ہم بیرونی طور پر سامراجی قرضوں ،اور دفاعی تجارتی ظالمانہ معاہدوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ داخلی طور پرہمارے عوام تین طرح کے جبر سے نجات کی جدو جہد کر رہے ہیں:1۔طبقاتی جبر(سرداری جاگیر داری اور سرمایہ داری نظام)،2۔ قومی جبر ،3۔صنفی جبر۔
یہاں ایک طرف وہ لوگ ہیں جو مندرجہ بالا حالت کوبرقرار رکھنا چاہتے ہیں ۔ مگر دوسری طرف عوام الناس ہیں جو اس شکنجے سے باہر نکلنا چاہتے ہیں۔اس مقصد سے دونوں اطراف نے اپنی اپنی سیاسی پارٹیاں بنا رکھی ہیں۔
در اصل ہر سماج میں دو ہی متحارب اور متصادم معاشی سماجی طبقے ہوتے ہیں:یعنی محنت کرنے والے اور مفت کھانے والے۔ اس لیے دراصل ہر سماج میں دو ہی سیاسی پارٹیاں ہوتی ہیں:مفت خوروں کی پارٹی ،اور محنت کرنے والوں کی پارٹی ۔ یہ دو مختلف اور مخالف پارٹیاں آج سے نہیں بلکہ ازمنہ وسطیٰ سے چلی آرہی ہیں۔
چونکہ ہمارے طبقاتی سماج میں جاگیردار بالائی طبقہ اپنی طبقاتی، قومی ،صنفی، اور سامراجی حاکمیت کو جاری رکھنا چاہتا ہے اُس لیے اس کی پارٹی بھی موجود حالات کو جوں کا توں رکھنے والی پارٹی ہوتی ہے۔میڈیا میں اُس کے منشور میں آسمان سے تارے توڑ کے لانے کی خوبصورت اور رنگین باتیں توہوتی ہیں مگر وہ سماج میں کوئی بنیادی معاشی سیاسی تبدیلی نہیں کرنا چاہتی۔اور اس نے فاشزم ، زور، اور ،جبرسے جاگیرداری نظام کوبرقرار رکھا ہوا ہے۔
بلوچستان میں تو وفاقی حکومت اور اس کے اداروں کی مدد سے حالت مزید بھیانک ہے۔یہاں سرداری اور حکمرانی یک نفری اور موروثی ہیں۔ قبائلی سردار اپنے علاقے کا گویاواحد عاقل ولائق و بہادر آدمی ہے ۔ وہ سارے علاقے پر حاکمی کرتا ہے۔ وہی پارلیمنٹ کا ممبر بنتا ہے،اور وزیر گزیر بھی وہی بنتا ہے ۔وہی گوادر اور ریکوڈک بیچتا خریدتا ہے اور وہی اُن کو بچانے کے انتخابی بلند بانگ دعوے بھی کرتا ہے ۔ سیا ہ کا مالک بھی وہی ایک فرد، اور سفید کا فیصلہ کرنے والا بھی وہی ایک شخص ۔باقی اشرف المخلوقات بس اُسی کی بھیڑیں ہیں،جہاں چاہے ہانک آئے ،جس کے ہاتھ چاہے بیچ ڈالے۔
عوام دشمنی ان کی پارٹی کی خاصیت ہوتی ہے۔اُن کی حکومتیں غیر پیداواری اخراجات میں اضافہ ہی کرتی رہتی ہیں۔ مہنگائی کنٹرول کرنا اِس پارٹی کے پروگرام میں ہوتا ہی نہیں ۔ انہوں نے چونکہ بے روزگاری خود پھیلا رکھی ہے اس لیے وہ اس میں کمی کرنے کا تصور تک نہیں کرسکتے۔ وہ سارا ٹیکس مڈل اور لوئر مڈل کلاس پر لگا کر اپنی فیکٹریوں بنگلوں ٹرانسپورٹوں اور جائیدادوں کوبچا جاتے ہیں۔
