کیا کہوں۔۔۔ایک آواز ہے
بھیگے پتوں پہ بارش کی بوندیں بجاتی۔۔۔
بہت کھنکھناتی ہوئی۔۔۔
ایک آواز ہے۔۔۔ گنگناتی ہواؤں کے کومل پروں پر
دبے پاؤں کھڑکی سے آتی۔۔۔۔۔
رسیلے، الگ ، اجنبی ذائقوں سے بھری۔۔۔۔
میری خاموش دنیا میں ہلچل اٹھاتی۔۔۔
ادھر سے ادھرسرسراتی
لچکتی ،لہکتی ، مہکتی ، سنبھلتی ، پھسلتی ہوئی۔۔۔
ایک آواز ہے
کرچی کرچی بکھرتی ہوئی شام چْنتی ہے
پھر چمچماتی ہوئی پوٹلی کھول کر
تارہ تارہ سجاتی ہے اندھی پراسرارراتوں کو
پیڑوں کے پیچھے ٹکاتی ہے اک چاند
اور گھول کر چاندنی میں حلاوت
کواڑوں پہ دھرتی ہوئی
ایک آواز ہے۔۔۔۔۔
سخت تنہائی میں
تھام لیتی ہے سانسوں کی ٹوٹی ہوئی ڈور،
ہارے ہوئے صبر کو
کھول دیتی ہے گرہوں کو۔۔۔
گرہوں میں الجھے ہوئے بھید سے نظم بْنتی ہے۔۔۔
بے جان حرفوں سے چہرے بناتی ہوئی۔۔۔
پانیوں اور زمینوں کے رْخ موڑ کر
وقت کی سرحدیں توڑ کر
مجھ تک آتی ہوئی۔۔۔
ایک آواز ہے۔۔۔۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے