باوجود اس کے کہ سائیں کمال خان شیرانی پختونخوا ملی پارٹی کا بنیاد گزار تھا اور میں ایک ٹھیٹ پنجابی۔ مجھے پختونستان سے کوئی ہمدردی ہے نہ دلچسپی۔۔۔
باوجود اس کے کہ وہ ایک سوشلسٹ تھا اور میں پکی عقیدے والی۔مجھے کارل مارکس کی بہت سی باتیں پسند ہیں لیکن ایک دو نہیں بھی پسند۔۔۔
اور باوجود اس کے کہ میں اُس سے کبھی ملی نہ اسے دیکھا، نہ اس کے بارے میں کچھ سنا، نہ جانا، نہ میں کبھی بلوچستان گئی، نہ کبھی وہ سنگلاخ چٹانیں دیکھیں، نہ انگور کی بیلوں سے چھتے ہوئے اس کے مہمان خانے کی پتھریلی سلوں کے صوفے پر نیم دراز ہو کر سورج کے رخ پر رکھ کر وہ کتابیں پڑھیں جو دنیا بھر سے اُس کے پاس پہنچ جاتی تھیں۔۔۔
پھر بھی مجھے اس سے شدید اور گہری وابستگی محسوس ہو رہی ہے۔
محبت کہتے ہوئے ڈر لگتا ہے، ورنہ شاید محبت ہی کہہ دیتی۔ لیکن میں کون سا بلوچستان کے دور دراز پہاڑوں کی درزوں میں روشنی کی طرح رہنے والے لوگوں میں سے ایک ہوں کہ جو سوچوں بلا جھجک کہہ ڈالوں۔ میں تو ایک ’’متمدن‘‘ معاشرے کی فرد ہوں جہاں الفاظ پر ہی نہیں، جذبوں پر بھی روک ٹوک ہوتی ہے، کاٹ چھانٹ ہوتی ہے، پوچھ گچھ ہوتی ہے۔ جہاں ہر شے کو اعتدال کے بندی خانے میں رکھنے کی پابندی ہوتی ہے، جہاں، زندگی کو ایک خاص ڈھب سے گزارنے ، مخصوص اور طے شدہ راستوں سے کبھی نہ اترنے اور معمول کو جاری رکھنے کی رسم لازمی نبھانی پڑتی ہے۔
لیکن ان سب باتوں کے باوجود وہ کیاشے ہے جس کی طرف میرا دل سینے سے نکل کر ،ہمک ہمک کر، بڑھتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ جیسے کسی عمر قید کے قیدی کو اپنے بھولے بسرے وطن کی جھلک دکھائی دے جائے، جیسے کسی چالیس دن کے روزہ دار کو اپنے پسندیدہ کھانے کی مہک ستائے یا جیسے کوئی خواب میں اپنی کھوئی ہوئی جنت کا منظر دیکھ لے۔
آخر کون تھا سائیں کمال خان شیرانی؟ ۔
میں نے تو پہلی بار اس کا نام سنا ہے، بلکہ پڑھا ہے۔ ہو گا کوئی، مجھے کیا۔ لیکن یہ پہلی بار کی آشنائی اس قدر دل گیر کیوں کر تی ہے؟ ۔
کیا وہ سچ مچ ویسا ہی تھا جیسا ڈاکٹر شاہ محمد مری نے اسے لکھ ڈالا ہے یا یہ ڈاکٹر صاحب کے قلم کی جادو بیانی ہے؟۔
مگر شاہ محمد مری تو بھی تو نرا ڈاکٹر نہیں ہے۔ وہ بھی تو انہی پہاڑوں کی مضبوط پناہ گاہوں سے ابھرا ہوا سورج ہے جو بلوچستان کے ماتھے پر جھومر کی طرح جڑے ہوئے ہیں۔
بلوچستان۔۔۔ جہاں میں کبھی نہیں گئی۔ لیکن جس کا نام سنتے ہی میرا دل اس کی طرف لپکتا ہے۔ کیوں؟ یہ میں نہیں بتا سکتی۔ بلوچستان کیوں میرے اندر ہل چل مچاتا ہے اور جب کہیں کوئی بلوچستان میں خون بہاتا ہے، گولی چلاتا ہے، بم پھاڑتا ہے تو میرا دل کیوں کٹ کر رہ جاتا ہے، یہ میں نہیں جانتی۔
