مصنف: ہنرخ والکوف
ترجمہ: ڈاکٹر شاہ محمد مری
صفحا ت: 224
قیمت : 350 روپے
مبصر : عابدہ رحمن
آج کافی دن بعد مارکس گھر پہ تھا ۔ میں نے ڈائننگ روم میں آکر کھڑکی کے پردے کھینچے ۔ پچھلے کئی دن سے برف باری ہوتی رہی ۔ آج سورج نکلا ۔ چمکیلی دھوپ میں سفید سفید برف دور تک نظر آرہی تھی۔ میں ناشتہ لیے ٹیبل کی جانب بڑھی ،جہاں کارل تازہ اخبار لیے بیٹھا تھا۔
’ جینی آج کی ڈاک میں نیا کیا ہے؟‘ اس نے اخبار تہہ کرکے ایک طرف رکھتے ہوئے پوچھا ۔
’آج تمہارے لیے ایک زبردست تحفہ ہے‘ میں نے مگ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔
مارکس نے استفسار بھری نظروں سے میری طرف دیکھا تو میں نے بتایا ’ کارل تمھیں یاد ہے کہ والکوف نے تم پر ایک کتاب لکھی تھی ، تمہاری زندگی اور فکر پر۔ اور تم نے اسے بہت پسند بھی کیا تھا ۔ ‘
میری بات پر مارکس نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔تب میں نے اسے بتایا کہ یہ کتاب کئی زبانوں میں ترجمہ ہوئی ۔ اس کا تازہ ترجمہ ایشیا کی ایک زبان اردو میں ہوا ہے اور بلوچستان نامی ایک خطے کے بلوچ ،شاہ محمد مری نے اس کا ترجمہ کیا ہے۔
’ واہ کیا اچھی خبر ہے، تو پھر کیسا ہے ترجمہ؟‘یہ سن کر مارکس کی آنکھیں چمک اٹھیں اور نہایت اشتیاق سے پوچھتے ہوئے چائے کا گھونٹ بھرا ۔
’ ابھی مل کر دیکھتے ہیں ‘ یہ کہتے ہوئے میں نے ڈاک کا پیکٹ لا کر اس کے سامنے رکھا اور کتاب نکال کر اس کو دی۔ ٹائٹل دیکھ کر وہ مسکرایا ۔
’ اس سے خوبصوت ٹائٹل اور نہیں ہو سکتا تھا ‘ میں نے کہا۔
’ ہوں ‘ مسکراہٹ اس کے لبوں پر گہری ہو گئی ’ مارکس کی تصویر ہے تمھیں اچھی ہی لگے گی ‘ اس نے کہا۔
میں نے مسکراتے ہوئے کتاب مور کے ہاتھ سے لے کر پڑھنا شروع کی ۔
’ کاہلی کی ہتھکڑیاں‘ کے نام سے اس کتاب کا پہلا باب ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ فلسطی آرٹس اور کلچر کا دشمن تو ہوتا ہے اور ان کا آقا فیوڈل ازم ہوتا ہے ۔ فیوڈلزم میں ہی پھلتا پھولتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ ایسا منافق ہے کہ وہ اندر سے جو کچھ خود ہے باہر سے اسی کے خلاف بولتا ہے۔اور یہی خطرناک ہے کیونکہ فلسطی بہت مہذب صورتوں کے پردے میں کام کرتا ہے کہ اس قدر آسانی سے پہچانا بھی نہیں جاتا۔
’بہت خوبصور ت ترجمہ کیا ہے اس بلوچ کامریڈ نے ۔ کیا نام بتایا تم نے ؟ ‘ مور نے مگ خالی کرتے ہوئے پوچھا ۔
’ ڈاکٹر شاہ محمد مری۔‘
’ ہوں ۔ جینی ایک اور پیراگراف سناؤ میں لطف اندوز ہو رہا ہوں ۔پھر کچھ دیر کے لیے باہر نکلتے ہیں ‘ کارل نے کرسی سے ٹیک لگاتے ہوئے کہا۔
’اس کے دوسرے باب کو نام دیا گیا ہے؛ ’ کون سا پیشہ اختیار کیا جائے ؟‘ مور اس میں کسی کی پیدائش کا لکھا ہے کہ ہنرخ مارکس کے ہاں ۵ مئی ک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام کارل رکھا گیا ‘، میں نے مارکس کی طرف دیکھا تو وہ مسکرا اٹھا۔ ’ اس باب میں مزید لکھاہے کہ مارکس کا تعلق ویسٹ فالن اور اس کے بچوں ایڈگر اور جینی سے ہوا اور ایسا تعلق کہ جینی اس کی زندگی کا ساتھی بن گئی۔ کامریڈ آگے لکھتا ہے کہ مارکس جمنازیم نظام تعلیم میں چلا گیا جہاں صرف رٹو طوطے Multiply ہو رہے تھے ۔ جہاں آزادانہ طرزِ فکر کو خامی سمجھ کر شخصیت کو دبائے رکھنے کا کام ہو رہا تھا۔کسی بھی موضوع پر خود سوچ و فکر کی بجائے پہلے سے طے شدہ جوابات تک ہی سوچ کو محدود رکھا جاتا تھا ،بس علم کا دکھاوا ہی ہوتا تھا۔اس باب کے آخر میں ہے کہ مارکس شروع سے ہی فلسطی ازم کے خلاف تھا اور پھر یہ کہ ٹرائر میں وہ کسانوں کے قریب رہ کر ان کے مسائل سے اچھی طرح واقف ہو گیا تھا۔‘
میں نے کتاب ٹیبل پر الٹی رکھ دی ۔ مارکس نے اٹھ کر کرسی کی پشت سے اپنا کوٹ اٹھایا اور پہنتے ہوئے کتاب کے ٹائٹل کو غور سے دیکھنے لگا۔گرم ٹوپی پہنی ۔ میں نے بھی اپنا کوٹ پہنا ، اور ہم نے باہر کی طرف قدم بڑھائے۔ ہر چیز کو سفید برف نے ڈھانپا تھا۔ایک برف کے سے شہر کا احساس ہو رہاتھا۔لمبی سڑک پر برف میں چلتے ہوئے ایک مخصوص آواز آرہی تھی۔
چلتے چلتے ہم جا کر اس بڑے پتھر پر بیٹھ گئے جس پر اکثر میں اس کے ساتھ بیٹھا کرتی تھی۔ چند لمحوں بعد میں نے اس بلوچ کامریڈ کی کتاب پھر سے کھولی جو میں نے نکلتے ہوئے ٹیبل سے اٹھا لی تھی۔ کتاب کے تیسرے باب کا نام تھا؛ ’ طنز کا قہر اور شاعری کی آگ‘ اس باب کے شروع میں تو لکھا ہے کہ کارل مارکس کے والدین مارکس کے مستقبل کے حوالے سے کچھ اندیشوں کا شکار تھے۔اس کے لیے اس میں بتایا گیا کہ مارکس نے بیکن، شیلنگ، کانٹ اور ہیگل کی کتابیں پڑھنا شروع کیں جنھیں پڑھتے ہوئے وہ اپنے خیالات کے ساتھ اس کتاب کا خلاصہ بھی لکھتاجو اس کی تحریر، سوچ اور خیالات کو منظم کرنے میں مددگار ہوتا ہے۔کارل نے سرمایہ دارانہ سماج کے خلاف آرٹ کا نمونہ ’ کپٹل‘ بھی انہی دنوں لکھی۔اس باب میں آرٹ کو عقیدہ پرستی اور پتھر بنے خیالات سے پاک قرار دیا ہے اور یہ کہ آرٹ فرد کی صلاحیتوں کو نشو ونما دیتا ہے۔اسی طرح فلسفہ بھی نری خشک غور وفکراور خالی خولی فارمولوں میں بھٹکنا نہیں بلکہ یہ تو نئی دنیا کو پیدا کرتا ہے۔ ناک ٹھنڈ کی وجہ سے سرخ ہو رہی تھی ۔وہ سردی کی شدت کو کم کرنے کی کوشش میں دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں ایک دوسرے سے رگڑتے ہوئے اٹھا ۔ میں بھی اس کا ساتھ دینے کے لیے اٹھی ۔ باتیں کرتے اور واک کرتے دن کا ایک بج گیا تھا۔ہم داشت کی طرف مڑگئے ۔ روٹیاں لیں اور گھر کا راستہ لیا۔
مارکس نے میرا ہاتھ تھاما اور ہم خاموشی سے برف پر کریچ کریچ کرتے ساتھ ساتھ چلتے رہے۔گھر پہنچ کر ہم لاؤنج پہنچے ۔ میں روٹیاں کچن میں رکھ کر واپس آئی۔ اسی وقت مجھے مارکس کی سسکی سنائی دی۔ گو کہ اس کی پشت کا گہرا زخم اب بھر چلا تھا لیکن مکمل ٹھیک نہیں ہوا تھا ۔ میں نے کشن اٹھا کر اس کے پیچھے رکھا اور کھڑکی کی طرف آئی۔ لمحوں میں ایک دفعہ پھر موسم بدلا ، اور برف سفید سفید روئی کی صورت زمین کی اَور بہت خاموشی سے آنے لگی۔ میں اس خاموشی کی آواز کو سنتی رہی۔
مڑکر دیکھا تو مارکس ڈاکٹر مری کی کتاب کا ٹائٹل بڑے غور سے دیکھتے ہوئے جانے کن سوچوں میں گم تھا۔کتاب ٹیبل پر مارکس کے سامنے دھری تھی ۔ مارکس نے مجھے متوجہ پا کر کتاب اٹھا کر میری طرف بڑھائی ۔ میں نے مسکراتے ہوئے تھامی اور اس کے سا منے والی کرسی پر بیٹھ کر کھولی ۔میں نے خاموش ہو کر کافی کامگ اٹھایا ۔ مارکس نے میرے چپ ہونے پر میری طرف دیکھا ۔ میں نے گھونٹ بھرتے ہوئے صفحہ پلٹا ۔اگلا باب تھا:’ سادہ الفاظ میں ، میں دیوتاؤں کے پورے غول سے نفرت کرتا ہوں ‘ اس باب میں انسان کے ذہن کو دھرم سے آزاد کرنے کی بات گئی ۔مارکس نے در اصل انسانی شعور کو ہی سب سے بڑا دیوتا کہااور تمام آسمانی زمینی خداؤں کے غول سے نفر ت کا اظہار کیا ۔یہاں دیوتاؤں کے غلاموں یعنی پادری کی اطاعت کو سماج میں انسان کے غلام، محکوم اور محتاج مقام کا چھوٹا عکاس کہا ۔او ر یہ کہ انسا نے خود کو تلاش نہیں کیا ۔
اچانک فون کی گھنٹی بج اٹھی ۔ میں اٹھ کر فون کی جانب گئی ۔ ہیلو کرنے پر پتہ چلا دوسری طرف لینن بات کر رہا تھا۔ میں نے ہیلو ہائے کی ۔ اس نے کارل کے بارے میں پوچھا ۔ میں فون اس کے قریب لے آئی اور خود رات کے کھانے کی تیاری کرنے چلی گئی کہ اب ایک طویل گفتگو مور اور لینن کے بیچ متوقع تھی۔
