اک کرب ہے میرے سینے میں، سہتا ہی رہوں دل جلتا ہے
کہہ دوں تو شکایت ہوتی ہے، اور لب سی لوں دل جلتا ہے

ہر سو ہے تماشہ مقتل کا ، بس خون ہی خون ہے دھرتی پر
دل خون کے آنسو روتا ہے، میں پھر بھی جیوں دل جلتا ہے

ماؤں نے جنے تھے خواب حسیں ، جوویرانوں میں دفن ہوئے
خوابوں کے قتل عام پہ میں, کچھ بھی نہ کہوں دل جلتا ہے

جو ہاتھ لہو آلود مرے ، اپنے ہی جگرکے خون سے ہو
اس دست ستم کو چھو کرمیں بیعت بھی کروں دل جلتا ہے

بارود بھرا ہے سوچوں میں ، سر پھٹتے ہیں ، کٹتے ہیں
ہے خاک گلستاں رنجیدہ ، خاموش رہوں ، دل جلتا ہے

ظلمت کے اندھیرے اتنے گھنے کہ چاند کی کرنیں تھک جائیں
اس رات کدے میں سچ کا دیا ،روشن نہ کروں ،دل جلتا ہے

یہ کیسی آگ لگائی ہے ، نفرت کے کرشمہ سازوں نے
دھرتی کے سپوتوں کو اس میں ، جلتے دیکھوں دل جلتا ہے

یہ دشت جفا ، یہ سخت فضا ، جینے کی تمنا دم توڑے
سقراط کے زہر کے پیالے کو میں بھی پی لوں دل جلتا ہے

زندان فرعون کا منظر ہے ، ارمان مقید ہیں جس میں
شوہاز دغا کرلوں دل سے ، اور چپ بیٹھوں ، دل جلتا ہے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے