یہ مقالہ19جولائی 2018کو کراچی یونیورسٹی میں پڑھا گیا
خواتین وحضرات۔ شاہ لطیف نے کہا تھا:۔
موہنجو وَس واکا
بُدھنڑ کم بروچ جو
یہ ’’واکا‘‘ ایک دلچسپ لفظ ہے ۔ میری قومی زبان بلوچی میں یہ ڈاھ ، واھُو، گوانکاور ہکّل ہے ۔ اردو میں سمجھیے یہ اطلاع ہے ، خبردار کرنا ہے ،کمیونٹی کی مشترکہ تکلیف پہ فوری جمع ہونے کی پکار ہے ۔
چنانچہ شاہ کہتا ہے کہ میرے بس میں تو ’’واکا‘‘ کرتے رہنا ہے ۔ ہاں بدھنٹر کم بروچ جو۔ سننا نہ سننا بلوچ کے اختیار میں ہے ۔
چنانچہ میں نے اپنے مقالے کا عنوان رکھا ہے: ۔
شاہ لطیف ،واکا اور بلوچ سماعت
چار صدیوں پر مشتمل ،پتہ نہیںیہ ایک طویل دورانیہ کا لطیفہ ہے یا ٹریجڈی،کہ شاہ لطیف کا واکا بلوچ کے کان تک پہنچاہی نہیں ہے۔ اُس کی شاعری، اُس کا ’’واکا ‘‘ابھی تک بلوچی زبان میں ترجمہ ہی نہیں کیا گیا۔اس لیے کہ بلوچ دانشور کامہری خوراک کی نالی بند کیے جانے کی وجہ سے پیدا ہونے والے کیلشیم کی کمی کے سبب لنگ ہے ۔اورسندھی دانشور ابھی پی ایچ ڈیاں لینے کے مرحلے میں ہے۔سیاستدانوں کی بات کریں تو بلوچ لیڈر اپنے قہر ناک جغرافیائی لوکیشن اور اُس کے اندر موجود بدقسمت دولت کی وجہ سے بدکتا، بھڑتا،جُھکتا ، بکتا ، لڑتا ،یا مرتا رہا ہے ۔سندھی لیڈر پانی سے کارموٹر چلانے والے کو سائنس دان ثابت کرتا پھررہا ہے ۔اوربقیہ پاکستان ضعیف شدہ آنکھوں سے وسیع آسمان میں رمضان یاعید کا چاند ڈھونڈنے میں سخت مصروف ہے۔ ایسی بوڑھی آنکھیں جو بوتل کے پیندے جیسی موٹی عینکوں کے باوجود اپنے بیڈروم کا بلب تک نہیں دیکھ سکتیں۔ اس لیے شاہ کا واکا بلوچ تک پہنچاہی نہیں۔یعنی ، آدھی ملینیئم گزرنے کے بعد بھی، اور فنڈز ومواقع کی بہتات کے باوجود بھی،محض بچوں کے کھیل جیسی ترجیحات کے سبب ،شاہ کی شاعری کا بلوچی ترجمہ موجود نہیں ہے۔ لوگو،ایک ایسے شاہکار کا بلوچی ترجمہ موجود نہیں ہے جس کا چوتھائی سے زیادہ حصہ صرف بلوچ کے بارے میں ہے ۔
لیکن کیا اکیسویں صدی میں بھی ایسا ہی رہے گا؟۔کاش کوئی معجزہ ہوجائے ۔ اور کوئی شاہ دوست، شاہ پرست،شاہ پسند، شاہ نواز، اورشاہ بخت شخص یا ادارہ ،یہیں ،آج ہی ،ہم سب کے سامنے ،اس کام کا اعلان کرے اور ہم سب ’’ شاہ بخش ‘‘ بن کر پرنُور چہروں کے ساتھ اس ہال سے باہر نکلیں۔
اور شاہ کا واکا ہے کیا ؟ ۔بھئی اُس بڑے دانشور نے قدیم کمیونزم کے زمانے کی ہماری خوبیوں کو شناخت کیا ، انہیں یکجا کیا ، ترتیب دے دی ، انہیں فلسفیانہ صورت دے ڈالی۔ اور پھر، اُس سب پہ اپنے فن کانور ڈال کر،اُن خصلتوں پر مشتمل شخص کو ،آئیڈیل انسان قرار دیا۔
ضرورت ہے کہ بلوچوں کے بارے میں بڑے دشمن ،انگریز کی لکھی باتیں جمع کی جائیں، پرتگیز یوں، عرب حملہ آوروں، سیاحوں اور ناولسٹوں کے بلوچ کے بارے میں عموماً تاثرات اکٹھی کی جائیں اور سب پر مشتمل کتاب مرتب ہو۔ ۔اور پھر اِن سب کا بلوچ کے بارے میں شاہ کے تاثرات وتعلیمات سے موازناتی مطالعہ ہو۔بلوچ کو بطور آئیڈیل انسان دیکھنے میں شاہ ونصیر ؔ کا موازنہ ایک پی ایچ ڈی تھیسز کا متقاضی ہے ۔یہی بات شاہ لطیف اور توکلی مست کے بارے میں کہی جاسکتی ہے۔ سماجی یونیورسٹی میں جب لطیف کا آئیڈیل انسان وائس چانسلر بنے گاتو وہ تھیسز دنیا پڑھے گی ۔
خواتین وحضرات۔شاہ نے کہیں بھی ، بلوچ کا ذکر کسی اور قوم یا کمیونٹی کو کم جتلا کرنہ کیا۔شاہ لطیف نے اپنے تجربات و مشاہدات ا ورتفکر کے تکلیف دِہ عمل میں پس پس کر انسان کو انسان کے روپ میں دیکھنے کی صلاحیت پیدا کرلی ۔ تعصب کی ہر کھائی کو پھلا ند کر ہی وہ رنگ و نسل، وطن و قوم اور مذہب و عقیدہ کی قیود سے بالا ہوا تھا۔چنانچہ ذات میں وہ خواہ کہیری تھا یا نہیں ، مگر اس نے کہیری اور نان کہیری سب کے لیے بشردوستی کا بلند معیار قائم اور پیش کیا۔ اس مہذب دانشور نے بہت ذمہ داری کے ساتھ مستقبل بعیدتک خود کو بقا دینے کا کام کیا۔ اس نے جو کچھ بھی کہا ذمہ داری سے کہا ۔وہ گھر بیٹھ کر محض پریس ریلیزوں پر تجزیے بکھیر دینے والا ٹی وی چینلی دانشور نہ تھا ۔ وہ تو ڈارون کے بی گُل نامی جہاز پرسفر کرنے والا مشاہداتی مفکر فلاسفرتھا۔ آج دیکھو تو وہ کہیں بلوچستان کے مقدسات کے سامنے دوزانوہے ، کل سندھ کے کسی بلوچ علاقے میں مشاہدے چُن رہا ہے۔پھریہ بھی توتھا کہ ، اُس کے طویل تفکراتی سفروں میں کبھی کوئی بلوچ شاعر ہم سفر ہوتا، محفلوں میں بلوچ گلوکاروں سے واسطہ پڑتا، یا بلوچ مائیتھالوجیکل سائٹس میں کوئی بلوچ داستان گو ملتااور اُسے اساطیری اور کلاسیکل بلوچی ادب، شاعری ،اور سماجی ساخت کے بارے میں ایجوکیٹ کرجاتا ۔
چنانچہ شاہ لطیف کے مجموعہِ کلام کا ایک ایک مصرع ہمارے پورے علاقے کے سماجی ذہن کے خدوخال کوواضح کرتا ہے ۔ اُس نے شاعری میں سفرنامے لکھے۔مصروں میں بایوگرافیاں لکھیں۔ امثال میں کلچرز تراشے ۔ فارم میں کانٹنٹ تلاشا۔ کوانٹٹی کو کوالٹی کیا۔ اور فوک سے ایک فلسفہ وضع کیا اور اُسے ’’رسالو‘‘ کا نام دیا۔ کوئی مجھ سے پوچھے رسالو کیا ہے؟۔ میں جواب دوں گا: رسالو بلوچا لوجی کی دلچسپ ترین کتاب ہے۔ اِسے بلوچستان میں تعلیمی نصاب کا حصہ ہونا چاہیے۔
اپنے انہی extensiveسٹڈی ٹوئرز کے نتیجے میں شاہ لطیف نے ’’رسالو‘‘ تخلیق کیا۔ ایک اچھے اور ایماندار کرٹیکل نظر رکھنے والے سماجی سائنس دان کے بطور اُس نے بلوچ میں کجیاں بدیاں، مستیاں بدمستیاں بھی دیکھیں ، اور ایمانداری سے انہیں بیان بھی کیا۔مگر آج کے سندھی اور بلوچ دانشوروں کی طرح طعنے بازی میں نہیں، تلخی میں نہیں،اور ایک دوسرے کی سبکی میں نہیں۔بلکہ اس اندازسے کہ محسوس نہ ہوتے ہوئے اصلاح کی ترغیب ہو۔
خواتین وحضرات ۔شاہ کے بلوچ واکا میں ایک حیرت انگیر اور عجیب بات یہ تھی کہ اُس نے خانیٹ اور سرداریٹ کو بالکل لفٹ نہیں کرائی ۔کمال ہے آپ ڈیڑھ سو صفحہ بلوچ پہ لکھیں اور اس میں عہدے کی پھنے خانی میں نواب، نوابزادہ ، سردار ، سردارزادہ ، خان خانزادہ ، وڈیرہ وڈیرہ زادہ ، آخوند، آخوند زادہ ، امیر امیرزادہ جیسا ایک بھی ناپاک لفظ موجود نہیں ہو۔ اگر ایک آدھ جگہ ایسا لفظ ملے گابھی تو وہ عہدہ کے بجائے شخصی بہتر اوصاف کی مثال کے بہ طور ہوگا۔اُس نے کسی ہیرو کو پیدا نہیں کیا ۔اور کوئی پیر فقیر نہیں گھڑے ۔اس نے جب بھی حاکم، ہیرو ، خان اور وڈیرہ وغیرہ جیسے الفاظ استعمال کیے وہ کروفر والے انداز میں نہ تھے۔ طفیلی کے طور پر، ایسے ہی ضمیمہ کے طو رپر۔اُس کے اصل مخاطب وموضوع تو عام لوگ تھے، نچلا طبقہ تھا، مجبور ومقہورو مظلوم طبقہ تھا۔