لیکن یہ میں ضرور بتا سکتی ہوں کہ بلوچستان کا شاہ محمد مری اپنے اکھڑ لفظوں اور قدرے تلخ لہجے کے باوجوداپنے اندر بہتی میٹھے چشموں جیسی سچائی کو نہیں چھپا سکتا۔ وہ بڑا صاف گو اور منہ پھٹ بننے کا شوقین ہے لیکن اس کے لفظوں سے دردمندی کی لپٹیں اٹھتی ہیں اور انسان دوستی کی آنچ سے اس کا سارا اکھڑ پن پگھل کر رہ جاتا ہے۔وہ اپنے وطن کی چٹانوں کی طرح سنگلاخ ہونے کا ناٹک کرتاہے لیکن صاف نظر آتا ہے کہ اندر سے چنبیلی کے پھول کی طرح نازک اور شرمیلے جذبوں سے مہک رہا ہے۔
میں یہ سب باتیں کیسے کہہ سکتی ہوں جب کہ میں نے صرف ایک بارلاہور میں ایک بڑے ہال کی پچھلی نشست پر بیٹھ کر ، اسے دور سٹیج پر کھڑے بولتے دیکھا اور سنا ہے۔ وہ ادیبوں اور شاعروں کو کھری کھری سنا رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ زبان ادیب اور شاعر نہیں بناتے، زبان صحرا میں اونٹوں کی نکیل پکڑ کر چلنے والے ساربان بناتے ہیں، زبان جنگل میں بھیڑیں چرانے والے چرواہے بناتے ہیں۔۔۔۔ و علی ٰ ہٰذا قیاس۔ میں نے یہ جملے اپنی کمزور یادداشت کے سہارے لکھے ہیں۔ اس وقت تک مجھے کچھ معلوم نہ تھا کہ شاہ محمد مری کون ہے؟۔ لیکن اس کی اپنی نثر میں ایک ایسا جادو تھا جیسا صحراکی شاموں اور ستاروں بھرے آسمان میں ہوتا ہے۔ بالکل خالص، بناوٹ اور سجاوٹ سے پاک، قدرتی مناظر کی طرح تصنع سے خالی اور جمال سے لبالب۔ سچے شاعروں اور اصلی ادیبوں کی تخلیق جیسا۔
مجھے اس کی نثر نے، اس کے بیساختہ اور مختلف سے لہجے نے اور اس کی تلخ نوائی نے چونکا دیا اور میں نے ادھر ادھر سے پوچھا،
’’کون ہے یہ ؟‘‘
اسلام آباد واپسی کے لیے جہاز میں بیٹھی تو اگلی نشست پر وہ بھی براجمان تھا۔ میں نے اس کا فون نمبر لے لیا۔
پھر اس کا رسالہ ’’سنگت‘‘ ملا۔ اور باقاعدگی سے ملنے لگا۔ تب کچھ کچھ اس کے گن کھلے۔ پھر اس نے کبھی کبھی اپنی کتابوں کا تحفہ بھیجنا شروع کیا۔میں تو پہلے ہی اس کی نثر کی مداح تھی۔ اور بھی قائل ہو گئی۔ لیکن آج جو ہوا ،وہ اور ہی تھا۔
اس کی چار کتابیں تو دو تین دن سے آئی رکھی تھیں اور میں نے ہمیشہ کی طرح فرصت کے وقت کی امید میں میز پر رکھ چھوڑی تھیں۔ لیکن آج جب میں دفتر سے گھر آئی تو دل اداس تھا۔ میں کوئی کام نہیں کرنا چاہتی تھی، اور اپنادل بہلانا چاہتی تھی۔ بغیر کسی خاص وجہ کے، میں نے ڈھیر میں سب سے اوپر رکھی کتاب اٹھا لی۔
کتاب کا نام تھا ’’سائیں کمال خان شیرانی‘‘۔ یہ اس کی سیریز ’’عشاق کے قافلے‘‘ کی انیسویں کتاب تھی اوراس کتاب کا یہ تیسرا ایڈیشن تھا۔ میں نے اس سیریز کی ایک آدھ کتاب پہلے بھی پڑھی تھی۔ بغیر کسی خاص توقع کے میں نے کتاب کھول لی اور پڑھنے لگی۔ پہلے چند صفحات ہی نے مجھے حیران کر دیا۔ باندھ لیا۔ میں نے کتاب ختم کیے بغیر ہاتھ سے نہیں رکھی۔ کسی کتاب کے ساتھ یوں جڑ کے رہ جانا، کم عمری میں اکثر ہوا کرتا تھا لیکن پھر میں کبھی کبھار کے سوا اس لطف سے محروم ہوتی گئی۔ یقیناً اس میں قصور میرا ہی ہوگا، کتابوں کا نہیں۔
