پھر سے غم کو رکھ دیا ہے اک نئی ترتیب سے
پھر اداسی اوڑھ لیں گے ہم کسی ترکیب سے
پھر اٹھے گی یاد کی آندھی کئی پتھر لیے
پھر سے خود کو ہم سنبھالیں گے بڑی تہذیب سے
اب جہالت تیرگی لے کر مجسم ہو چکی
ہو رہے ہیں حل مسائل بھی فقط تکذیب سے
وہ تو وعدے سے پلٹ کے کب کا واپس ہو چکا
وقت روکا جا سکا ہے کب کسی تنصیب سے
شر پسندی نے جہاں بھی مصلحت کی بات کی
امن کا پرچار ہونے لگ گیا تخریب سے
کی تواضع درد کی تھی آنسوؤں کے تھال سے
رخ بدل ڈالا تھا غم کا ہم نے اس تقریب سے
برسوں پہلے اس نے مجھ کو چھو کے پتھر کر دیا
دل سنبھلتا ہی کہاں ہے اب کسی تادیب سے