ماہنامہ سنگت کوئٹہ کے ستمبر 2018 کے شمارے میں محترم وحید زہیر صاحب اور محترم نجیبہ عارف صاحبہ کے دو مضامین شائع ہوئے ہیں۔ اگر چہ اِن دونوں مضامین کے عنوانات اور نفس مضمون بظاہر الگ الگ نظر آتے ہیں لیکن دونوں کی تہہ میں ایک ہی بنیادی سوچ کام کر رہی ہے اور وہ ہے روایت اور جدت (یا ترقی) کی آویزش۔
نجیبہ عارف نے فوک ثقافت اور ترقی کے درمیان تعلق کو اپنے مطالعے اور مشاہدے کی روشنی میں بہت جاندار مثالوں اور حوالوں سے سمجھایا ہے ۔ جیسے پینٹ شرٹ پہن کر یا شلوار قمیص، یا دھوتی پہن کر یا بلوچی یا پشتو لہجے میں اردو بولنے والوں کے ساتھ کسی نوکری کے لیے انٹرویو لینے والوں کے رویے اور اسی بنیاد پر امید واروں کی صلاحیت کو جانچنے کی مثال۔
میں اس موضوع پر چند باتیں کرنا چاہتا ہوں جو یہ ہیں:
نمبر ایک: حکمران اور محکوم یا با اختیاراور مجبور کا ثقافتی ربط ۔
نمبر دو: کسی خطے یا ملک کے مختلف حصوں اور مختلف طبقات میں کسی ثقافتی مظہر کے بارے میں جدا گانہ رویے ۔
نمبر تین: ترقی اور جدت کی تعریف اور اُس کی قیمت اور
نمبر چار:ناسٹلجیا کی کار فرامائیاں۔
حاکم اور محکوم کے ثقافتی ربط کے بارے میں تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ حاکم ہمیشہ اپنی تہذیب وثقافت کو برتر سمجھتا ہے اور چاہتا ہے کہ محکوم بھی اُس کی ثقافت کو برتر سمجھے اور محکوم اکثر و بیشتر ایسا کرتا بھی ہے ۔ بابر نے جب ہندوستان فتح کیا تو یہاں کے لوگوں اور ان کے رہن سہن کا ذکر حقارت سے کیاکہ ان کے گھر تنگ وتاریک ہوتے ہیں، ان کے رنگ کالے ہیں۔ یورپی ممالک نے افریقی ممالک کے لوگوں کو ’’تہذیب یافتہ‘‘ بنانے کے نام پہ وہاں کئی صدیوں تک حکومت کی، اُن کے وسائل لوٹتے رہے اور انہیں انسان سے کم تر مخلوق قرار دے کر انہیں غلام بنانے اور تذلیل کرنے کا جواز پیدا کیا۔ یونا نیوں نے ٹرائے کے لوگوں کو احمق ثابت کرنے کے لیے ٹروجن ہارس کا قصہ گھڑا ۔مسلمان بادشاہوں نے سات آٹھ سو برس تک ہندوستان پر حکومت کی لیکن کبھی بھی (ایک آدھ مثال کو چھوڑ کر )یہاں کی ثقافت کے مظاہر کو اپنانہ سکے۔ اُن ادوار کی فارسی اور اردو تحریروں میں، دجلہ ، فرات، جیحوں، سیحوں اور ماورانہر کا طلسم تو غالب نظر آئے گا لیکن ناڑی، سندھو، کارونجھر ، گنگا، راوی کا جادو، نہیں ملے گا۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر چہ کسی خطے یا ملک کی ایک مجموعی ثقافت بھی ہوتی ہے لیکن اسی خطے یا ملک کے مختلف حصوں اور مختلف طبقات میں ثقافتی اختلاف ہوتا ہے ۔ ایسا ہوتا ہے کہ ایک ثقافتی مظہر جو ایک علاقے یا طبقے میں قابلِ فخر گردانا جاتا ہے وہی ثقافتی مظہر دوسرے علاقے یا طبقے میں باعث تمسخر بن جاتا ہے ۔ پینٹ شرٹ ہی کی مثال لے لیں۔ ایک شخص جو پینٹ شرٹ پہن کر شہر کے تعلیم یافتہ اور خوشحال طبقے میں قبولیت حاصل کرتا ہے گاؤں جاتے ہوئے پینٹ شرٹ شہر میں چھوڑ جاتا ہے کہ جانتا ہے کہ یہ لباس گاؤں میں باعث تمسخر بن جائے گا اور ایسے جملے کسے جائیں گے کہ بس۔ اسی طرح شہر میں جدید ترین فیشن کا لباس زیبِ تن کرنے والی خاتون آبائی گاؤں جاتے ہوئے برقع یا کم از کم طویل چادر میں لپٹ کر جائے گی۔ ایک اہم چیز سوچنے کی اہلیت اور آزادی بھی ہے۔ امر تا پر یتم ایک جگہ لکھتی ہیں کہ اگر کوئی گروہ اپنی اقدار کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزار رہا ہے تو اُسے نہیں چھیڑنا چاہیے۔ ممکن ہے کہ ان کی بات درست ہو لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی جان کر کسی کی اقدار کو نہ بھی چھیڑے تو بالواسطہ طور پر ایسا ہو جاتا ہے ۔ چاہے وہ آج کل کے میڈیا کے ذریعے تیزی سے ہو یا پھر پرانے عہد کے سودا گروں ، سیاحوں اور داستان گوؤں کے ذریعے آہستہ آہستہ ہو۔ اکثر ضرورتیں، مجبوریاں یا پھر طبیعت نئے پن پر مجبور کر دیتی ہے ۔ ہماری نسل کے اکثر لوگوں کو جیمز بانڈ کی فلم کا وہ منظر ضرور یاد ہوگا کہ جس میں ایک عرب کافی دیر تک تلوار بازی میں اپنی مہارت کا مظاہرہ کرتا ہے اور پھر جیمز بانڈ آہستہ سے اپنی جیب سے پستول نکال کر ایک ہی گولی سے اُس کا کام تمام کر کے روانہ ہوجاتا ہے ۔ افغان لڑائی کے دوران طالبان کہتے تھے کہ بزدل امریکی اوپر سے بم برسا کر چلے جاتے ہیں نیچے آکرمردانگی سے مقابلہ کیوں نہیں کرتے؟۔ تو جدت یا ترقی ، یا اقدار سے انحراف دستِ تہہ سنگ آمدہ ہے ۔
اب آتے ہیں تیسرے نکتے کی طرف یعنی کہ ترقی یا جدت کیا ہے اور اس کی ضرورت اور قیمت کیا ہے ؟ آگے بڑھنا ، نئے راستے تلاش کرنا، نئی سمتوں کا سفر ، یعنی کہ تبدیلی ، تغیر اور پھر حاصل اِنسان۔ کی فطرت میں شامل ہے، چاہے غاروں سے نکل کر زمین پر آشیانہ بنانے والا ابتدائی انسان ہو یا خلاؤں میں ٹھکانہ کرنے والا ترقی یافتہ انسان اِس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان کبھی مستقل مطمئن نہیں رہتا بلکہ نت نئی باتوں خیالات ، سوالات ، دریافت اور ایجاد میں مسلسل مصروف رہتا ہے ۔ جب آدمی کو بجلی میسر ہو تو وہ لالٹین نہیں جلاتا اور جب لالٹین میسر ہو تو مٹی کے چراغ متروک ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ طبعاً استرداد پسند لوگ بھی جدید سہولتوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ اس بات کو ہم یوں سمجھتے ہیں کہ جب مٹی کے چراغ کی جگہ لالٹین لے لے اور پھر لالٹین کی جگہ بجلی کا بلب تو ہم اسے ترقی کہیں گے اور جدت بھی۔ اب اس ترقی یا جدت کی قیمت کیا ہے ؟ اس کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہر موقع کی نسبت سے اس کی قیمت جدا جدا ہوتی ہے کبھی کم کبھی زیادہ ۔ ترقی اور اس کی قیمت کے توازن کو دیکھ کر فیصلہ کیا جاتا ہے کہ کس کو ترک کیا جائے اور کسے اختیار کیا جائے ۔ مثلاً اگر کسی ہزاروں یا سینکڑوں برس قدیم عمارت کو کسی فیکٹری کی تعمیر کے لیے گرانے کی ہر ذی شعور مخالفت کرے گا لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ میرے گاؤں جانے والی سڑک کو پختہ نہ کیا جائے کیونکہ کچے راستے سے اُڑتی دھول سے میری یادیں وابستہ ہیں تو یقیناًیہ بات غلط ہوگی۔
