شعراء چونکہ فطرت کا عکاس ہوتے ہیں اس لئے شعراء کو ہرزمانے اور ہر معاشرے میں نمایاں اور خاص مقام حاصل رہا ہے۔ اس انفرادیت اور خصوصیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ شعراء اپنے مذہب ،اپنی ثقافت اپنے وطن اور عوام کے ترجمان بھی ہوتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں یہ بات یوں بھی کہی جا سکتی ہے کہ شاعر اپنے(CULTURAL VALUES)کا محافظ ،مذہب کا مبلغ اور آنے والی نسلوں کیلئے تاریخ و تمدن کا محافظ ہوتا ہے۔ اس لئے شاید قدیم زمانے سے لے کر آج کے تیز ترین ترقی یافتہ دور تک شعراء کو ایک نمایاں مقام حاصل رہا ہے۔ان سب چیزوں کے علاوہ در اصل بنیادی طور پر شاعر اپنے ماحول اور معاشرے میں حقیقی امن محبت اور بھائی چارے کا بھی داعی ہوتا ہے اور ایسا شاعر ہی عظیم شاعر ہوتا ہے کیونکہ شاعری کا بنیادی موضوع ہی محبت ہے اور ایسے لوگوں کو زمانہ بہت دیر تک یاد رکھتا ہے۔
ایسا ہی ایک شاعر اور امن اور محبت کا داعی بلوچی زبان کا عظیم شاعر ، توکلی مست ، ہے۔توکلی مست کی شاعری اور فن شاعری کے ساتھ ساتھ مست کی شخصیت پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور آنے والے وقتوں میں بھی بہت کچھ لکھا جائے گا۔مست کو کسی نے بہت بڑا عاشق کہا تو کسی نے عظیم شاعر لکھا۔کچھ لوگوں نے مست کو درویش منش مجذوب تو بہت سوں نے ولی کامل اور بزرگ سمجھا۔مست کے زمانے سے لے کر آج تک ان تمام خیالات و نظریات کے حامل لوگ موجود ہیں ۔یہ سب باتیں اپنی اپنی جگہ درست سہی مگر سچ تو یہ ہے کہ مست بلوچی زبان کا عظیم اور بے بدل شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ محبت اور امن کا داعی تھا۔مست نے اپنے پُر تاثیر لہجے میں الفاظ کو علم و عرفان کے استعارات و تشبیہات کے پیراہن جس خوبصورتی اور لطیف انداز میں پہنائے وہ صرف اور صرف مست کا ہی طرۂ امتیاز ہے۔توکلی مست نے بلوچی زبان میں ” قافیہ اور ردیف” کی پا بندی کے ساتھ جو موتی پروئے اس مقام تک پہنچنا کسی شاعر کے لئے نا ممکن ہے۔مست کا زمانہ چونکہ تقریر کا تھا تحریر کا نہ تھا اور نہ ہی اس زمانے میں مست کے علاقے میں تعلیم کا رواج تھا۔اس لئے مست کے زیادہ تر حالات زندگی پوشیدہ ہیں۔ البتہ مست کی زندگی کے جو پہلواور تاریخ کے کچھ گوشے معلوم ہیں ان کا زیادہ تر دارو مدار مست کی اپنی شاعری پرہے اور یا پھر ایسی روایات ہیں جو سینہ در سینہ منتقل ہوتی ہوئی آرہی ہیں ۔اور یہ وہ روایات ہیں جن کی ثقاہت کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔مست کا زما نہ وہ ہے جب فرنگی راج خطابت ،القاب اور نوازشات کے عوض پورے برصغیر کے بعد غیور بلوچوں کی سر زمین کی طرف بڑھ رہا تھا۔ بلوچستان کاا س وقت کا باسی سفید کرتا زیب تن کیے کندھے کے ساتھ تلوار لٹکائے اپنی بھیڑ بکریوں کے ساتھ فطرت کی نمائندگی کر رہا تھا۔ آج کے دور کا انسان نہیں جو مشینوں اور جدید ٹیکنالوجی کے ہاتھوں یرغمال زندگی گزار رہا ہے اور فاصلے سمٹ جانے کے با وجود تنہائی کا شکار ہے۔ مست کی پیدائش کس سن میں ہوئی؟اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں البتہ محققین نے اپنی اپنی بساط کے مطابق یہ عقدہ حل کرنے کی سعی کی ۔مست کا سن پیدائش ڈاکٹر شاہ محمد مری نے 1825ء کو مست کی پیدائش کا سال قرار دیا۔مست کی پیدائش ” کاہان ” شہر سے تقریباً پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر” ماں ڑِک بند” نامی علاقے میں ہوئی” ماں ڑِک بند "کوئی گاؤں یا قصبہ نہیں بلکہ یہ کاہان شہر سے فاصلے پر ایک نواحی علاقہ ہے.بلوچی زبان اور ثقافت سے گہرائی کے ساتھ واقفیت رکھنے والے لوگ اس بات کو جانتے ہیں کہ اس طرح کے نام ان جگہوں کے ہی ہوتے ہیں جہاں کسی ایک آدمی نے انفرادی طور پر کوئی فلاحی کام کیا ہو یا کوئی جنگی کارنامہ سر انجام دیا ہو ۔اس کے علاوہ کو بڑی خیرات کوئی اجتماعی دعوت وغیرہ بھی وجیہ تسمیہ بن سکتی ہے یہاں جیسا کہ "ماں ڑک” کے ساتھ "بند ” کا لفظ لگا ہوا ہے تو پورے وثوق کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ کسی زمانے میں یہاں ماں ڑک نامی کسی شخص نے کوئی ” بند:” (تالاب) بنوایا ہو جس کے بعد یہ علاقہ "ماں ڑک بند” مشہور ہو گیا ہو۔
توکلی مست کے والد کا نام لا لہان تھا )لفظ "ہان "بلوچوں میں "خان” کی جگہ مستعمل ہے) جبکہ چھے بھائی جن میں دو کے نام مست کی شاعری کی توسط سے معلوم ہوئے ہیں مثلاً
ع باقی ہر کسا حیریں پیرک گراں ناز ئے غماں:
جبکہ ایک اور شیئرکے مصرعے میں اپنے دوسرے بھائی کا نام علنڑ بتاتے ہیں۔ ع علنڑ اشتؤ من پذی رندان گڑ تغاں۔
اس کے علاوہ ان کے خاندان کے دیگر افراد اور اولاد کے بارے میں سکوت ہی سکوت ہے۔وجوہات وہی کہ وہ زمانہ تعلیم کا نہیں تھا ۔کیونکہ ان پڑھ نگری ان پڑ ھ راجا اور ان پڑھ رعایا، اور پھر ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہو کہ اس وقت کسی کو معلوم نہ تھا کہ ماوند کی ما ہ جبیں سمو کا یہ عاشق مستقبل کا عظیم شاعر بن کر آسمان ادب مثل ماہتاب چمکے گا۔
توکلی مست کا نام ایک روائیتی بلوچی نام ہے” توکلی” کا جامع مطلب ہے بھروسا کرنے والا، با ہمت اور حوصلہ رکھنے والا،۔
یہاں میں یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ بلوچی زبان کی گہرائی سے عدم واقفیت کی بنا پر چند نام نہاد” محققین” نے توکلی کو طوق علی بنانے کی ناکام کوشش کی ۔مگر ان کا یہ مصنوعی نظریہ مسترد کر دیا گیا۔ جہاں تک لفظ "مست ” کا تعلق ہے تو مست ان کے نام کا حصہ اس وقت بنا جب توکلی”سمو "کے حسن بے نیام سے اپناقلب و سینہ چاک کروا بیٹھے۔ یعنی کاہان کا یہ باسی سمو کی زلف گرہ گیر میں پھسنے سے قبل ایک عام مری تھا جیسا کہ مست خود اس کا اعتراف کرتے ہیں۔