اورعام انسان تو بہت جی دارہوتا ہے ۔بہت جرات مند ہوتا ہے ۔ بات کا سچا، عزم کا پکا ، کمٹ منٹ والااور پہل کاری میں پہل کرنے والا ۔ سوچتا ہوں کہ اگر آج لطیف ایک بار پھر آجائے اور بلوچ سے مخاطب ہو تو اُس کا پیغام کیا ہوگا؟۔مجھے نہیں لگتا کہ وہ واکا کی بنیادمیں کوئی تبدیلی کرے گا۔ اس لیے کہ آج کے واکا کا مین تھیم بھی وہی رہے گا جو چار سو سال قبل کے واکا کا تھا۔
چلو وہ تو نہیں آسکتا۔ تو اُس کا کام آپ کریں۔اگر اکیسویں صدی کے ،اِس ترقی یافتہ شہر کراچی کی سب سے بڑی دانش گاہ کے ،آپ سب دانشوروں سے کہاجائے کہ بلوچ کے لیے آج کا واکا مرتب کریں تو آپ کیا لکھیں گے؟ ۔کیا آپ ترقی اور سماجی تبدیلی کی اُن کی جدوجہد میں اُن کی پیٹھ نہیں تھپکائیں گے ؟۔ کیا آپ اپنی زندگیاں بدلنے کے لیے پرعزم اِن لوگوں میں خود اعتمادی پیدا کرنے کے اکھر نہیں لکھیں گے؟۔اور کیا آپ اُن کی تحریک کے لیے’’ آگے بڑھو‘‘ کی بڑی سرخی نہیں جمائیں گے؟ ۔ یہی تو سماجی ارتقا میں دانشور کا حصہ ڈالنا ہوتا ہے۔عام آدمی میں بے شرف اور ذلالت والی زندگی کے بجائے وقار و غیرت کی زندگی گزارنے کی جرات پیدا کرنا۔۔۔ شخصی وقار اور قومی افتخار کے جذبات پیدا کرنا ، کسی طرح کی ترغیب ولالچ وخوف کے خلاف مضبوط و مصمم رہنا ، اور آزادی اور سچ کی راہ اختیار کرنا ۔ ۔۔یہی سب کچھ شاہ نے بلوچ میں دیکھا اور سراہاتھا۔
مجھے احساس ہے کہ آج کے واکا میں ٹرمنالوجی بالکل مختلف ہوگی، اس لیے کہ پیرا ڈائم مکمل طورپر تبدیل ہے ۔مگر تصور کرلیں کہ’’ واکا اِسٹ ‘‘کے بطور آپ فزکس، بیالوجی یا خلائی سائنس کے کسی ڈویلپڈ مرکز میں بلوچ سائنس دانوں سے مخاطب ہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اُن کے اندر سسی والی طلب پیدا کرنے کی بات کریں گے، راستے کی مشکلات ، رکاوٹوں اور ممکنہ ناکامیوں کے خدشات ظاہر کریں گے ۔۔۔اور انھیں حصولِ یار کے ہدف کی ’’وحدانیت ‘‘پہ لیکچر دیں گے۔ اُس مٹھاس سے جس سے کہ شاہ نے کام لیاتھا اور وہ میٹھی باتیں سسی کے شیریں دھن سے سنائی تھیں۔شاہ لطیف بلوچ کے لیے لیو شاؤ چی ہے لوہسون ہے ، ٹام پین ہے!!۔
خواتین و حضرات! بھٹائی جیسے فلاسفر کا واکا ،زمان و مکان سے کبھی لاتعلق نہیں ہوتا۔شاہ نے چارصدیوں قبل کے بلوچ کی سماجی زندگی کے تقریباً سارے پہلو نمایاں کیے تھے ۔ وہ ساری معروضی صورت حال کھول کر رکھی تھی جس میں سے ’’سسی ‘‘ کولہولہان ہو کر، پیپ اور ریش ہو کر گزرتا تھا۔
ضروری ہے کہ شاہ کے واکا کا آج کاپرچم بردار بھی، آج کی بلوچ زندگانی پر بات کرے ۔ آج کا واکا پٹ فیڈر کی نہری زمینوں کی ملکیت کے بارے میں باخبر کرے ،سی پیک کی گردن دبوچنے کی قوت ہارس پاوروں میں ناپ کر بتائے ،اورغزل، لوری مصوری ڈاکٹری ،اور حتی کہ شاعری میں بھی اعدادوشمار اور ڈیٹا پرمشتمل سچ کے ردیف و قافیے شامل کرے ۔
