یہ ازَل زادیاں تو نہیں
گردشیں کوئی آسیب ہیں
جو سِحِر پھونکے ہم پہ
ہمیں خِطّہِ گْم شْدہ کی طرف
مٹ گئے راستوں پہ لیے جاتی ہیں
اور رْکتی نہیں
اپنی پٹری سے ہٹتی نہیں
جْھولا کھاتے ہوئے سَر ہمارے کسی اور گردش سے واقف ہوئے جاتے ہیں
اور خوابوں تلک اپنی آنکھوں میں بَنتی سْرنگوں کو ہم
اپنی آنکھوں سے خود دیکھ کر
اپنی آنکھوں میں داخل ہوئے جاتے ہیں