اس کتاب کے صفحات سے ایک انسان ابھرا۔ سچ مچ کا انسان مگر داستانوں کے کردار جیسا مافوق الفطرت اور دیومالائی انسان، سائیں کمال خان شیرانی۔کیسا عجیب انسان تھا وہ۔ ایسے انسان تو خوابوں اور کتابوں ہی میں ملتے ہیں۔ کتنا خوش قسمت ہے شاہ محمد مری جسے اس کی رفاقت نصیب ہوئی۔ بد نصیبی تو میری ہے کہ مجھ سے ملنے سے پہلے ہی وہ مر گیا۔
مجھے تو ہمیشہ سے یہ چاہ رہی ہے کہ ایسے انسانوں کو ملوں، ان کی چھاؤں میں بیٹھوں، ان کی باتیں سنوں اور اپنے سوالوں سے ان کا سر کھاؤں، جو کاغذوں میں نہیں، حرفوں اور لفظوں میں نہیں، باتوں اور حکایتوں میں نہیں، شعروں اور تصویر وں میں نہیں،اپنے خون کی سچائی میں جی کر دکھاتے ہیں۔ جو وہ سب کچھ کر پاتے ہیں جو کرنے کو ان کا جی چاہتا ہے۔ جو اس طرح جی سکتے ہیں جس طرح جینے کو وہ بہتر اور برتر خیال کرتے ہیں۔ خواہ اس کے لیے انھیں اپنی پکی نوکریوں سے استعفیٰ دینا پڑے، خواہ گھر کا چولہا جلانے کے لیے جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لانی پڑیں،خواہ دیواروں پر دونوں ٹانگیں رکھ کر فرش کی سلوں پر لیٹ کر سورج کی روشنی میں اپنی پسندیدہ کتابیں پڑھنی پڑیں۔
میں جانتی ہوں کہ یہ سب کچھ ایک رومانی خواب کی طرح غیر حقیقی ہے۔ میں یہ بھی جانتی ہوں کہ ایسی افسانوی زندگی اتنی آسان نہیں ہوتی۔ اس میں صرف کتابیں اور خواب نہیں ہوتے۔ انگور کی بیلوں سے گھرے اور چھتے ہوئے مہمان خانے کا تصور کتنا ہی رنگین اور خواب ناک معلوم ہوتا ہو، لیکن اس کا مستقل حصہ بن جانا اتنا رنگین نہیں ہو سکتا۔ انگور کی بیلوں سے سانپ بھی لپٹ جاتے ہیں اور پتھر کی سلوں پر کمر بھی تختہ ہو جاتی ہے۔
لیکن اس کے باوجود زندگی اپنے سامنے کچھ خواب تو رکھتی ہے جو اسے آگے بڑھنے کی امید میں مبتلا رکھتے ہیں۔ شاہ محمد مری نے اپنی کتاب میں ایسے دیوانے کی تصویر کھینچی ہے جیسے دیوانے شہروں میں نہیں ملتے۔ ایک ایسا شخص جو اپنے سامنے ایک آدرش رکھتا ہے۔ پھر اس آدرش کے تعاقب میں نکل کھڑا ہوتا ہے۔ پرانی کہانیوں کے کسی سورما لکڑ ہارے کی طرح شہزادی کے سوالوں کا جواب ڈھونڈنے۔ تہی دست، ننگے پاؤں، بے آسرا، بے وسیلہ۔ اس کی شہزادی پوچھتی ہے ، سب انسان برابر کیوں نہیں؟ حقوق میں، سہولت میں، زندگی کے برتاؤ میں؟ وہ سب انسانوں کے لیے برابری ڈھونڈنے نکل پڑتا ہے۔
اس کی شہزادی کہتی ہے، لوگ جو کہتے ہیں وہ کرتے کیوں نہیں؟ وہ خاموش ہو جاتا ہے اور کچھ کہنے کے بجائے کچھ کر کے دکھانے لگتا ہے۔
