یہ چرب زبان عورتیں
یوں دھول جھونکتی پھریں
فقیرِ عشق کی نظر میں خاک ڈالتی چلیں
مگر میں دیکھتی رہوں!۔
شکم کی راہ سے اتر کے
دور تک نکل گئی نظر فریب عکس کی لطافتیں
کہاں کہاں اثر کریں
مگر میں دیکھتی رہوں!۔
خود اپنے اپنے بیش و کم، ۔
حساب اپنی عمر کے
برابری کی فکر میں
کہاں کہاں سے جوڑ کے، ۔
کہاں کہاں سے مانگ کے،۔
کہاں کہاں سے چھین کے،۔
کہاں سے کھینچ کے ،کہاں سے تان کے،۔
لباس غیر اپنے تن پہ جوڑ جاڑ کے،۔
تنک کے، سر کشیدہ ہو کے،۔
قہقہے لگاتی عورتیں
پکارتی رہیں
مگر میں دیکھتی رہوں۔
میں دیکھتی رہوں کہ ایک راہ ہے۔
کہ ایک راہ ہے جہاں خموشی چل رہی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ کوئی اور بھی ہے۔
کوئی ہے بھی یا نہیں۔۔۔۔
میں دیکھتی رہوں!۔