ابھی کچھ کام باقی ہے
ابھی سورج پہ پہلا پاؤں رکھنا ہے
فلک کا ریشمی نیلا دوپٹہ چاک کرنا ہے
خدا سے بات کرنی ہے
اک ایسی رات کرنی ہے
جہاں سورج ستارے ہوں
وہ نورانی نظارے ہوں
نہا کر جن میں سب انسان ایسی آگ ہو جائیں
فرشتے راکھ ہو جائیں
ابھی تو چاند کی قاشیں بنانی ہیں
درختوں پر لگانی ہیں
پرندوں کو وہ سْر بھی تو سکھانے ہیں
صحیفوں میں خدا نے جو نہیں لکھے
ابھی جیون میں تیرے نام کی وہ شام باقی ہے
جہاں دھرتی میری ہوگی
جہاں امبر میرا ہوگا
ابھی جانا نہیں ہوگا
ابھی تو عشق کی تکمیل ہونی ہے
کہانی نامکمل ہی سہی تمثیل ہونی ہے