وہ نعرے نہیں لگاتا، اپنے خیالات اور نظریات کی نمائش نہیں لگاتا، اپنے ارادوں کا اعلان اور اظہار نہیں کرتا۔ بس خاموشی سے انھیں جینے لگتا ہے۔ وہ جی کر بتاتا ہے کہ یہ ہے میرا نظریہ۔ ایسے جینا چاہیے۔
یہ انداز نبیوں اور رسولوں کی سنت ہے۔
اس سنت کو سب بھولتے جاتے ہیں۔نبی اور رسول کے ماننے والے بھی ۔اور نبی اور رسول کو نہ ماننے والے بھی۔
مگر وہ اس سنت کو زندہ کر جاتا ہے۔ اپنے نظریے، اپنے یقین کی مٹی سے اپنی زندگی کا ڈھانچا اْسارتا ہے۔خود اپنے ہاتھ سے اپنی تعمیر کرتا ہے اور ایک نمونہ بنا کر چھوڑ دیتا ہے۔ یہ نمونہ ہاتھ میں لے کر گھر گھر نہیں جاتا کہ دیکھو، لوگو، میں نے یہ عمارت اْساری ہے۔ تم بھی میری پیروی کرو۔ بس اطمینان اور شانتی کے ساتھ ، اپنی مشقت سے حظ اٹھاتا ہوا، وہ اپنی طرح کی زندگی جی کر دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے۔ دنیا دیکھتی رہ جاتی ہے۔
مجھے اسی اطمینان بھری زندگی کی تلاش ہے۔ ایسی زندگی جس میں انسان کو تسلی ہو کہ اس نے اپنی ہمت بھر کوشش کر ڈالی ہے۔ جو ڈھونڈنا تھا، وہ ملا یا نہیں، مگر اسے ڈھونڈنے میں پوری جان مار دی ہے۔خود کو اپنی محبت میں پوری تسلی اور دلجمعی سے کھپایا ہے۔ بغیر کسی خوف کے، بغیر کسی لالچ کے، بغیر کسی شک و شبہے کے۔
کیسا عجیب تھا سائیں کمال خان شیرانی اور یہ کتنی عجیب بات ہے کہ اس کا نام میرے سامنے لکھا ہوا ہے۔ اس کی سفید ڈاڑھی، دانا آنکھوں اور شکنوں بھری پیشانی والے چہرے کے عین اوپر۔ جلی حروف میں سائیں کمال خان شیرانی۔ لیکن میں جب بھی اسے پڑھتی ہوں تو کہتی ہوں سائیں کرم خان شیرانی۔ وہ کمال خان تھا، مجھے معلوم ہے۔ لیکن میرے اندر کوئی اسے کرم خان کیوں کہہ رہا ہے، میں نہیں جانتی۔ ضرور کرم سے اس کی روح کا کوئی گہرا رشتہ ہوگا۔ ہمارے گاؤں میں مائیں پیار سے اپنے بیٹے کو کہتی ہیں، کرماں آلا[کرموں والا]۔ سائیں بھی کرموں والا تھا۔ بلکہ کرموں والا ہے۔ اگر وہ ’’تھا‘‘ ہو گیا ہوتا تو اس کا کرم میرے کرموں پر کیسے سایہ فگن ہوتا۔
ژوب کے عیسیٰ خان کا بیٹا کمال خان پہلے ایک پہاڑی گاؤں کڑم میں پڑھنے گیا تھا۔ زلزلے سے تباہ شدہ کوئٹے کا سنڈیمن ہائی سکول اس وقت پشین میں منتقل ہو چکا تھا اور اس میں صرف سکالرشپ حاصل کرنے والے بچوں کو داخلہ ملتا تھا۔ اسی سکول سے کمال خان نے میٹرک کی سند بھی حاصل کی اور اقبال کی شاعری سے محبت کے اشتراک نے اسے دو ایسے دوست بھی عطا کیے جن سے زندگی بھر محبت اور نظریاتی اشتراک کا رشتہ قائم رہا۔ یہ دوست تھے خداداد اور ماما عبداللہ جمالدینی۔پھروہ اور جمال دینی دونوں علی گڑھ جاتے جاتے، اسلامیہ کالج پشاور پہنچ گئے۔
اسلامیہ کالج پشاور کی شاندار عمارت اس وقت ایک عظیم الشان درس گاہ کا رتبہ حاصل کر چکی تھی جہاں شام محمد مری کے الفاظ میں ’’خطے کے چند قابل ترین اساتذہ متعین تھے‘‘۔ ان میں سے ایک استاد کا نام صاحب زادہ ادریس تھا جو جسمانی معذوری کی وجہ سے وھیل چئیر پر بیٹھ کر چلتا پھرتا تھا۔صاحب زادہ صاحب نے پشاور اور ارد گرد کے دیہات سے آئے لڑکوں کو؛ جن کے گاؤں میں نہ دھوبی ہوتا نہ نائی؛ گورکی اور گوئٹے ، ہیگل اور اینگلز ، رسل اور برنارڈ شا کی لت ڈال دی۔ انھیں سوچنا اور سوال کرنا سکھا دیا۔سائیں کمال خان شیرانی اور اس کے دوست جمال دینی کے ذہنوں پر صاحب زادہ کی لگائی ہوئی مہر زندگی بھر کوئی نہ مٹا سکا۔ ان کے نظریات اسلامیہ کالج کی فضا میں خوب پختہ ہوگئے اور وہ انقلاب کے خواب آنکھوں میں سجائے ،چار سال میں تعلیم مکمل کر کے اپنے علاقے میں واپس آگئے اور جلد ہی نائب تحصیل داری کا تمغہ سینے پر سجا لیا۔ پانچ برس تک سرکاری ملازمت کی چکی چلانے کے بعد بالآخر نظریہ، معاش کی ترغیب پر غالب آگیا اورگھر والوں کی شدید مخالفت کے باوجود ان دوستوں نے سماجی نا انصافی کے خلاف احتجاج کے طور پر استعفے دے دیے۔
نوکری سے فارغ ہوئے تو معاشرے میں تبدیلی لانے نکل کھڑے ہوئے، رسالے نکالے، انجمنیں بنائیں، پمفلٹ تقسیم کیے،کتابوں کی دکان بھی کھولی جس کا مقصد سماج میں روشن خیالی کا دیا جلانا تھا اور نام تھا ’’فی الحال سٹیشنری مارٹ‘‘۔سب سے اہم بات یہ کہ کوئٹہ میں ایک مکان کرائے پر لے کر ان ہم خیال دوستوں نے’’ لٹ خانہ تحریک‘‘ کی بنیاد رکھی۔ یہ بلوچستان میں ترقی پسندی اورروشن خیالی کی تحریک تھی۔ اس کا مقصد مارکسزم کے نظریات کو عام کرنا تھا اور سائیں کمال خان شیرانی اس تحریک کی روح و رواں تھا مگر نجانے کیسا مارکسی تھا وہ کہ عین پارٹی کے اجلاس میں ، تمسخرآمیز نظروں کی پروا کیے بغیر نماز کی نیت باندھ لیتا تھاکیوں کہ وہ پنج وقتہ نمازی تھا اور کبھی روزہ خوری نہیں کرتا تھا۔
نمازیں پڑھتا تھا یا کتابیں۔کتابیں اس کا بستر تھیں، کتابیں اس کا تکیہ تھیں اور کتابیں اس کا سہارا تھیں۔ دنیا کی سب سے اچھی کتابیں چھپتے ہی اس کے پاس پہنچ جاتیں۔ وہ پڑھ کر انھیں بانٹ دیتا۔ لوگوں کو انھیں پڑھنے کے لیے اکساتا ، کبھی ترغیب دے کر، کبھی طعنے مار کر۔پھر بھی نہ پڑھتے تو خود پڑھی ہوئی باتیں انھیں سنا سنا کر سمجھاتا۔
وہ لکھتا بھی تھا۔ان کتابوں کے حاشیوں پر ، خطوں کے کونوں کھدروں پر ، کاغذ کے پرزوں پر لکھتا تھا۔اس نے اپنی کوئی باقاعدہ تصنیف نہیں چھوڑی لیکن وہ ترجمے کیا کرتا تھا۔ اسے اپنی مادری زبان پشتو سے عشق تھا۔وہ اہم انگریزی کتابوں کے پشتو میں ترجمے کیا کرتا۔ پشتو بھی کوئی علمی و ادبی نہیں،عوامی ہوتی۔ عوام کی زبان، ان کا محاورہ، ان کا روزمرہ اسے مرغوب تھا۔اسی کی طاقت سے وہ اپنا پیغام اپنے ہم زبانوں تک پہنچا دیتا تھا۔اسی لیے تو شاہ محمد مری اسے ’’مصنف نہیں، مصنف ساز‘‘ کہتا ہے۔
