بھولے ہوئے زخموں کو آئینہ دکھاتا ہے
اے کوچہ رسوائی کیوں مجھ کو بلاتا ہے
جب آنکھ ذرا جھپکے ، باتوں میں لگا لینا
یہ شوقِ تماشا بھی کیا حشر اٹھاتا ہے
کیوں آنکھ پہنتی ہے ملبوسِ عزاداری
کیوں خوابِ خزاں خورہ وحشت کو بڑھاتا ہے
معلوم نہیں کچھ بھی ، معلوم سبھی کچھ ہے
طاؤسِ بیابانی کیا مجھ سے چھپاتا ہے
لہجہ نہیں اب تجھ سا، رشتہ نہیں اب تجھ سے
یک طرف محبت تھی ،کیوں یاد دلاتا ہے
وہ شاخ نہیں باقی پھولوں سے جو بھرتی تھی
اس آہوئے خستہ کو صحراہی بلاتا ہے
وہ آئے ٹھہر جائے ، ایساتو کوئی دن ہو
بس خوابِ ندامت ہے ، آتا کبھی جاتا ہے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے