی ہوگا۔ آج عورتوں کی مردوں پہ محتاجی ہے جو عورتیں قبضے میں رکھتے ہیں، خواہ بیوی کے بطور ، محبوبہ کے بطور ،یا بیٹی کی صورت ۔ جب وہ ختم ہوگا تو عورتیں مردوں سے آزاد ہوں گی۔ لہذا ، ہم دیکھتے ہیں کہ ایک عورت کو مزدوروں کے کاز کی کامیابی میں ڈبل دلچسپی ہے ۔۔۔۔ مزدور کی حیثیت سے بھی اور عورت کے بطوربھی۔ یہ فقرہ’’ دنیا کے مزدورو ایک ہوجاؤ!’’ عورت کے دل کو لگتی ہے۔
وہ ایک سوشلسٹ نظام ، ایک بہتر مستقبل کے لیے لڑنے والوں کی صفوں میں ہی شامل ہوجاتی ہے۔