ہم اسے تسلیم کریں یا نہ بھی کریں لیکن زندگی ہرکام ایک ترتیب سے مقررہ وقت پر انجام دیے چلے جاتی ہے۔۔۔۔ سو یہ اس کی اپنی ہی منصوبہ سازی رہی ہو گی کہ قریبا تیس برس پہلے جس شاعر سے میرا فاصلہ چند گلیوں کا تھا اس کی شاعری مجھ تک آتے آتے زمانے لگادیے جائیں۔۔۔۔۔ زندگی کو ہی علم ہو گا شاید یہ زمانے گزرنے ضروری بھی تھے۔۔۔۔ اور اب ، جب اس من موجی شاعر کی کتابیں مجھ تک پہنچی ہیں زندگی کتنے ہی گر م سرد موسموں سے گزر چکی ہے۔۔۔۔ دائرے کا سفر سست پڑ چکا ہے ، گھومتے مناظر اپنے آس پاس کی دنیا کو تفصیل سے دیکھنے کے قابل ہو چکے ہیں۔۔۔۔ بھاگ دوڑکی جگہ ایک سکون نے لے لی ہے اورشاعری سے تعلق بھی کچھ زیادہ گہرا ہو چکا ہے۔۔۔۔ شاید ان کتابوں کو پڑھنے کے لیے یہی وقت موزوں تھا۔۔۔۔ میں اسے پڑھنے کی ابتدا ، اس کی شاعری کی ابتدا سے کرتی ہوں۔۔۔۔
’’اتری کونجیں‘‘۔۔۔۔۔ پہلی نظر میں عجیب لگتا ہے۔۔۔۔ کیا اس شاعر کو کتاب شائع کروانے کی کچھ سمجھ بوجھ بھی تھی۔۔۔ شاعری کی کتاب ہے یا بارہ مصالحے کی چاٹ۔۔۔۔ کافیاں ، گیت ، غزلیں ، نطمیں ، آزاد اور نثری نظمیں پنجابی غزلیں ، نظمیں اور پنجابی کافیاں۔۔۔۔۔ شاعر لاپرواہ ہے ، بے نیاز ہے ، معصوم ہے ، کام کم رہا ہو گا۔۔۔۔۔ بہرحال کتاب کا سفر جاری رہتا ہے اور کچھ دن میں میرے ساتھ ساتھ میرے چھوٹے سے گھر کا مختصر سا گوشہ عافیت خوشبو دینے لگتا ہے۔۔۔۔ وقت کچھ اور سرکتا ہے اور یہ خوشبو پھیلتی چلی جاتی ہے۔۔۔۔۔ میں اسے اپنے رستوں ، بازاروں ، اورگلیوں میں گھروں کے باہر سجی ہوئی پھلواریوں میں محسوس کرنے لگتی ہوں۔۔۔ پھرایک معصوم سی نظم بہتے عکس کا بلاوہ عالم تصور پر جیسے قابض سی ہو جاتی ہے:۔
’’پانیوں پر مرا عکس بہتا رہا
جنگلوں سے گزرتی ندی پر جھکی
نرم شاخوں نے بوسہ لیا
آبشاروں سے نیچے گرا
ایک نیلے بھنور نے مجھے گود میں لے کے جھولے دیے
بستیوں کے کنارے کنارے اگے جنگلی پھول مجھ سے ملے
خوش ہوئے‘‘
رشک سا آنے لگتا ہے اس سہولت پر جس سے یہ شاعر اپنے گردوپیش کو نظم کر دیتا ہے۔۔۔۔ اور ایک کافی کے بول:
’’ندی کنارے اتری کونجیں
چٹھی آئی یار کی
پینگ چڑھے سکھ پیار کی‘‘
پھرپنجابی کی ایک غزل:
’’دن وی ساھڈے راتاں ورگے، جاگنا کیہہ تے سونا کیہہ
پاٹے تن تے پاٹا چولا، لوہنا کیہہ تے پونا کیہہ‘‘
کیسے میٹھے بول ہیں اور کیسی مہکار لفظوں میں رچی بسی ہے۔۔۔ طبیعت میں رچاؤ ہے۔۔ موسیقی ہے۔۔۔ میٹھا سا درد ہے۔۔۔خواب ہیں۔۔۔ پنجاب کے عشق کی روایت کا ذائقہ بھی۔۔۔لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔۔۔ نرمی اور گھلاوٹ کا جادو زیادہ دیر نہیں رہتا۔۔۔۔ عشق کا چولا اتار یہ فقیر جلد ہی اپنے زمانے سے الجھتا نظر آتا ہے۔۔۔ یا وحشت ابھی تو اس کے کسی مصرعے نے ہلکے سے چٹکی بھری تھی۔۔۔ اورلمحہ بھر میں یہ خوشبو دیتا غباربگولے بنانے میں لگ گیا ہے۔۔۔ میری نظریں ایک شعر پر ٹک جاتی ہیں :
’’کیوں ٹھہرتے نہیں پاؤں ترے رستوں کے قریب
کن ستاروں سے تجھے دوست ہوا آتی ہے‘‘
میں سوچتی ہوں کتنی توانائی ہے۔۔۔ رب خیر کرے ایسی توانائی اگر اپنی آئی پر آ جائے تو زندگی کے سارے بھید ادھڑنے لگ جائیں گے۔۔ یہ خیال ایسے ہی نہیں آتا کچھ نظمیں ایسی نظر آتی ہیں جو خفتہ خزانوں کی نقشوں کی طرح راستے سجھانے لگتی ہیں :
۔’’شہر تھکتا نہیں ہے۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
بڑی محویت سے کھڑی ہل رہی ہے
گھڑی چل رہی ہے
مگر شہر چلتا نہیں ہے
مسلسل ، مسلسل
اْسی اک قدم پر کھڑا ہل رہا ہے‘‘
اور پھر ایک اور نظم۔۔۔۔ ’’بھاری بستے‘‘:
’’پر مرے بچے
علم کی ڈگڈگی
جاہل کے ہاتھ آجائے
تو بستے بھاری ہو جاتے ہیں‘‘
لہجے میں ہلکی سی تیزی ہے اور طنز کی کاٹ بھی۔۔۔ وہ اندر کی دنیا سے باہر دیکھتا ہے اور باہر کی دنیا اس کے ذہن کو الجھاتی ہے۔۔۔۔ سوال پیدا کرتی ہے :
’’جمود
بند کمرے کے باہر بہت بھید ہیں
اتنی گلیاں ، محلے
الجھتے ، سلجھتے
کسی موڑ پر زندگی ہے
کسی موڑ کے بعد پھر موڑ ہے
جوڑ ہے، توڑ ہے
ایک ہنگام ہے
اور پھر شام ہے‘‘
زندگی اس پر اپنے راز کھولتی جا رہی ہے۔۔۔ دھیرے دھیرے وہ ہواؤں کے نغمے سنتا۔۔۔ پانیوں کے ساتھ بہتا اور بادلوں سے خواب بنتا ہے اور خوب خوش رہتا ہے۔۔۔۔ پھر روز کی زندگی پر نظر ڈالتا ہے جہاں بہت کچھ ویسا نہیں ہے جو اس کے خیال میں ہونا چاہیے تھا۔۔۔۔۔ سانچوں میں ڈھلے ، گھڑے گھڑائے لوگوں سے بھری یہ دنیا اسے کچھ خاص بھاتی نہیں وہ آزادی کا خواب بھی دیکھتا ہے :
’’کھول زمیں کے قید سے پاؤں
اپنی بستی جائیں داتا
کب تک دھول اڑائیں‘‘
ایک طرح کی گھٹن سے آزادی کی خواہش بڑھتی جاتی ہے۔۔۔۔ سانس سینے میں پتھر کی طرح جمنے لگتی ہے۔۔۔۔ :
’’سینہ بند خلا
مالک
سینہ بند خلا
کھول مرے گھرکے دروازے
پھیلے تیز ہوا‘‘
’’اتری کونجیں‘‘ ختم ہوجاتی ہے۔۔۔۔ بارہ مصالحے کی چاٹ کا ذائقہ پورے وجود کو لپیٹ میں لے لیتا ہے کہیں میٹھا ، کہیں ترش اور کہیں تیز، تیکھا آنکھوں میں پانی بھر دینے والا۔۔۔۔ میں سوچتی ہوں اس کتاب کو پڑھنے کے بعد مجھے اس بات سے کوئی غرض نہیں رہی کہ اردو اور پنجابی شاعری کو ایک کتاب میں رکھا جائے یا نہیں۔۔۔۔ بلکہ یہ سوال بھی عجیب لگنے لگتا ہے۔۔۔ میرے سامنے ’’قہقہہ انسان نے ایجاد کیا‘‘ ہے لیکن نہ جانے کیوں میں اسے ابھی پڑھنا نہیں چاہتی۔۔۔۔۔ اور ’’بہتے عکس کا بلاوہ‘‘ اٹھا لیتی ہوں۔۔۔۔۔ یہ انتخاب ہے جس میں مجھے ’’دھندلائے دن کی حدت‘‘ کی نظمیں بھی ملتی ہیں۔۔۔۔۔۔ اب اس بات کا بیان بہت مشکل ہے کہ اس شاعری کے ساتھ رہنا کیسا لگ رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔ کئی بار کتاب کھول کر وہ پڑھتی ہوں اس میں ہے ہی نہیں اور کئی بار کتاب کھولے بغیر میں اسے پوری سہولت سے پڑھتی چلی جاتی ہوں۔۔۔۔۔ میں روز اس شاعری سے ہمکلام ہوتی ہوں۔۔۔ شعوری وغیر شعوری سطح پر صبح اور شام کے مختلف اوقات میں شہر کے مختلف گوشوں میں یہ نظمیں طرح طرح کے بھیس بدل کر میرے ساتھ چلتی ہیں۔۔۔۔ میں ان سے باتیں کرتی ہوں۔۔۔۔ کچھ سادہ مزاج مجھ سے مخاطب ہو جاتی ہیں اور کچھ اکھڑمزاج منہ پھیرے کھڑی رہتی ہیں۔۔۔۔ میں ’’سپاس نامہ‘‘ سے بھی ملتی ہوں۔۔۔۔
’’قطار اندر قطار گندم کے بھاری بورے سروں پہ لادے
شکستہ تختوں کے جھولتے پْل پہ
اپنی اپنی صداقتوں کے ، عبادتوں کے ، ریاضتوں کے
مہارتوں کے ، شجاعتوں کے علم اڑاتے گزرتے لوگو
سلام تم پر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سلام سقراط کے سوالوں کی تازگی پر
جواب حتمی کی سادگی پر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سلام گوتم سدھارتھ کے فاقہ زدہ نفس سے پھوٹتے شجر نروان پر
یشودھا کی اجڑی ہوئی کوکھ پر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گودیکھنے میں دو تین نشستوں یا موڈ میں لکھی گئی لگتی ہے لیکن اسے ایک بڑے کینوس کی نظم کہا جا سکتا ہے۔۔۔۔ بہت سے زمانوں کو ایک ساتھ باندھ دیا گیا ہے اور کمال سرعت سے تہذیب کے سفر کے پاؤں تلے دبی ہوئی انسانیت کی جھلکیاں کیمرے کے فلیش کی طرح تیز روشنی دکھاتی غائب ہوتی جاتی ہیں۔۔۔ میں اس نظم کو بار بار پڑھتی ہوں۔۔۔۔ زندگی ہے تو ایسی ہی۔۔۔ کہیں کہیں ہموار ، کہیں اکھڑتی اور سپاٹ۔۔۔۔ میں سمجھ جاتی ہوں شاعر زندگی کے اس ہنگام کو کاغذ پر منتقل کر چکا ہے جو شاید ایک عرصے تک اس کے ذہن میں بجلی کی کوند کی طرح جھلک دکھاتا رہا ہے۔۔۔۔۔ اور وہ بھی اس کی اصلی حالت۔۔۔۔۔ پیور فارم میں بغیر کسی ملاوٹ کے۔
اس نظم کے فورا بعد ایک اور نظم ’’ڈھول پھٹتا نہیں ہے‘‘ سامنے آتی ہے۔۔۔۔ سطریں ہی نہیں ایک ایک لفظ بھی بہت کربناک منظر بْنتا ہے۔۔۔۔ لہجہ شدید دکھ میں ڈوب جاتا ہے اور کہیں کہیں تو جیسے ہچکی سی بھری گئی ہو۔۔۔۔ :
