وہ کمندیں ڈالتا پھرتا ہے مہر و ماہ پر
جیسے کوئی خاک ہو کر رہ گیا اس راہ پر
صبر سے جو تھام کر رکھی ہے اپنے ہاتھ میں
آنسوؤں کے کتنے دریا وار دوں اس آہ پر
اپنے دل کی سلطنت کے راز کھولوں گی کبھی
کتنے استعفے لکھے ہیں ناگہانی چاہ پر
خود شناسی اک طرف ،یاں حق شناسی بھی گئی
کچھ سے کچھ ہونے لگا ہے چٹکی بھر افواہ پر
خواب بھی بوسیدگی لے کر گداگر بن گئے
اور فتوے دے رہے ہیں اب دل گمراہ پر
درد مندی کا ہنر بھی جس کے ہاتھوں میں نہیں
ہم نے دل کو وار ڈالا ہے اسی درگاہ پر
درد کے سب پیرہن بھی اب سراپا درد ہیں
اک کہانی چیختی ہے فکر و فن کی راہ پر