دوستو۔میں یقین سے کہتا ہوں کہ آپ میں سے کسی بھی لطیف آشنا نے ،شاہ لطیف کو پنہوں اوراُس کی قوم بلوچ کے خلاف کسی قسم کی شکایت، تلخی، یاطعنہ بازی کرتے نہیں پڑھا ہوگا۔ حالانکہ شاہ لطیف خود اُس جنگ کا کمانڈر نہ تھا جو کلہوڑا فاشزم کے خلاف جاری تھی۔ بلکہ ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو ہر جگہ اور ہر وقت موجود یہ خود رو جنگ تھی ہی بے کمانڈر۔کمانڈر تو حسبِ ضرورت دومنٹ کے اندر اندر عوام کی اپنی ہی جُہداں صفوں میں سے نکل آتا ہے ۔ ایسا بھی نہیں کہ شاہ ہم قبائلی بلوچوں کی طرح کسی قبیلے کا آفیشل شاعر تھا۔ مگر کبھی غور سے دیکھیں تو لگتا ہے کہ وہ فاشسٹ قوتوں سے آزادی کی جنگ کا عمومی ترجمان اور رپورٹیئر شاعر تھا۔بلوچوں سے شاہ کے پیار کا نہ احاطہ کیا جاسکتا ہے اور نہ کوئی تشریح پیش کی جاسکتی ہے۔ اس کی شاعری کے توعمدہ ترین حصے بلوچ کی توصیف سے مرصع ہیں۔ وہ بلو چ کی ساری اچھی خصلتوں کو جمع کرتا ہے ، اور انہیں اپنے کمال فنکاری کے شیرین آب سے گوندھتا ہے اور ایک ایساانسان سامنے لاتاہے جوبہادر ہے، اپنے قول کا پکاہے ،اور راہنمائی کے اوصاف سے مرصع ہے۔
مجھے بالکل یہ خدشہ نہیں ہے کہ ’’شاہ آشنا ‘‘یہ محفل بلوچ بہادری کو کاروکاری، برادرکشی اور دیگر سماجی بدصورتیوں پر محمول کرے گی۔ ایسا سوچنا نہ صرف شاہ کے واکا ؔ سے بھدی ناواقفیت ہوگی بلکہ یہ اس کی محبوب ترین قوم، بلوچ کی بے تکریمی بھی ہوگی۔ یہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ بلوچ کی بہادری کی اشرف انسانی خوبی کو ملّانے ، پیرنے اور فیوڈل نے لطیفے کی حد تکmisuse کیے رکھا۔ شاہ کے بلوچ کی بہادری سماجی ہے، انفرادی نہیں۔ بلوچ بہادری بڑکوں سے دوستی نہیں رکھتی، یہ بازاری پن میں لتھڑی نہیں ہے، اور سب سے بڑی بات یہ ،کہ یہ غیر سیاسی نہیں۔
اور یہ سیاسی بہادری صرف کلہوڑا فاشزم کے خلاف نہیں بلکہ واکا کی روح کے مطابق ہر عہد کے فاشزم کے خلاف ہے۔شاہ کی آنکھ کا تارا بلوچ ،اگر بیرونی یلغارگر کے خلاف ہوتاہے تو،وہ دیسی فاشزم کے خلاف بھی رہتا ہے ۔ اور بدقسمتی سے اس قوم کی ساری تاریخ میں آج تک کوئی غیر فاشسٹ حاکم یا حکومت نہ آئی۔تفصیل میں جاؤں گا تو ادارے تو ناراض ہوں گے ہی مگر لیار ی کا بلوچ بھی خفا ہوگا ۔۔ وہ خواہ نیشلسٹ بلوچ ہے یا’’ تیر بجن‘‘ والا میر ا بھائی ہے۔میں دوبارہ دوہراتا ہوں کہ بلوچ تو کیا اِس پورے خطے کی معلوم تاریخ فاشزم کی تاریخ رہی ہے ،اوراُن فاشزموں کے خلاف مزاحمت کی تاریخ رہی ہے۔اُس زمانے میںیہ کلہوڑہ حاکم طبقہ کے خلاف مظلوم رعیتی کسانوں اور محکوم کردہ لوگوں کی دست گریبانی تھی،آج بھی دست گریبانی ہے:ہیوناٹس اور محکوم لوگوں قوموں کی، پیٹی لوگوں کے فاشزم کے خلاف۔ اور یہ دست گریبانیاں نہ صرف legitimateہیں، نہ صرف پروگرسیو ہیں، بلکہ ضروری بھی ہیں۔جس دن جُہد کا یہ پہلو فراموش ہوگا لطیف کا پیغام بے نمک ہوجائے گا۔
لطیف واکا پہ غور کریں تو بلوچ سچائی، اچھائی اور بشر دوستی کا نام ہے ۔ اُس کی ترجمان سسی ،کیچ کے یوٹوپیائی نظام کی شان و شوکت کو ہفت آسمان تک بلند بیان کرتی ہے اور خو د کو اُس نظام کی خاکِ پا گردانتی ہے۔ شاہ کی سسی تو خدا کے واسطے دے کر ،اورکنیز بن کر رہنے کی قسمیں کھا کر ،پنہوں یعنی یوٹوپیاکے حصول کی درخواستیں کرتی ہے۔ وہ تو اعلان کرتی ہے کہ کیچ والے (یوٹو پیا والے )جیت گئے اور وہ ہار گئی۔ مگر ہار میں بھی وہ اُس خطے پہ واری ہونے کی پریس کانفرنس کرتی رہتی ہے ۔
