پہلی غزل
دیوار پر نمی ہے تری رخصتی کے بعد
اب چیخنا فضول ہے اس خامشی کے بعد
کچھ لوگ بے تحاشہ ہنسے جا رہے تھے اور
کچھ لوگ رو رہے تھے کسی کی ہنسی کے بعد
میلے میں وہ نگاہ سے اوجھل ہی کیا ہوا
دیکھا نہیں کسی نے کسی کو کسی کے بعد
تم کو خدا نے چاند سا بیٹا عطا کیا
اب اور کیا خوشی ہو تمہاری خوشی کے بعد
معصومیت نہیں ہے ڈھٹائی ہے دوستو
ہاں آج چھوڑ دوں گا مگر مے کشی کے بعد
یعنی اک اور مرحلہ ہے امتحان کا
یعنی اک اور زندگی ہے زندگی کے بعد
دونوں ہی کام میرے مطابق ملے مجھے
پھولوں کا کاروبار کیا عاشقی کے بعد
دوسری غزل
یہاں کا اذن اسے مل گیا تو آئے گی
مگر گلی کا مقدر نہیں کہ نکھرے گی
میں ایسے جسم سے مل کر ہرا ہوا ہوں کہ بس
خزاں کی بات کجا، دور سے نہ گزرے گی
وہ اپنے کمرے کی کھڑکی سے چھاؤں سی لڑکی
جو جھالروں کو ہٹائے گی دھوپ نکلے گی
یہ ہے مقامِ محبت یہاں پہ چپ نہیں رہ
زبان کھول وگرنہ تو بات بگڑے گی
ہمارے جیسے کئی باغیوں کے نام ہوں گے
نئی فضا، نئی امید جب بھی اٹھے گی
سرِ نگاہ عجب کشمکش ہے بھیڑ میں وہ
پسِ نگاہ جو بچھڑا ہے کیسے دیکھے گی؟
ہمارا گریہ، تمہاری ہنسی سلامت رہ
وہ روتے روتے سمندر کو خط میں لکھے گی
میں شام باغ میں دیکھوں گا اس ادا کا کمال
وہ پھول دیکھے گی دھیرے سے مسکرائے گی
تیسری غزل
خواہشِ خامشی نے مار دیا
جس کا ڈر تھا اسی نے مار دیا
مرنا آسان تو نہیں تھا مرا
دوستو کی کمی نے مار دیا
حال کیا پوچھتے ہو مجھ سے مرا
حالِ نہ گفتنی نے مار دیا
پہلے اس کی طرف سے نکلا تیر
اور پھر ہر کسی نے مار دیا
مڑدہ ء بے بسی پہ کیا رونا
مڑدہ ء بے بسی نے مار دیا
آج پھولوں کو اس پری وش کی
رنگ بھرتی ہنسی نے مار دیا
مستقل گھر میں یہ ہوا محسوس
ہمیں کس بے گھری نے مار دیا