فیوڈلوں اور سرداروں کی پارٹیاں سائنس اور سائنسی سہولتیں استعمال تو خوب کرتی ہیں مگر اُس کے ثمرات ، اورتعلیمات عوام تک آنے نہیں دیتیں۔وہ لوگوں کو ذہنی طور پر پسماندہ رکھنے کے لیے روایت اور عقیدہ کو استعمال کرتی ہیں۔اور اِن بنیاد وں پر فرقہ بندیاں کروا تی رہتی ہیں۔ وہ غیر بنیادی اورفروعی باتوں کو لے کر گروہ بازیاں کرواتی ہیں اور زبان اور نسل کی لفاظیاں کروا کر عوام کو باہم لڑواتی ہیں۔ بورژوا فیوڈل سیاسی پارٹیاں عوام کی تقریر ، تحریک ،تنظیم اوراجتماع کو کچھ زیادہ پسند نہیں کرتیں۔ اور اُس کے مقابلے میں خود ایسی اجتماعات اور تحریکیں چلواتی ہیں جن کے ذریعے عوام کے اکٹھ واتحاد کو نقصان ہی پہنچتارہے۔
اُن کی خارجہ پالیسی بھی ایسی بنتی ہے تاکہ ہر جگہ اُن کے طبقاتی بھائی بندوں کو فائدہ ہو۔ یہ انٹرنیشنل گینگ ہے ۔ انسان کے خلاف یہ سب، ایک دوسرے کی کمک کرتے رہتے ہیں۔ یہ باہم سیٹو سنٹو نیٹو جیسی فوجی اور دفاعی تنظیموں میں منسلک ہوتی ہیں۔وہ آئی ایم ایف سے جُڑی رہنا چاہتی ہیں۔ وہ سرمایہ دار ی نظام کے دفاعی ، معاشی اور سیاسی سماجی ہر کلب میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیتی ہیں۔ اور یوں ایک دوسرے کی کمر مضبوط کرتی رہتی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ہماری فیوڈل سیاسی پارٹیاں اپنا استحصالی نظام برقرار رکھنے کی اپنی روایتی توانائیاں استعمال کر کر کے ختم کرچکی تھیں ۔مگر پھر، عالمی سرمایہ داری نے دو اور دریافتیں اُن کی جھولی میں پھینک دیں، کار پوریٹ میڈیا چینلز ،اور سوشل میڈیا ۔ بلا مبالغہ پاکستان کی آبادی کا بہت بڑا حصہ انقلابی بن سکتا تھا اگر جیو، سما، دنیا، کے ٹی این، وش ، بی بی سی، سی این این، اے آر وائی اور ڈان ٹی وی چینل نہ ہوتے۔اِن جدید کھلونوں نے تو سنجیدہ لوگوں تک کو ’’ نیاپاکستان ، مدینہ جیسی ریاست، ووٹ کو عزت دو، اور ہر گھر سے بھٹو نکلے گا ‘‘ ، پر لگا رکھا ہے۔
دعوے سے کہا جاسکتا ہے کہ اگر واٹس اپ، فیس بک اور یوٹیوب نہ ہوتے تو کب کا فیوڈلزم تختہ ہو کر دفن ہوبھی چکا ہوتا۔ ساری نوجوان نسل کو ان ظالموں نے وڈیو گیمز پر لگا رکھا ہے ۔ وڈیوگیمز انڈسٹری ایک ہلاکت آفریں جال ہے۔یہ ڈیجٹل چیزوں اور ڈیجٹل سروسز کی نقلی جنت کی انڈسٹری پہ مارکیٹوں کو پھیلاتے ہیں۔اور انہیں فکری بنیادیں عطا کرتے ہیں۔وہ زندگانی کے نہ کماڈ ٹی شدہ ٹکڑوں کو تلاش کر کرکے انہیں منڈی کے پنجوں تک پہنچاتے ہیں۔ یہ فطرت میں موجود انسان کو میسر، اب تک کی مفت اشیا تلاش کر کرکے ہم پر بیچنے کا بندوبست کرواتے ہیں۔ بظاہر عام وڈیوگیری میں، دراصل کپیٹلزم ،ناظر کو انسان سے ایک کنزیومر میں ڈھال دیتا ہے۔سوشل میڈیا کے اس سارے سوچے سمجھے کھیل تماشے کو کپٹلزم کی ’’گلوبل یلغار ‘‘ کہا جاتا ہے ۔
یک نفری قبائلی حاکمی کے مقابلے میں ہمارے ماہی گیروں ، چرواہوں ، سار بانوں ، کسانوں اور مزدوروں کی اکثریت ایک جمہوری ریاست چاہتی ہے۔ایسی ریاست جو داخلی جبر و استحصال سے پاک ہواور خارجی طور پر کسی دوسری قوم کے جبر سے آ زاد ہو۔ ایسا سماج جہاں نہ عقیدے کے نام پہ امتیاز اور فرق ہو ، نہ نسل وزبان کی بنیاد پر، اور نہ مردو عورت کے نام پر۔
اور یہ سارا کام عوام کی ایک منظم اور سنگل سیاسی پارٹی کے بغیر ممکن نہ ہوگا ۔بالائی طبقات کی اُس پارٹی کے برعکس مزدوروں ، کسانوں اور دیگر محنت کرنے والے انسانوں کی سیاسی پارٹی ترقی اورخوشحالی کے لیے محنت کش عوام کی راہنمائی کرتی ہے ۔یہ پارٹی معاشرے میں موجود طبقاتی نابرابری کے خلاف جدو جہد کر تی ہے، قوموں کے معاشی، ثقافتی اور سیاسی حقوق کی نگہبان رہتی ہے ۔ عوام کے نچلے طبقات میں یکجہتی کی بنیادوں کو مضبوط کرتے ہوئے سماجی انصاف پہ مبنی نیا نظام قائم کرنے کی جدوجہد کرتی ہے ۔
محنت کرنے والوں کی پارٹی سماجی شعور سے لیس ہوکر، اورسماجی ترقی کے قوانین کا علم حاصل کرکے انسانوں کی نجات کے لیے پالیسی وضع کرتی ہے اور محنت کش عوام کی راہنمائی کرتی ہے ۔ایسی پارٹی طبقاتی اور قومی استحصال کے عوامل کو سمجھ کرمعاشی،سیاسی،قومی اور تہذیبی معاملات پہ عوام الناس میں سیاسی شعور و آگاہی پھیلاتی ہے اور انھیں متحرک کرتی ہے ۔
ایسی پارٹی اپنی آواز سچ،حق،اور انسانی شرف کے لیے بلند رکھتی ہے ،اپنے سماج اور عالمی سطح پر ہونے والے مظالم اور نا انصافیوں کے خلاف احتجاج کرتی ہے۔محکوم لوگوں کی یہ پارٹی خواتین کے خلاف تمام فیوڈل تعصبات اور امتیازات ختم کرنے کی طویل اور مشکل جدوجہد کو اپناتی ہے۔معدنی وسائل ،بڑی صنعتوں،اور بڑے بینکوں کو قومی تحویل میں لینے کے مطالبات ایسی پارٹی کے پروگرام کا حصہ ہوتے ہیں۔یہ پارٹی اس بات کو اپنے پروگرام کا حصہ بناتی ہے کہ25ایکڑفی خاندان سے زیادہ نہری زمین بلا معاوضہ قومی ملکیت میں لی جائے۔ اور اسے بے زمین کسانوں میں تقسیم کیا جائے ۔