کمال بات یہ ہے کہ منزل خواہ کتنی کٹھن ، دشوار گزار ،اور تکلیف دہ کیوں نہ ہو راہی اُسی کی سلامتی اور نوجوانی کی سلامتی کی دعا کرتی جاتی ہے۔منزل ہی جب شناخت اور وجہِ زندگی بن جائے تو سلامتی تو اُسی کی چاہی جائے گی۔ چنانچہ راہی بچھوؤں سے سجائی پگڈ نڈی پہ آگے ہی بڑھتی جاتی ہے۔ آدرش وادیوں کا مقصد ایم این اے ، ایم پی اے اور وزیرگزیر بننے کا کبھی نہیں ہوتا کہ یہ اُن کی کمٹ منٹ کی توہین ہوتی ہے ۔ کمیون کے دوبارہ حصول کے فدائین کا اصل ہدف تو منزلِ مراد تک رسائی ہے، سورج کے شہر کے حصول کا ہے ۔تو ہماری یہ آدرش وادی سسی بلوچوں یعنی منزل میں کوئی خامی نہیں دیکھتی بلکہ الٹا اپنے آپ میں، اپنی حکمتِ عملی میں ،اور اپنے داؤ پیچ میں کوئی ممکنہ خامی تلاش کرتی ہے۔ منزل کی توساخت میں ہے کہ وہ ہمیشہ بے نیاز، بے خبر، بے ترس اور بے حس ہوتی ہے۔یہ ہمیشہ حتمی، Absolute، برحق ،اَن چیلنج ایبل، اور پری ڈیسائڈڈ ہوتی ہے۔ پہنچنے کی ڈیوٹی منزل کی نہیں راہی کی ہوتی ہے ۔ اور منزل میں ایک inborn error یہ رکھی ہوتی ہے کہ اس کا آنگن ہمیشہ ٹیڑھا رہتا ہے۔اسی لیے استاد بھٹائی منزل کو کبھی برا نہیں کہتا، اپنی صفوں اور معروض کے بیچ مطابقت کے امکان ڈھونڈتا ہے۔
خواتین و حضرات۔ شاہ لطیف نے بلوچ کی کُنڈھی بروتوں کی کبھی توصیف نہیں کی، اُس کی چھلا کردہ داڑھی کو بھی glorify نہیں کیا، اس کی دودیمیں تلوار ،منجنیق روکنے والی ڈھال، قوس صورت خنجر، ہلاکت خیز تیر، اور’’ لوہیں کمان ‘‘کی بات بھی نہیں کی۔ نہ ہی اس کے ڈیل ڈول، پیسہ روپیہ ،شان وشوکت کو گھاس ڈالا۔ اس نے تو بلوچ کو اُس کی خصلتوں، عادتوں، رویوں اور کارناموں کی وجہ سے تکریم دی ۔
لطیف واکا میں ،بلوچ عوام الناس کا استعارہ ہے ۔ چنانچہ وہ اٹھنے میں بیٹھنے میں ،بولنے میں، گانے میں مکمل طور پربلوچ بن جاتا ہے۔ شاہ بلوچ کو اپنا آئیڈیل گردانتا ہے۔ اس کی نظر میں بلوچ ہونے کا مطلب اُن خوبیوں کا مالک ہونا ہے جواُس فلاسفرکے پسندیدہ اوصاف ہیں۔بلوچ تُو ناز کر، خود پہ، اپنی قوم پہ، اور اپنے اِس ’’قومی شاعر‘‘پہ!!۔
شاہ لطیف کی ثنا کرنے والے دوستو!۔ ایک بُری حرکت کبھی نہ کرنا۔شاہ کی تعلیمات میں خرد برد کبھی نہ کرنا۔ وہاں پِک اینڈ چُوز کبھی نہ کرنا۔وہاں سے شعورو خرد کے موتی چننے میں کبھی دھاندلی نہ کرنا۔ اس لیے کہ اُن تعلیمات کے کُل میں ہی آپ کو اشرف المخلوقات بنائے رکھنے کی قوت موجود ہے ۔ بدقسمتی سے مگر میرا دعوی ہے ،کہ آپ سب ،انجانے میں ہی سہی ،شاہ سے خیانت کرتے رہے ہیں۔ نہیں؟۔ ابھئی دیکھتے ہیں۔بھئی، شاہ کی تعلیمات کے ایک ا ورمصرع پہ کتنا عمل کیا آپ نے؟:
’’ تمہیں بلوچ کو اُسی طرح دیکھنا ہوگا جس طرح میں دیکھتی ہوں ‘‘
سو ، مان جاؤ اپنی غلطی ۔ کفارہ کرو اِس کفر کا۔ اور آج سے ،ابھی سے لطیف کی بات مان کر، بلوچ کو یعنی عوام کواسی طرح دیکھنا شروع کردوجس طرح کہ وہ ، دیکھتا رہا ہے، immense love and respect for people ، فُل کانفیڈنس اِن پیپل۔
اگر آپ نے لطیف واکا کا مرکزی نکتہ دیکھنا ہوتو میری نظر میں وہ نکتہ اس کا وہ مصرع ہے جس میں وہ کہتا ہے کہ:
’’ اُسے خوف و پریشانی نہیں ہونی چاہیے جس کا لیڈر آری جام (یعنی بلوچ) ہو‘‘۔ اور یہی نکتہ شاید دانشوروں ، شارحین اور مفسروں مفکروں سے نظر انداز ہوچکا ہے۔
آپ اس فقرے میں دی گئی صورتحال کا تصور کریں جہاں عوام الناس کا سارا خوف ختم ہو جائے اور اس کی ساری پریشانیاں مٹ جائیں ۔ بلوچ کو اندازہ ہی نہیں کہ اسے جوہدف دیاگیا ہے وہ ایک ایسے سماج کے قیام کا ہدف ہے جس میں عوام الناس کا خوف ختم اور پریشانیاں دور ہوں۔ اب بتاؤ دوستو! کہ کیا خوف اور پریشانی سے پاک معاشرے کے قیام کی رجمنٹ یعنی بلوچ آرام ،سُستی، غیرذمہ داری اور وقت کے ضیاع کا متحمل ہو سکتاہے؟۔ اور یہ بھی بتاؤ دوستو،کہ یہ واکا بلوچ تک پہنچا نے میں میرا آپ کا جو رول بنتا ہے اُس سے تغافل برتنے کا ہم آپ کو کوئی حق ہے، جواز ہے ؟۔
ایک اور گھپلا بھی ہورہا ہے شاہ کے کلام کے ساتھ ۔میں سندھ اور بلوچستان میں شاہ کے بے شمار پیروکارو ں سے ملتا رہتاہوں۔ میں نے اُن میں عاجزی ، کمٹ منٹ اور وفا کے بہتے دریادیکھے ۔ میں نے ان میں عِلم اورحلم کا گلاب سونگھا ہے۔ میں نے ان کے دل میں بشر کی خیر کی تمناکے جھرنے سنے ہیں،میں نے ملیرمٹی سے پیار میں اُنہیں ماروی بنتے دیکھا ہے۔مگر ایک بات کی سخت کمی محسوس کی ۔بھلا، دلدادگانِ لطیف ،دن میں کتنی بار اُس کی اِس دعا کو دہراتے ہوں گے؟:
اے خدا بلوچوں کوہر طرح کی بدقسمتی اور مصیبت سے بچا
ایک بات یاد رکھیے ،محبت میں غلطاں لوگوں کا مذاق مت اڑائیے۔ یہ بڑے لوگ ہوتے ہیں۔ میں آج کے موبائل ہولڈزر کے آئی لویو کی بات نہیں کر رہا۔ میں تو خلقِ خدا سے محبت کرنے والے ولیوں کی بات کررہا ہوں۔ذرا دیکھیے تو ، کہ سسی اپنے دل اور روح کے پیروں کے چھالوں، اپنے مافوق البشر دکھوں تکلیفوں ، خارِ کیکرجیسی تلخ یادوں، مسافری کافری کی مشکلات اور ریش وزخم سے اٹے دل کے دکھوں کی بپتائیں بیان کرنے میں کوئی کنجوسی نہیں کرتی ۔مگروہ اس قدر اونچی اور بڑی شان والی ہے کہ اُف نہیں کرتی ، گلہ نہیں کرتی ، بدگمانی نہیں دکھاتی، غیبت نہیں کرتی،بدکلامی نہیں کرتی ،کوسنے نہیں دیتی ، بددعا نہیں دیتی، احسان نہیں جتاتی ،واہ واہ نہیں مانگتی۔ارے میں آپ تودفعہ 144 میں دودن کی کوئٹہ جیل پہ ناولیں نوحے بنوالیتے ہیں، سیلفیاں وٹس ایپیں بھرتے ہیں۔
’’ رسالو ‘‘میں ایک اور بات بھی پڑھیے۔اس میں شاہ کا بلوچ باوقار زندگی جیتا ہے، شخصی عزت اور قومی وقاراُس کی نشانیاں ہیں۔ لالچ اور خوف کوٹھو کر رسید کرناہے ، حق پہ کھڑا رہنا ہے ۔شاہ لطیف نے ہر موڑ اور ہر واقعہ پر بلوچ کا دفاع کیا ہے۔ایسا تو کوئی اُس وقت کرتاہے جسے سماجی تبدیلی کی تحریک میں اگلے کے رول پر بے انتہابھروسہ ہو۔اور میں نصف ملینیم عرصہ کے بعد سوچتا ہوں کہ شاہ نے سسی کو، یا پنہوں کو، (یعنی ایک فرد کو) اپنے ٹائٹل کے دفاع میں جان دیتے دکھایا ہے ۔ پوری قوم کے اعزاز کا سوال ہوگا توسوچو کیا ہو؟۔ حیرت ہے کہ عربوں پرتگیزیوں سے لے کر انگریزوں تک ،اور مغلوں منگولوں سے لے کر مشرفوں تک کویہ بات ہزیمت کھانے سے قبل نہیں سمجھ آتی کہ بلوچ اپنے نفسیاتی ورثہ کاپلاہوا ہے، اور وہ اپنی تاریخ کے افتخار کا باندی ہے ۔