ضروری نہیں اس کی ساری باتیں ٹھیک ہوں۔ بلکہ بعض باتیں تو مجھے بالکل بھی ٹھیک نہیں لگتیں۔ مثلاً وہ پنجابیوں سے نفرت کا اظہارکرتا ہے تو میری سمجھ میں نہیں آتا کہ انسانوں سے محبت کرنے والا، کسی کو اس کے جغرافیائی خطے سے نسبت کی وجہ سے کیسے دھتکار سکتا ہے۔ یہ تو اس کے آدرش کی نفی ہے۔ شاہ محمد مری بھی اسے یہی بات سمجھانے کی کوشش کرتا رہا لیکن اس کی سمجھ میں نہیں آئی۔
اسی طرح وہ اردو اور اردو بولنے والوں سے گھن کھاتا تھا۔ حد ہو گئی۔ بھلا کوئی زبان یا اس کے سب بولنے والے ایک جیسے برے ہو سکتے ہیں؟ سچ تو دنیا کی ہر زبان میں بولا جا سکتا ہے، محبت ہر زبان میں ہوتی ہے۔ غیرت ، وقار اور تمکنت حروف تہجی سے نہیں پیدا ہوتے۔ ان کا منبع و ماخذ کچھ اور ہے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ وہ یہ بات نہیں سمجھا اور اردو اور اردو بولنے والوں سے خار کھاتا رہا۔ اگر وہ کچھ اور برس جیتا رہتا اور مجھ سے ملتا تو میں اس بات پر اس سے خوب لڑتی۔ مجھے یقین ہے کہ آخر وہ قائل ہو جاتا۔ پہاڑوں کی سنگلاخ تنہائی میں جینے والے خالص جذبے کی پہچان سے عاری نہیں ہو سکتے۔
وہ سوچتا تھا کہ پاکستان کے ٹکڑے ہو جائیں اور پاکستان صرف پنجاب بھر رہ جائے۔ میں ایسا نہیں سوچ سکتی۔ مجھے تو مل کر جینا اچھا لگتا ہے۔ میں پنجابی ہوں مگر مجھے سندھ کی مٹیالی مٹی بھی اپنی طرف کھینچتی ہے اور بلوچستان کے سنگین پہاڑ بھی شدت سے اپنی طرف بلاتے ہیں۔خیبر پختون خوا کے سرسبز جنگل اور دور تک پھیلے ہوئے کھیت تو میری روح میں اتر جاتے ہیں۔ صرف اپنے ملک ہی کی کیابات ہے، سچ کہوں تومجھے تو ساری دنیا ہی اپنا وطن لگتی ہے۔ میرا بس چلے تو ساری دنیا ایک ہو جائے۔ نہ کوئی ویزا ہو، نہ پاسپورٹ۔ جس کاجہاں جی چاہے، جا کر رہے۔ جس سے چاہے ، مل کر جیے۔ میں انسانوں کو نسلوں، خطوں اور قبیلوں میں بانٹنے کی قائل نہیں۔ میں تفریق نہیں، جمع کی شوقین ہوں۔ انسان کا مقدر جمع سے ہی وابستہ ہے۔ فرد فرد ہو کر جینا بھی کوئی جینا ہے؟۔ نسلوں، قبیلوں اور زبانوں کی بنا پر گروہوں میں بٹ جانا کہاں کی دانائی ہے۔ جس سماجی برابری اور انصاف کی سائیں کمال خان جیسے لوگوں کو تلاش ہے، اس کے حق دار صرف اس کے قبیلے کے لوگ کیسے ہو سکتے ہیں؟ اس کا حق دار دنیا کا ہر انسان ہوتا ہے خواہ وہ پنجابی ہی کیوں نہ ہو۔
اسی لیے تو سائیں، تم مجھے اتنے اچھے لگ رہے ہو۔ باوجود اس کے کہ میں ایک پنجابی ہوں اور تمھارے سارے نظریات سے اتفاق بھی نہیں کر تی لیکن نظریات کے اختلاف کا مطلب نفرت تو نہیں ہو سکتا نا۔
کہو کیا کہتے ہو!۔