کوئٹہ کی سرما کی ایک سرمئی شام کو ہمارے گھر کچھ مہمان آئے۔ مہمان ایک لینڈ کروزر جیپ میں آئے تھے ۔ جس کا رنگ خاکی تھا۔ مہمانوں کی تعداد کوئی پانچ کے قریب تھی ۔ جو شخص جیپ کو چلا رہا تھا وہ بہت چُست اور بہت خوش مزاج شخص تھا جس سے پھر اس کی موت تک ایک تعلق رہا اور وہ ایک فیملی ممبر کی طرح تھا۔
جی! یہ شخص جو ایک بہت اچھا تنظیم کار تھا، اُسے غالب کی کافی شاعری یاد تھی اور اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک بہت ہی اچھا اور اعلیٰ پائے کا استاد تھا ۔اس شخص کو ہم سب ڈاکٹر امیر الدین کے نام سے جانتے ہیں۔ ڈاکٹر امیر الدین سے ایک نظریاتی اور خانگی وابستگی ۔
ڈاکٹر امیر الدین صاحب اور اس کے چار ساتھی جو کہ مسلم شمیم، راحت سعید، مظہر جمیل اور چوتھا مجھے اب یاد نہیں آرہا ہے کیونکہ یہ بات 1984یا 1985کی ہے ۔ یہ صاحبان والد صاحب کے پاس انجمن ترقی پسندرائٹرز کو دوبارہ منظم کرنے کے بارے میں مشورہ کے لیے آئے تھے اور انہیں بلوچستان کے ترقی پسندوں سے رابطے کا مشن دیا گیا تھا۔ وہ اس سلسلے میں والد صاحب کے پاس آئے ہوئے تھے۔ انجمن کی پچاس سالہ تقریبات کے سلسلے میں شوکت صدیقی، سید سبط حسن اور ان کے بہت سارے ساتھی انجمن کی سلور جوبلی کراچی میں منعقد کرانا چاہ رہے تھے۔
ہمارا گھر D-11یونیورسٹی کا لونی میں واقع تھا۔ ان دنوں یونیورسٹی انتظامیہ سرماکی چھٹیوں میں کالونی میں سفیدی کروا رہی تھی۔ ہمارا گھر بھی کام کی وجہ سے بکھرا ہوا تھا۔ جس کمرے میں والد صاحب اپنے مہمانوں کو لایا اس کمرے کے وسط میں چار پائیوں پر بستر اور گھر کا سامان اکھٹا کیا گیا تھا تو انہیں چارپائیوں کے ساتھ چادر بچھا کر بٹھایا گیا۔ ان کی خاطر تواضع سبز چاہے سے کی گئی یہ احباب کافی دیر تک انجمن کی بلوچستان میں تنظیم کاری پر گفتگو کرتے رہے اور دیگر لکھاریوں اور شخصیتوں سے رابطے کے پروگرام بناتے رہے ۔ یہ میری ڈاکٹر امیر الدین صاحب سے پہلی ملاقات کی رودا د تھی۔
ڈاکٹر امیر الدین کی باتو ں سے پتہ چلا کہ وہ لورالائی اور سوئی کے ریزڈینشل کالجوں کے پروجیکٹ کے پروجیکٹ ڈائریکٹر ہیں اورانہیں اس کام کے سلسلے میں بلوچستان میں تعینات کیا گیا ہے ۔
ان احباب کی کوششوں سے کافی عرصہ بعد بلوچستان میں انجمن ایک مرتبہ پھر منظم ہوئی اور اس کے پہلے صدر ڈاکٹر خدائیداد چُنے گئے۔ مارچ 1986میں گولڈن جوبلی تقریبات میں بلوچستان سے ایک بڑی تعداد میں لکھاری ، شاعر اور سیاسی کارکنوں نے شرکت کی جن کی سربراہی عبداللہ جان جمالدینی اور ملک عثمان کاسی نے کی۔
ڈاکٹر امیر الدین نے پروجیکٹ کی تکمیل کے بعد باقاعدہ طور پر بلوچستان ہی میں سکونت اختیار کی ۔وہ ہیلپر ہائی سکول کے پرنسپل مقرر ہوگیا اور اپنی زندگی کے آخری ایام تک وہ بلوچستان رہا ۔ اس نے تقریباً بیس سال تک سکول میں خدمات سرانجام دیں۔ اس کے ہزاروں شاگرد ہیں جن میں نامور شاگردوں کی تعداد کی ایک طویل فہرست ہے ۔
امیر الدین صاحب جمعہ پارٹی جوکہ بعد میں سنڈے پارٹی میں بدل گئی کے باقاعدہ سربراہان میں سے تھا۔ ان پارٹیوں سے قبل وہ ڈاکٹر خدائیداد کے آستانے میں چُھٹی والے دن جاتے تھے اور ایک محفل لگ جاتی اور یہ محفلیں باقاعدہ منعقد ہوتی تھیں ۔سیاسی وادبی مو ضوع پر گفتگو ہوتی تھیں۔
ڈاکٹر امیر الدین صاحب زیادہ تر مزاح میں دلچسپی لیتا تھا اور اردو کے اشعار سنانا اُس کا پسندیدہ مشغلہ تھا جس میں وہ اکثر غالب ، میر تقی میر، حافظ وغیرہ کے اشعار سناتا تھا۔
ڈاکٹر امیر الدین جب تک ہیلپر سکول کے انتظام کو چلا رہا تھا وہ کوئٹہ شہر کی ایک بہترین درسگاہ شمار ہوتا تھا جس نے اچھے طلباوطالبات پیدا کیے۔ انہوں نے اپنے شاگردوں کو نصابی کتب کے علاوہ فلسفہ لٹر یچرتاریخ اور نفسیات سے بھی روشناس کروایا۔
اسے ایک سازش کے تحت اس تعلیمی ادارے سے ایک ٹیلی ویژن ٹاک کو بنیاد بناکر ہیلپر ز ایسوسی کے ذریعے بر طرف کیا گیا جس کا اس نے بڑی بہادری سے سامنا کیا۔ جس سے اس تعلیمی ادارے کو نقصان پہنچا اور وہ تا حال نہ سنبھل سکا۔
14جولائی2002کو سنڈے پارٹی تھی۔ اس پارٹی میں شرکت کے لیے وقت مقررہ پر ڈاکٹر شاہ محمد مری ، پروفیسر برکت علی صاحب ، سرور آغا ایک مہمان محترمہ افضل تو صف کے ہمراہ تشریف لے آئے ۔اس دن ڈاکٹر شاہ محمد مری مہمانوں کو چھوڑ نے چلے گئے ۔کوئی ساڑھے بارہ یا پونے ایک بجے اس کی کال میرے موبائل پر آئی۔ میں نے کال موصول کی تو ڈاکٹر صاحب نے مجھے ہدایت کی کہ میں باہر جا کر اُس سے بات کروں۔ میں باہر گیا اور ڈاکٹر صاحب سے بات کی توپتہ چلا کہ ڈاکٹر امیر الدین کا حادثہ ہوا ہے۔ اسے بے ہوشی کی حالت میں سول ہسپتال لے گئے ہیں ۔ڈاکٹر شاہ محمد نے مجھے مزید ہدایت کی کہ میں سرور آغا کو خاموشی سے لے کر نکل جاؤں تاکہ میرے والد کو اس حادثے کی خبر نہ ہو۔
میں اور سرور آغا سول ہسپتال پہنچے ۔ہم ڈاکٹر شاہ محمد مری سے ملے۔ڈاکٹر صاحب ہمیں دیکھ کر رونے لگے اور ہمیں خبر دی کہ ڈاکٹر امیر الدین ہم سے بچھڑ گئے ہیں۔