وہ شاعروں مفکروں کاآئیڈیل ہے۔اوراب واکا کی رو سے اُس نے دھوبنوں، اغوا شدگان اور وفاپرستوں کا سپارٹیکس رہنا ہے ، اِس سپارٹیکس نے اپنی سپارٹیکسی روایت میں مشترکہ قبر بناتے ہی رہنا ہے ۔ وہ مشترکہ قبر خواہ لسبیلہ کی ہو،اُدھر جھوک میں گنج نامی قبرستان ہو،انگریز کے وقت کے نفسک اور ھڑب میں ہوں ،یا پھر آج کے خضدار کے توتک اور مستنگ میں ہوں۔اوریہ مشترکہ قبرخواہ دو افرادکی ہو ، چار سو آدمیوں کی ہو یا 24ہزار انسانوں کی ہو۔
خواتین وحضرات۔ہمیں سسی کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ۔ہمیں نہیں معلوم کہ اور ل لٹریچر کی یہ کردار اساطیری تھی، یا طبعی ۔ اور اگر وہ جسمانی طور پر موجود تھی تو کیا وہ ایک ایسی عام ،مست اور الہڑدوشیزہ تھی کہ پنہوں کا حسن دیکھ کر بس حواس کھوبیٹھی اور پھر لااو بالی میں ، بے پرواہی میں ، بن سوچے سمجھے مچلتی ’’مُنڈا پٹواری دا ‘‘گاتی بلوچستان داخل ہوئی؟۔سچی بات ہے کہ ہمارے مڈل کلاس اور لوئرمڈل کلاس کا کلچرل Tasteبہت گرادیا گیا ہے ۔ہالی وڈ کی تشدد بھری فلموں نے ہمارے نواجون کو مست اور شاہ کے فلسفے سے بہت دور کردیا ہے ۔ پھرعراق شام، لیبیا، افغانستان اور خود پاکستان میں ہنہناتی ،بڑ بڑاتی اور لاشیں گراتی بندوقوں نے نوجوان نسل پہ جادو کردیا ہے ۔ہمارے سیاسی لیڈروں لاؤڈ سپیکر کے مالکوں اورٹی وی سکرینوں پہ قابضوں کی بد کلامیوں بد تمیزیوں نے ہمارے سماج کے بھاری پن کو چھلنی کر دیا ہے ۔ اور پھر ہندوستانی فلموں ڈراموں میں پستان جنبیدگی اور ریکٹر سکیل پر 440درجے کے زلزلے والے کولہے مٹکانے کے حیوانی مناظر سے ہمارے عوام کے متحرک ترین حلقے کی جمالیاتی سطح اور شعور جنسی افلاس زدگی کا شکار ہو چکے ہیں۔ ہم اُن سب لوگوں کو تھرل، سیکس اور لوکلچرل لیول سے اوپر ابھاریں گے تو شاہ کے تقدس کا بول بالا ہوگا۔ آج اُس پوری آبادی کے خیال میں ہر وہ قصہ بے کار ہے جس میں اوپر ذکر کردہ بکواسیات شامل نہ ہوں۔
اِس ہال میں موجود شاہ آشنا لوگ جانتے ہیں کہ شاہ نے ہماری عوامی داستانوں کی پاگیزگی اور شائستگی کے باوجود بھی اُن کے اندر کے افسانوی معاملات پہ نظر نہ ڈالی ۔ اُس نے اِنہیں ایک عام قصہ گو کی طرح بیان ہی نہ کیا۔ شاہ سٹوری tellerہر گز نہ تھا۔ وہ تو حتی کہ Poet Story teller بھی نہ تھا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ شاہ نے سٹوری کا محض ایک ٹکڑا اٹھا لیا، اسے اپنے تفکر کی چھاننی میں بہت بار گزار کراُسے اتنا بلند کر دیا کہ وہ سٹوری ہوتے ہوئے بھی سٹوری نہ رہی۔ وہ فلسفہ بنی، مینی فیسٹو ہوئی ،میگناکارٹا بنی۔چنانچہ اب جو فلسفہ بَن کر سامنے آتا ہے اس میں سسی کا جسم ، چال ، ترنم،حسن ، جوانی سب تبرک کے ہالے میں گم ہوجاتے ہیں اور بس ایک تمثیل رہ جاتی ہے۔ایسی تمثیل جسے ایک بہت بڑے فنکار نے لولاکیتاورUniversality بخش دی ۔ اس لیے اس سب کچھ کو سمجھنے کی خاطر اپنی شعوری سطح کو ہندوستانی فلموں کے حوالے کرنے نہیں دینا ہوگا۔ شاہ شعور کے بھاری پن کا راہنما ہے۔شاہ کو دیکھنے سمجھنے کے لیے ہمیں اپنے شعور کے پیروں کو تلووں کے بجائے پنجوں پہ کھڑا ہونے کا حکم دینا ہوگا۔