’’تماشائیوں میں پھنسی ایمبولنس میں پڑا آدمی
آخری سانس میں گالیاں بک رہا ہے
مگر ڈھول بجتا چلا جا رہا ہے
تماشا ابھی ہو رہا ہے‘‘
جی بوجھل ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔ بیخیالی میں ورق گردانی کرتی ہوں۔۔۔۔ قریبا پندرہ بیس صفحات کے بعد ایک یکسر مبہوت کر دینے والی نظم ہے۔۔۔۔۔ کرافٹ ، ڈکشن ، کیفیت۔۔۔۔ ہر لحاظ سے مکمل اور شاندار۔۔۔۔ :
’’کیا عمر آ لگی ہے
ہنسنا یا غم میں رہنا
ہم شکل ہو گئے ہیں
بے عقل ہو گئے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دھندلائے دن کی حدت
خوابوں پہ آبلے سے
بستر زدہ محبت
بیمار کر رہی ہے‘‘
کتاب میرے بیگ میں میرے ساتھ ساتھ رہتی ہے۔۔۔۔۔ کسی بھی چند منٹ کے وقفے میں ایک آدھ نظم سرکاتی ہوں اور اگلے کچھ گھنٹے دماغ کا آدھا حصہ اس کے ساتھ نتھی رہتا ہے۔۔۔۔۔ ایک واضح احساس ہوتا ہے۔۔۔۔۔ ’’اتری کونجیں‘‘ کے بعد کی نظموں میں شاعر ذہنی اور فنی ارتقا کی منزلیں طے کر رہا ہے۔۔۔۔ اس کے ذہن پر خیال کی گرفت پہلے سے زیادہ مضبوط اور مربوط ہو چکی ہے۔۔۔ الفاظ کے استعمال میں زیادہ بیباکی ہے اور مصرعوں ، سطروں کی بْنت میں پہلے سے زیادہ مہارت۔۔۔۔ یکسانیت پہلے بھی نہیں تھی اب بھی نہیں ہے وہ ایک ہی وقت میں درویش ، خانہ بدوش ، بنجارا، تیاگی ، جوگی ، صحافی ، جدت پسند دانشور، علامت نگار ، سرئیلسٹ ، رسیلا، کٹیلا ، اکھڑ ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔ اور بعض اوقات ایک ہی نظم میں یہ شیڈز جھلک دکھلانے لگتے ہیں۔ دو نظمیں بیگ سے باہر آتی ہیں۔ ’’قہقہہ کہاں گیا‘‘ اور ’’طواف ناف‘‘:
’’قہقہہ کہاں گیا
جو تین چار دانت کم ہوئے تو پھسپسا گیا؟
کہ پھیپھڑوں میں گونجتے دھویں کے کام آ گیا
قہقہہ کہاں گیا‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عین ممکن ہے جب
عمر کی شام ہو
تو یہ الہام ہو
آپ تو اپنی ہی مشک نافہ سے مسحور
اک چاہ کرمک کو دنیا بتاتے رہے
عمر بھر اپنی ہی
ناف کے گرد چکر لگاتے رہے‘‘
میں بہت سی نثری نظموں سے بھی دوستی کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔۔۔۔ کچھ خوش رو اور ہنس مکھ ہیں کچھ سوگوار حسن لیے سرگوشی میں بات کرتی ہوئی ۔۔۔ ۔ بہت سی ایسی بھی ہیں جو نہ صرف ظاہری حلیے سے بے نیاز ہیں بلکہ اپنے باطن میں بھی بھول بھلیوں کے الجھاوے جیسی ہیں۔۔۔۔ تھوڑی الجھن ہوتی ہے۔۔۔ کاش یہ سمجھا جا سکتا شاعر کے ذہن میں نظم لکھتے وقت کیا رہا ہو گا اور علامتوں کو ڈی کوڈ کرنے کا فارمولا کیا ہے۔۔۔۔۔ پھر میں سمجھتی ہوں آخر اس کی ضرورت ہی کیا ہے۔۔۔۔۔ پڑھتے ہوئے تو نظم میری ملکیت ہے میں جو چاہوں اخذ کروں اور نہ بھی کروں۔۔۔۔ شاید شاعر کی بھی یہی مرضی رہی ہو گی۔۔۔۔
’’کچی دیوار اور تین آئینے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب میں ایک چاکلیٹ کا غلاف
تین کوڑا دانوں میں بانٹتا ہوں
اور تین آئینے لگا کر
اپنی حجامت خود بنا لیتا ہوں‘‘
۔
’’سیدھی بارش میں کھڑا آدمی
بارش بہت ہے
وہ ٹین کی چھت کو چھیدتی
دماغ کے گودے میں
اور دل کے پردوں میں
چھید کرتی
پیروں کی سوکھی ہڈیاں چھید رہی ہے‘‘
نثری نظمیں پڑھتے پڑھتے بہت سے چہرے دھیان میں آتے ہیں۔۔۔۔ بہت سی آوازیں اورنثری نظم کی مخالفت میں دیے جانے والے دلائل۔۔۔۔۔ ا?خر شاعر وزن بحر قافیے ردیف کے اہتمام پر قادر ہونے کے باوجود نثری نظم کیوں کہے۔۔۔۔ آسان سا جواب دیا جا سکتا ہے جو دیا بھی جاتا ہے کہ شاعری کی فارم کا انحصار خیال پر ہے۔۔۔۔۔ یہ بات درست بھی ہے لیکن ان نظموں کو پڑھ کر میرے اندر ایک اور خیال بھی سر اٹھاتا ہے۔۔۔۔۔ کبھی کبھی یہ شاعر کے نظریہ حسن کا معاملہ بھی ہوتا ہے۔۔۔۔ کہیں کہیں وہ حسن کی کاغذ پر منتقلی میں ازحد دیانت داری اور سچائی سے کام لینا چاہتا ہے۔۔۔۔۔ میں کھڑکی سے باہر دیکھتی ہوں۔۔۔۔ بیریز کی بیل پر پکا ہوا پھل ہے۔۔۔۔۔ بیریز رس دار اور خوبصورت ہیں اب یہ خالص میری اپنی نظر ہے کہ مجھے یہ اپنے کانٹوں ارد گرد پھیلے جھاڑ جھنکار اور خود پرمنڈلاتے رینگتے حشرات سمیت خوبصورت لگیں یا دھلی دھلائی کسی پلیٹ میں ایک ترتیب کے ساتھ سجی ہوئیں۔۔۔۔۔ یہ خیال ادھورا سا ہے اور مشکوک بھی لیکن کتاب سے جھانکتی ایک نظم ’’سانس بھر ہوا‘‘ اس خیال پر مسکراتی ہے اور میں بھی اس کے ساتھ مسکرانے لگتی ہوں:
’’سانس بھر ہوا
میں ایک ہی سانس میں
بہت سی زندگیاں جی لیتا ہوں
فتحمند کھلاڑی کا اڑتا پسینہ
وصل کی لذت سے مغلوب
عورت کی کراہ
سرشام دیا بجھاتے
نوجوان شاعر کی پھونک
بارش میں گرتی
کچی چھت کا بوجھل غبار
مرنے والے کے سینے سے نکلی آخری آہ
میں ایک ہی سانس میں
بہت سی موتیں مر جاتا ہوں۔۔۔۔۔۔‘‘
کتاب ختم ہو چکی۔۔۔۔ نظموں کا کھیل ابھی جاری ہے۔۔۔۔۔ اور نہ جانے یہ آنکھ مچولی کب تک جاری رہے۔۔۔۔۔ وہ میرے اور اس شاعری کے درمیان کی بات ہے لیکن ایک بات بہت ضروری ہے کہ اس شاعر کے تخلیقی وفرر اور ہنرمندی کو ادب سے جھک کر تسلیم کیا جائے۔۔۔۔ ایسے قیمتی موتی۔۔۔۔ سراسر اور خالص شاعر کم کم ہوتے ہیں۔۔۔۔ سو میں کتاب رکھ کر لکھنا شروع کر دیتی ہوں۔۔۔۔۔