کھانا بنا کر میں نے ٹیبل پر کھانا چُنا اور ایک خاصے وقفے کے بعد کمرے میں گئی تو مارکس کچھ پرانے اخباروں کو چھان رہا تھا۔ میں نے کھانے کا کہا اور پھر ہم ساتھ ساتھ واپس آئے ۔’ لینن کہہ رہا تھامیں ابھی تک مارکس اور اینگلز سے محبت کرتا ہوں اور ان کے خلاف بدکلامی پر خاموش نہیں رہ سکتا۔ یہ اصل لوگ تھے۔ ان سے سیکھنا ہمارے لیے لازم ہے ۔ہمیں یہ اساس قطعا نہیں چھوڑنی چاہیے‘۔ کھانا کھاتے ہوئے ہم اِدھر اُدھر کی گفتگو کرتے رہے۔ فارغ ہو کر اپنے کمرے میں گئے ۔ پردے اٹھے ہوئے تھے ،برف کے گالے گرنا رک گئے تھے۔ سردی میں شدت ہو گئی تھی۔ مارکس بیڈ پر آرام سے بیٹھا۔ میں نے انگیٹھی روشن کی اور ہاتھ گرم کرنے کے بعد ٹیبل کے پاس پڑی کرسی پر بیٹھ گئی۔’ کارل مارکس زندگی اور افکار ‘ اٹھائی تو مارکس نے کہا ’ تو پھرکیا کہتا ہے کامریڈ؟‘ ۔
اگلے باب یعنی ’ فلسفے کے بغیر کوئی پیش رفت ممکن ہی نہیں‘میں کہتا ہے کہ ’ آرٹ فلسفے کے ساتھ توازن میں ہوتا ہے اور یہ محبت اور نفرت کا درس دیتا اور یہ کہ یہ ہماری جمالیاتی حس کی تعمیرکرتا ہے اور فلسفہ سوچ اور فکر کرنا سکھاتاہے اور سچ تو یہ ہے کہ سوچ اور فکر سے جائے تو وہ انسان کب رہتاہے۔دوسری بات اس باب میں یہ بتائی گئی ہے کہ دیمو کرائٹس کھلی راہیں ہیں کہ چانس کو تسلیم کروجبکہ ایپی کیورس قسمت، حادثے اور دیوتا کی بات کرتا ہے۔ایک اور بات کہ جو شخص صرف اپنی فکر کرے اور تمام انسانیت کا نہ سوچے اس پر روح نے لعنتیں بھیجی ہیں اور اسے بس اپنی ذات کے طواف کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔‘
باہر ہو اچلنا شروع ہو گئی تھی تو کمرے میں بھی ٹھنڈ بڑھ گئی میں نے اٹھ کر انگیٹھی میں مزید لکڑیاں ڈالیں اور واپس آکر اپنی کرسی سنبھالی ۔ مارکس کی جانب دیکھا تو وہ کتاب کے نشے میں گم تھا ۔ میرے چند لمحوں کی خاموشی اسے اس نشے سے نکالنے میں ناکام رہی ۔ میں نے مسکراتے ہوئے اگلا باب پڑھنا شروع کیا جو ’ حقیقت کی بے رحم تنقید ‘ کے نام سے تھا؛ ’ بتایا گیا مارکس کا خیال ہے کہ بادشاہی نظا م کا خاتمہ کیا جائے اور پریس کو آزاد کیا جائے۔ یہ چیپٹر نجی ملکیت کے بھی مخالف ہے اورکہتا ہے کہ نجی ملکیت انسان دشمن ہے اور انسان کو جانور کی حد تک گرا دیتی ہے۔‘
اگلا چیپٹر یعنی ’ ایک سچے جنگی نعرے کی تلاش ‘ بتاتا ہے کہ مارکس’ دی فری‘ نامی اخبا ر سے منسلک ہوا جسے وہ ملک کی ساری اپوزیشن قوتوں کے لیے ایک مرکز بنانا چاہتا تھاجبکہ دی فر ی والے اسے انتہا پسند طریقے سے چلانا چاہتے تھے جس سے اخبار بند ہو جاتااور میدانِ جنگ پولیس اور سنسرشپ کے حوالے ہو جاتا،حکمرانوں کے لیے ماڈریٹ رویے کے مطالبے پر مارکس ایڈیٹوریل سے نکل گیا۔ اسی عرصے میں مارکس کی جینی سے شادی ہوگئی۔ ‘
مجھے اچانک مارکس کی ہنسی کی آواز آئی۔ میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو اس کے چہرے پر بشاشت بھری مسکراہٹ تھی۔ میں نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا تو وہ مسکرا کر بولا، ’جینی اور کارل کی شادی۔۔۔ واؤ ؤؤؤ، کیا یاد دلا یا کامریڈ، کیا حسیں سماں تھا، کیا اچھے دن تھے، جب ان لمحات میں تمھیں پہنانے کو میرے پاس انگوٹھی تک نہ تھی۔۔۔‘‘ ہنستے ہنستے اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ دیر گئے تک ہم ان لمحوں کو یاد کرتے رہے، اور مسکراتے رہے۔
رات گہری ہو گئی تو میں نے کارل سے کہا ، ’ اگر نیند آرہی ہے تو سو جاؤ ،ہم کل پڑھ سکتے ہیں۔‘
’ میرا نظریہ میری محبت ہے اور محبت کرنے والوں کو کبھی نیند بھی آئی ہے؟‘ مارکس کے اس جواب پر میں نے پڑھنا جاری رکھا ۔
اگلا چیپٹر تھا ’ ہیومن ازم کی تکمیل۔۔۔کمیونزم‘ اس میں بتایا گیا ہے کہ مارکس نے طبقاتی جدوجہد اور نظریاتی تنقید کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس کو جوڑنے کی خواہش میں جرمن کاریگرو ں اور فرانسیسی مزدورں کے ساتھ رابطے قائم کیے اور ان کے جلوسوں میں شرکت کرنے لگا کیونکہ وہ پرولتاری کو انقلابی قوت سمجھتا تھا۔وہ سماجی ترقی کی کنجی انسان کی پیداواری زندگی یعنی محنت کو سمجھتا تھا۔وہ کہتا ہے کہ آخر میں آباد ی کے صرف دو طبقات رہ جاتے ہیں: محنت کش طبقہ اور سرمایہ دار طبقہ۔اس باب میں ہے کہ محنت دراصل بیگانگی ذات نہیں بلکہ اس کی شناخت اور اعزازہوتا ہے ۔ انسان خود ایک بہت بڑی د ولت ہے ،بجائے ا ن چیزوں کے جنھیں اسی نے بنایا ہے۔اور یہ کہ انسان کو انسان سمجھو اور دنیا کے ساتھ اس کے تعلق کو ایک انسانی تعلق سمجھو ۔اور یہ کہ ہیومن ازم ،کمیون ازم کا دل ہے ، یہ اس کا وہ اندرونی سپرنگ ہے جو اسے توانائی اور زندگی بخشتا ہے جو اسے عالمِ انسانیت کی خوشی خاطرلڑنے والے کروڑوں لوگوں کا عالمی نقطہ نگاہ بناتی ہے۔
’ چلو سو جاؤ جینی ، تمھاری سرخ آنکھیں نیند کی شکایت کر رہی ہیں ‘ مارکس نے ہنستے ہوئے کہا ، لیکن میرا موڈ تھا آگے پڑھنے کا، لہٰذا میں نے نیا باب ’ مارکس اور اس کا ماحول ‘ پڑھنا شروع کیا۔اس باب میں مارکس کے دو دوستوں اینگلز اور اس کی بیوی جینی کا ذکر ہے جنھیں مارکس تحفہ قرار دیتا تھا۔ جینی ، اس کی محبت اس کی تحریروں کی اولین تنقید نگار بھی تھی۔ یہاں اس کے خط کا حوالہ بھی دیا گیا جو کہ اس نے مارکس کو لکھا تھا کہ’ اس قدر جھنجھلاہٹ اور نفرت سے نہ لکھو ۔یا تو حقیقتِ حال مزید زیرک انداز میں لکھو یا مزاح میں اور ہلکے پھلکے انداز میں ۔ پلیز میری جان اپنا قلم، کاغذ پر دوڑنے کے لیے چھوڑ دو ۔ خواہ وہ کبھی اپنے فقرے کے ساتھ ہی لڑکھڑا جائے اور گر جائے‘ ۔ جینی اس بات پر بھی بے حد پریشان ہوئی جب’ کیپٹل‘ کو جرمنی میں مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا تھا۔اس باب میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مارکس کی خود تنقیدی کی عادت کی وجہ سے’ کیپٹل ‘کے مسودات کے اہم خیالات گو کہ 1957-58 میں دریافت ہوئے لیکن پبلشر کو بھیجنے میں اسے دس برس لگے۔مارکس نے یہاں ’کیپٹل ‘کو بوروژوازی پر چلایا گیا خوفناک میزائیل کہا۔
’دیدہ ور کا ساتھی دیدہ ور‘ کے نام سے باب میں مارکس کے دوستوں اینگلز اور لینن کے بارے میں لکھا ہے ۔اور کتاب کا آخری باب ’کیپٹل کا فلسفہ ‘ کے نام سے ہے۔ میں نے انگڑائی لیتے ہوئے اعلان کیا۔
دی کیپٹل کے بارے میں لکھا ہے کہ ’مارکس کے اپنے بقول ، یہ بورژوازی پر چلایا گیا ’ سب سے خوفناک میزائیل‘ہے۔ یہ بورژوازی پر اپیل کا حق دیے بغیر سزائے موت کا ایک حکم نامہ ہے۔ مارکس نے ایک ناقابلِ تردید دلیل کے ساتھ ثابت کیا کہ جس طرح فیوڈل ازم نے لازمی طور پر سرمایہ داری کو راستہ دیا ، اسی طرح سرمایہ داری نظام ترقی کے معروضی قوانین کی بدولت خود اپنی تباہی کی طرف جا رہا ہے، یعنی ایک غیر طبقاتی سماج کی طرف‘۔
اور کارل آخر میں ہے کہ مارکسزم سارے ہنگامی حالات کے ریڈی میڈ جوابات کا مجموعہ نہیں ہے، یہ کائنات کا کوئی تھیوریٹیکل ماڈل نہیں ہے نہ ہی یہ عالمگیر طور پر لازمی تاریخی سکیم ہے ۔مارکسزم ادراک کا ایسا طریق ہے کہ جو اس کی اپنی مسلسل بڑھوتری اور تبدیلی کے اندر موجود ہے۔ یہ سماجی رشتوں کی انقلابی تنظیم کا ایک پروگرام ہے اور اس نئی تنظیم کاری کے لیے جدوجہد کا ایک ہتھیار ہے‘۔
مطلب یہ کہ مارکسزم سماجی رشتوں کی انقلابی تنظیم کا پروگرام اور نئی تنظیم کاری کے لیے جدوجہد کا ہتھیار ہے ۔ میں نے کتاب بند کرتے ہوئے کہا۔
’ہوں۔۔۔‘ مارکس نے لمبی سانس کھینچی اورکہا ’ یعنی میں یہ سمجھوں کہ میرے کاز میں ایک بلوچ سرزمین کا کامریڈ بھی میرے ساتھ رہا،جو میرے افکار کی ترویج کر کے دراصل اس کاز کو آگے بڑھا رہا ہے جو وقت نے نسلِ انسانی کی بہتری کے لیے ہمیں سونپا ‘۔
میں نے مسکرا کر اثبات بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
برف نے آسمان سے گرتے ہوئے خاموشی میں باتیں ایک دفعہ پھر سے شروع کر دی تھیں، جسے ہم دونوں سن رہے تھے۔
تب ہم نے لیٹ کر بند آنکھوں سے برف کی ساری گفتگو اپنے وجود کے کانوں سے سننا شروع کر دی۔