شرکاء : صاحبہ، عذرا پندرانی،ریشم بلوچ، شگفتہ، نور بانو، عابدہ رحمان۔
۔۳۲ سہیلیوں پر مشتمل گروپ دزگہار جسے بنے ۱۷ اگست کو ایک سال مکمل ہو جائے گا ۔ اسے بنانے کاخیال کچھ یو ں آیاکہ کیوں نا خواتین کا ایک ایسا گروپ ہوجس میں سب کھل کر دوستانہ ماحول میں ہمارے معاشرے میں پائے جانے والے مسائل، خواتین کے مسائل یعنی ہمارے اپنے مسائل پر بحث کی جائے اور پھر ایک ممکنہ حل کی نشاندہی کی جائے ۔ دزگہار کے اس ایک سال میں غیرت کے نام پر قتل، بچوں کے ساتھ جنسی تشدد، چھوٹی عمر کی شادیاں،لڑکیوں کی تعلیم،ورک پلیس پر ہر اس منٹ، لب و ولور جیسے موضوعات زیرِ بحث آئے۔
اس گروپ کا پہلا سٹڈی سرکل ۷ جولائی کو رکھا گیاجس کا مقصد تو یہ تھا کہ دوست ایک دوسرے سے مل لیں اور دوسرا یہ کہ ساتھ ہی کوئی موضوع بھی رکھا جائے جس پر بات کی جائے
گروپ میں اس پر بات جنرل انداز میں کی گئی تھی لیکن سرکل میں ذاتی تجربات اور مشاہدات کو لے کر بات کی گئی۔
سرکل کا آغاز ساتھیوں کے تعارف کے بعدکچھ اس انداز میں ہواکہ ایک ساتھی نے کہا کہ سٹڈی سرکل کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ ایک بندہ علامہ ہے وہ لیکچر دے گا اور باقی سنیں گے بلکہ یہ دو طرفہ سیکھنے عمل ہے۔ سرکل میں موجود تمام ساتھی ایک دوسرے سے سیکھتے ہیں اور پھر یہ کہ تمام ساتھیوں کو ہم خیال بنانا یا یوں کہا جائے کہ سب کو ایک ذہنی سطح تک لانا ہے۔
سرکل کے آخر میں اس نقطے پر بحث ہوئی کہ ہر اسمنٹ صرف دفتروں میں کام کرنے والی عورتوں کا ہی ایشو نہیں ہے بلکہ وہ عورتیں جو گاؤں، دیہات میں رہتی ہیںآئے روز اس کا شکار ہوتی ہیں اور عزت کی وجہ سے خاموش رہتی ہیں یاپھر اس بات کی وجہ سے کہ کوئی ہمارا یقین کرنے کی بجائے ہمیں ہی قصوروار ٹھرائے گا کہ تم نے ہی کچھ کیا ہوگا۔
اس طرح سٹڈی سرکل کا اختتام اس بات پر ہوا کہ دزگہار کو ماہانہ پر سرکل کروانا چاہئے اور ہم ایسا کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