خواتین وحضرات۔یہ بات ٹھیک ہے کہ شاہ لطیف کو اُس کے عہد میں ہی جا کرسمجھا جاسکتا ہے ۔ مگر بطور بڑے فلاسفر کے اُس کے فلسفے کی عمومیrelevanceتو آج کے حالات میں بھی جانچنی دیکھنی ہوگی۔اور یہ کام بلوچ ہی کر سکے گا، اِس لیے کہ’’ واکا ‘‘اُترا اُس پہ ہے ۔ مگر ایسا بلوچ یہ کام کرسکے گاجسے اکیسویں صدی کے سماجی حقائق کی بھی جانکاری ہو، اورشاہ کے ’’واکا‘‘ سے بھی واقفیت ہو۔ سوشل یا نیچرل سائنس خواہ جتنی الگ الگ نظر آئیں مگر یہ ایک دوسرے سے زبردست لین دین میں ہوتی ہیں۔ فلسفہ شاید ساری سائنسز کا’’ ہشت چوک ‘‘ہے ۔ وہاں سے بہر حال گزرنا ہوگا۔ اوراے سائنس دان، تمہیں فکشن وفلسفہ کا مالک، اورواکا کا خالق شاہ لطیف وہیں ہشت چوک پر ہی ملے گا ۔اور وہی تو بلوچستان کے لیے زیرو پوائنٹ ہے ۔ کبھی بھی نیچرل سائنسز کو فلسفہ وفکشن سے دور جانے نہ دینا ۔یہ بالکل درست ہے کہ آٹو موبیل ، خلائی سائنس اور الیکٹرانکس کی ایجادات میں شاہ کا بالکل کوئی حصہ نہیں ہے ۔ مگر لیبارٹری میں موجود شخص اگر سسی پنہوں کے چیٹپر سے آشنا ہے تو اُسے تجربات کرنے،اور وہاں ناکامیوں اور حاصلات دونوں کو جھیلنے ہضم کرنے میں آسانی ہوگی۔اور یہ جو ’’ہمت نہ ہارو‘‘ کا لطیفی جملہ ہے ناں ، یہ انسان کی بقا کا واحد اور حتمی امرت دھارا جملہ ہے۔ ’’ہمت نہ ہارو‘‘ شاہ کے رسالو نامی بائبل کی غزل الغزلات ہے۔
خواتین و حضرات۔میں اخلاقیات کی بات نہیں کر رہا اس لیے کہ اخلاقیات تو پیداواری رشتوں کی مطابقت میں تبدیل ہوتی رہتی ہے ۔ مگر میں یہ ضرور دیکھنا چاہتا ہوں کہ اگر ہم اکیسویں صدی کا شاہ لطیف یعنی سسی ہیں، تو ہم اِس صدی کے پنہوں کو کیسا دیکھنا چاہتے ہیں؟۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ پنہوں کے حصول کی آج ہزار گنا زیادہ مشکل اور پیچیدہ شدہ مشکلات کیاکیا ہیں؟۔ یہ لسٹ اب شاہ لطیف مرتب نہیں کرے گا۔کیپٹلزم تو شاہ کے بہت بعد ارتقا کرکے ملٹی نیشنل کارپوریشنز کی صورت میں ڈھلا ہے، ہم پوسٹ ٹکنالوجیکل انقلاب کے دور میں جی رہے ہیں۔ مادی ومعاشی ترقی کی رفعتیں سر ہوچکی ہیں۔سو یہ کام شاہ نے نہیں کرنا تھا۔ یہ کام شاہ کے واکا بردار یعنی بلوچ کو کرنا ہوگا۔ ایسا’’ واکا بردار‘‘ جو کم از کم کمپیوٹرلٹریٹ ہو۔مطلب یہ کہ لطیف شناسوں کو، اور واکااسٹوں کو، اب ماقبل فیوڈ لزم نہیں بلکہ اکیسویں صدی کی سطح تک بلند ہونا ہوگا ۔ ایسا نہ ہوگا تو شاہ دوستی نری پیر پرستی رہ جائے گی، جمود طاری ہوگا، اوربلوچ شاہ کا متحرک و چست ولپکدار بلوچ نہ رہے گابلکہ لسی پی ای ہوئی ،بیر کے درخت کے سائے میں ڈھیر ،ایک مہیب جانوررہ جائے گا۔
لازم ہے کہ بلوچ دانشور اپنی ذمہ داری کا احساس کرے۔ اکیسویں صدی کے گنجلک زمان کے پیراڈائم میں ’’ واکا سکرپٹ اورواکا مینی فیسٹو ‘‘ کی وضاحت کرے، آگے جانے کا مینوئل تشکیل دے اور عشاق کے قافلے کے ہاتھ میں مناسب ترین پرچم ، اوراُس کے گلے میں مناسب ترین نعرے دے۔اس لیے میں چاہتا ہوں کہ بلوچستان میں کسی یونیورسٹی کے اندر یا لیاری یونیورسٹی میں، اور یاخود یہاں آپ کی یونیورسٹی میں ’’بلوچالوجی آف لطیف‘‘کا شعبہ قائم ہو۔