اپنے کمرے میں کل ہم نے کچھ انجان جزیزے دیکھے
اک خاموش سمندر دیکھا ، ٹوٹے پھوٹے تختے دیکھے
آج پھر اک سرگوشی مجھ کو سانجھ سویر بلانے آئی
پانی کے کچھ گیت سنے اور رقص کناں کچھ پتے دیکھے
گھر پہنچے اور دروازے پر ٹانک بھی دِیں کشکول سی آنکھیں
عمر گئے پھر بیٹھے بیٹھے ہم نے خواب سفر کے دیکھے
دور تلک سنسان فلک پر دھوپ سوا اور کچھ بھی نہیں تھا
اور افق پر دو آنکھوں کے پیاسے طائر اڑتے دیکھے
مدت بعد اپنے آنگن میں ، میں نے قدم رکھا تھا فاخر
مٹکوں کے کچھ بکھرے ٹکڑے ، کچھ ویران سے پنجرے دیکھے