خموش ہوں کئی دنوں سے اور شگاف پھیلتا
ہی جا رہا ہے کھا رہا ہے رات دن
وجود کے ثبوت میں
یہ دل دھڑک دھڑک کے تھک گیا ہے
پھر بھلا میں سو رہوں ۔۔۔کہ رو پڑوں
کوئی ہنر بھی کام آنہیں رہا
میں چیختے ہوئے کواڑ کھول دوں۔۔۔میں بول دوں
جو تم کہو تو چپ رہوں
مگر سوال ہی سوال بہہ رہے ہیں آس پاس
تیز لہر روشنی نگلتی جا رہی ہے دیر سے
اْدھر زمانہ کھڑکیوں کے اْس طرف
مگن ہے اپنے حال میں
عجیب سے خیال میں کسی بھی سمت چل پڑوں
نہیں میں آنکھ موند لوں
کوئی بھی خواب دیکھنے لگوں
میں دن گنوں کہ دفن ہورہوں اِسی شگاف میں
عجیب بھید کھل رہے ہیں یا الجھتے جا رہے ہیں
پھروجود اور خیال جوڑ لوں ؟
کہ سانس کی سیاہ ڈور سے لکیر کھینچ کر
میں حرف حرف ثبت ہو رہوں کسی بھی
بے بسی کے باب میں
کہ کھڑکیوں کو کھول کر لہکتا پھول چوم لوں
خموشیوں میں گم رہوں صدا کروں
تمہی بتاؤ کیا کروں