اب جہاں تک جدید میڈیا کی یلغاراور اُس سے اُٹھنے والی صورتحال کا تعلق ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اس کے لیے تیار نہیں تھے۔ ہماری مثال اُس شخص جیسی ہے جسے بیل گاڑی چلاتے چلاتے اچانک ہوائی جہاز کا کپتان بنا دیا جائے۔
تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی ہمارے مقتدر طبقات کی ترجیح کبھی نہیں رہے۔ ہم ایجادات اور دریافتوں کے صرف صارف ہیں۔ ٹیلی وژن چینلز بڑھے تو سرمایہ کاروں نے دولت میں اضافے کے لیے چینلز تو شروع کر دیئے لیکن اُس کے لیے ضروری تربیت یافتہ لوگ مہیا نہ کرسکے۔ کوئی معیار اور سماجی حدود مقرر نہ کرسکے۔ ٹی وی ڈراموں کے زوال کا یہ سبب ہے کہ پہلے تو لکھنے والے موضوعات کے چناؤ میں کبھی آزاد نہیں رہے اور پھر ڈرامہ نگاری کو بطورِ فن جاننے والے رائٹرز اِس لیے ڈراموں سے دور ہیں کہ چینل مالکان صرف ایسے ڈرامے چاہتے ہیں جن سے اُن کی ریٹنگ بڑھے اور منافع میں اضافہ ہو۔ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ معاشرے پر اِن ڈراموں کا کیا اثر ہوتا ہے ۔
اسی طرح کمپیوٹر ، موبائل فون میسر ہوئے، سوشل میڈیا کی سائنس میسر ہوئیں تو انہیں عوام کے لیے افیم بنادیا گیا جیسے وحید زہیر نے لکھا کہ سوشل میڈیا نے لوگوں کو ایک ٹیبل پر جمع کرنے کی بجائے لوگوں کو ایک ہی ٹیبل پر بیٹھے بیٹھے ایک دوسرے سے دور کر دیا ۔
اب ہم آتے ، ہیں ناسٹلجیا کی کار فرمائیوں کی طرف ۔بیتا ہوا وقت ، بچھڑے ہوئے لوگ، تبدیل ہوچکے مناظر ،ختم ہوتی ثقافت ، مٹتی ہوئی اقدار یعنی کہ ’’ہر گزرا ہوا‘‘ ہر انسان کو کم یا زیادہ یاد آتا ہے ، یا دبے چین رکھتی ہے۔ لکھنے پڑھنے والے، اور دیگر فنکار ، حساس ہونے کے سبب ناسٹلجیا میں زیادہ مبتلا ہوتے ہیں ۔یہ انفرادی بھی ہوتا ہے لیکن اجتماعی بھی ہوسکتا ہے ۔ ناسٹلجیا کے نتیجے میں کوئی نظم، کوئی افسانہ کوئی پینٹنگ ، کوئی سنگ تراشی کا شکار وجود میں آئے تو یہ خوبصورت پہلو ہے۔ لیکن کیا ناسٹلجیا کو موجود پر حاوی کرنا مثبت رویہ کہلائے گا؟ اس کا جواب اپنے اپنے تجربے کے حوالے سے الگ الگ ہو سکتا ہے ۔
کسی فرد کو یا گروہ کو یہ اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ اپنا ناسٹلجیا دوسروں کے موجود پر طاری کرے۔
اس کی مثالیں یوں دی جاسکتی ہیں کہ کوئی شخص اپنے بچوں کو اس لیے ٹیلی وژن سے منع کرے کیونکہ وہ اپنے بچپن سے ریڈ یو سے جذباتی لگاؤ رکھتا ہے یا ندی اور دریا پر اِس لیے پُل نہ بنایا جائے کیوں کہ کوئی اُسے ہمیشہ تیر کر پار کرنا چاہتا ہے تو گویا بدلاؤ زندگی کا حصہ ہے ۔ اسے قبول کرنا پڑتا ہے چاہے خوشی سے کریں یا حالات کے جبر سے۔ البتہ بیل گاڑی بان کو بغیر تعلیم وتربیت دیئے جہاز کا کپتان بنانے کا نتیجہ اُسی افراتفری ، سنگدلی، خود غرضی ، دھوکہ دہی، دہشت اور وحشت کی صورت نکلتا ہے جس کا آج ہمارا معاشرہ شکار ہے۔