یہ عوام کے معاشی اور ثقافتی معیار کو بلند کرنے کے لیے کام کرتی ہے ،اور انسانوں کی کلچرل اور شعوری سطح بلند کرنے میں اپنا کردار ادا کرتی ہے ۔پارٹی طبقاتی جبر کے خلاف عوام کو اُبھارتی ہے اور اُن کے اجتماعی شعور کے نتیجے میں ملک میں آمریت کے راستے کو بند کرنے میں کردار ادا کرتی ہے۔پارٹی پبلک کنٹرول کے اداروں کو فعال بنانے کا کام کرتی ہے۔ پسماندہ علاقوں کو صنعتی بنانے کی جدوجہد کر تی ہے۔
پارٹی تمام نسلی، لسانی اور قومیتی گروہوں کی تہذیبی،قومیتی و لسانی ترقی کے لیے مواقع فراہم کرنے کی جدوجہد کرتی ہے اور ہر قوم کے لیے لا محدود حقِ خود مختاری کے لیے کام کرتی ہے۔پارٹی مادری قومی زبانوں میں مفت ، سائنسی اور لازمی تعلیم کے مقصد کو لے کر آ گے بڑھتی ہے۔
مظلوم لوگوں کی پارٹی مزدور طبقے کا ہرا دل دستہ ہوتی ہے۔ یہ پارٹی محنت کرنے والے غریب عوام کو اکٹھا کرتی ہے اور انہیں سیاسی قیادت مہیا کرتی ہے اور انہیں سرمایہ داری نظام کو ڈھانے اور سماجی انصاف پہ مبنی نظام کے قیام کے لیے تیار کرتی ہے ۔ پارٹی مزدور کے آگے بڑھے ہوئے دستے کو سیاسی تعلیم دیتی ہے اور اسے حکومتی اقتدار حاصل کرنے کاراستہ بتاتی ہے۔ اور تمام عوام کی راہنمائی کرنے کا شعور دیتی ہے۔ یوں وہ مزدوروں کی استاد بھی ہے، آرگنائزر بھی ہے اور راہنمابھی ہے ۔وہ انہیں متحد کرتی ہے ، منظم کرتی ہے اور بورژوازی کے خلاف صف آرا کرتی ہے ۔
انقلابی عوامی جدوجہد کے ساتھ ساتھ یہ پارٹی اسمبلیوں، سینٹ اور لوکل باڈیز کے لیے الیکشن لڑنے اپنے مندرجہ بالا پروگرام کے ساتھ جاتی ہے۔
دہرانے کے لائق بات ہے کہ غریبوں مظلوموں کی سنگل پارٹی ہونا ضروری ہے۔ مزدوروں کسانوں چرواہوں ماہی گیروں کے مکمل وجامع اور سالم طبقے کو ٹکڑوں میں بانٹ کر قبضہ کے لیے بورژوازی کو پیش نہیں کیا جاسکتا ۔ اگر اِس بہت بڑے طبقے کی ہراول تنظیم یک جا اور یک مشت نہ ہوگی تو اس کا مطلب ہے کہ سماج کو ترقی کی طرف لے جانے والے طبقے کو اُس کے سب سے بڑے ہتھیار سے محروم رکھا جائے ۔نچلے طبقات کی سیاسی پارٹی توعوام الناس کا ادارہ ہوتی ہے ۔ اس کا منظم ہونا، یکسو ہونا اور متحد ہونا ضروری ہوتا ہے ۔ ایک جدوجہد کرتا ہوئے عوام اپنی جمعی عقل وحکمت کو بکھرنے ٹوٹنے دینے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔
واضح طور پر ایک ایسے طبقے کے لیے جسے ہر صورت پس ماندگی ، اورمحکومی سے نکل کر حکمرانی کی طرف جانا ہو ، اتحاد لازم ہے ۔ چنانچہ مزدوروں کسانوں کی ایک سنگل پارٹی اِس طبقے کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے بہت اہم ہوتی ہے ۔