افلاک پہ جا سکتا نہیں، میرے نہیں پَر
موجود و میسر سے جھگڑتا ہوں زمیں پر
چھوتا تو میں ہر روز ہوں کھولوں گا کسی دن
اس زلفِ گرہ گیر کے میں اپنے تئیں پَر
میں چلتے ہوئے دیکھتا ہوں حسن خدا کا
ہر شام ستارے اتر آتے ہیں زمیں پر
وہ نقش بہانے سے ہٹانے کی طلب ہے
جو نقش ابھرتے ہیں اس عورت کی جبیں پر
پھر مصرع ء ثانی مجھے لے آتا ہے مجھ میں
جب مصرع ء اولی مجھے لے جائے کہیں پر
کل رات اداسی نے مجھے حوصلہ بخشا
ورنہ تو میں مر جاتا تری ایک حسیں پر
میں بارِ کائنات اٹھا لاؤں گا گھر میں
دروازہ کوئی کھول دے مجھ جیسے مکیں پر