ترجمہ:۔ ہم تو پہاڑوں پر رہنے والے کاہان کے عام مری تھے (وہ یعنی اللہ) خود راضی ہوا اور سمو کا بہانہ بن گیااور پھر سمو کی نگا ہ کی برق توکلی کے سینے پر گری اور سمو کی زلف و رخسار کی تا بانیوں نے توکلی کو نہ صرف مست بنا دیا بلکہ بلوچی زبان کا عظیم ادیب اور عظیم شاعر بنا دیایوں توکلی "مست "بن کر غم ہستی سے بیگانہ بن کر رہ گیا۔مست کے زمانے سے لیکر اب تک بلوچی شعراء نے بھی تخلص کے لئے کسی نا کسی طور پر بحرحال کوئی نہ کوئی نام ضرور استعمال کیایہ الگ بات ہے کہ نام کے اس حصے کو تخلص کو طور پر کم لوگوں نے لیا ہو۔ مست کا کیا مطلب ہے ؟یہ ایک ایسا لفظ ہے جو صرف اور صرف توکلی کے لئے ہی جچتا ہے مست کا مطلب کچھ لوگوں نے پاگل کیا ہے۔جو کہ بالکل خلاف ادب ہی نہیں بلکہ علمی حوالے سے مہمل اور جہل کی حد تک غلط ہے ۔کیونکہ مست کا مطلب پاگل کرنے والے دوست بلوچی سے نا بلد ہونے کی وجہ سے یہ نہیں جانتے کہ بلوچی زبان میں ” پاگل” کیلئے الگ لفظ ” گنوخ ” مستعل ہے، میری ناقص رائے میں مست بہت جامع اور پُر تاثیر لفظ ہے جس کا مطلب ہے ایسا محذوب شخص جو جو تمام تر مسلکی ، مذہبی ، علاقائی اور لسانی تعصبات سے مکمل طور پر بالا تر ہو۔مجذوب بھی ایسا کہ دنیا اس سے نفرت نہ کرے بلکہ محبت کرے ، ہمارے دور کا بھنگ نوش چمٹا بجا کر دھمالیں ڈالنے والا مجذوب نہ بلکہ فطرت کا عکاس ، بہت بڑا شاعر ، بہت بڑا ادیب جس کو نفرت سے نفرت اور محبت سے محبت ہو، میری ذاتی اور ناقص رائے میں "مست” توکلی کا اپنا منتخب کردہ لفظ ہے جو کہ ایک شاعر اپنے تخلص کے لئے منتخب کر سکتا ہے۔ اگر فراق ، داغ، درد،شرر، حسرت ، امن جیسے الفاظ شعراء کی عظمت کے حوالے سے بن سکتے ہیں تو "مست” جیسا جامع اور با معنی بلوچی لفظ بھی توکلی کو بام عروج عطا کر سکتا ہے۔
مست نے سمو کے لئے”سمو” اور”سمُل” جیسے الفاظ استعمال کر کے ایک طرف اپنی محبت کا والہانہ اظہار کیا اور دوسری طرف اپنی شاعری میں مزید چاشنی پیداکی لہذاقیاس اور بلوچی زبان کے قوائد یہ تقاضہ کرتے ہیں کہ سمو کا مطلب "کونپل” ہے نا کہ”زہر”۔
ڈاکٹر شاہ محمد مری اور میر مٹھا مری سمیت تقریباً تمام محققین کا اس بات پہ اتفاق ہے کہ سمو کے والد کا نام ” بشقیا” تھا۔ سمو کے والد کا تعلق مری قبیلے کی ایک شاخ ” کلوانی” سے تھا۔ ڈاکٹر شاہ محمد مری نے سمو کے ایک بھائی کا نام ” دل مراد” لکھا۔
اس کے علاوہ سمو کے خاندان کے باقی افراد کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں البتہ ڈاکٹر شاہ محمد مری نے اپنی ایک کتاب میں سمو کی تین بیٹیوں اور دو بیٹوں کا ذکر کیا ہے۔
سمو کی شادی مری قبیلے کی”پروئی” شاخ سے تعلق رکھنے والے ایک شخص” بیورغ ” سے ہوئی۔سمو کے سن پیدائش کے متعلق حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔
آئیے مست کی شاعری کو حوالے سے مختصر بات کریں ، جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ شاعری میں مست نے جن ادبی اور علمی الفاظ سے اپنے قارئین کو روشناس کرایا اس میں مست کا کوئی بھی نعم البدل نہیں۔
مست کے کلام میں دیگر خوبیوں کے ساتھ ساتھ ایک خوبی یہ بھی ہے کہ مست نے اپنے زمانے میں پائی جانے والی ہر خوبصورت چیز کوسمو کے سراپا سے تشبیح دیتے ہوئے سمو کو حسینوں کا سرتاج قرار دیا ہے ۔مست نے ایک طرف تو سمو کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے امر کر دیا تو دوسری جانب بلوچی زبان و ادب کو الفاظ و تراکیب ،استعارات و تشبیحات کا عظیم سرمایا عطا کیا ۔بالکل ویسے ہی جیسے عظیم سرائیکی شاعر خواجہ غلام فرید ؒ نے اپنی کافیوں کے ذریعے” سرائیکی "اور "روہی ” کو دوام بخشا ۔ فرق صرف یہ ہے کہ مست کے ہاں حُسن کے تمام جلوے سمو میں مقید ہیں جبکہ خواجہ فرید روہی کو حسن و لطافت کے اعزازات بخش کر سرائیکی زبان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر کر رہے ہیں۔وہاں روہی روح میں بسی ہوئی ہے اور یہاں سمو اپنے حُسن وجمال کی رنگینیاں اور راعنائیاں بکھیر کر مست اور بلوچی شاعری کو لا فانی بنا رہی ہے۔
مست کی شاعری کو ہم ہر حوالے سے مکمل کہہ سکتے ہیں کیوں کہ مست کی شاعری صرف حُسن و لطافت اور تغزل کے رنگ ہی نہیں بلکہ تصوف ، تبلیغ ، وطن دوستی، محبت ، انسان دوستی غرضیکہ سبھی رنگ پائے جاتے ہیں ۔جہاں تک مست کا اسلوب بیان اور انداز شاعری ہے تو بالکل سیدھا سادہ، نہ بناوٹی اور پیچیدہ الفاظ اور نہ مصنوعی محاورات کی بھر مار ، بس ہر جگہ ہر شعر میں سمو اور سمو کا تذکرہ سمو کے حسن کے چرچے ۔ اگر اس کے علاوہ کچھ ہٹ کر ہے تو وہ بھی بلوچی روایات کے عین مطابق یعنی اپنی سیرو سیاحت کے واقعات کیونکہ مست کی شاعری پڑھنے کے بعد یہ پتہ چلتا ہے کہ مست کو سیر و سیاحت سے بہت دلچسپی تھی۔ مست کے اشعار سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مست نے اپنے علاقے سے باہر دلی ، ملتان ، ڈیرہ غازیخان ، سندھ کے کئی علاقہ جات، کوئٹہ اور قلات کا کئی بار سفر کیا ۔ دلی میں تو مست نے اپنی گرفتاری کو اپنے اشعار میں شامل کر کے بلوچی "حال حوال” کی رسم پوری کی۔ اسی طرح مست نے اپنے وقت کے قبائلی عمائدین سے ملاقاتوں کو بھی اپنی شاعری میں شامل کیا مثلاً نواب مرتضیٰ بگٹی، میر جمال خان لغاری،مزاری قبیلہ کے تمندار نواب امام بخش مزاری۔ ان تمام سیاسی شخصیات ملاقاتیں اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ مست اپنے وقت کا بہت بڑا ادیب اور سیاسی حوالے سے بیدار مغز شخص تھا۔ مست کی شاعری کو سمجھنے کے لئے جب اردو ترجمے کا سہارا لینا پڑتا ہے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ مست کی شاعری کس قدر گہری اور معنویت لیے ہوئے ہے۔کیونکہ جب مست کی شاعری کو ترجمے کی حدود و قیود سے گزارا جاتا ہے تو وہ چاشنی ،وہ رنگینی،وہ لطافت اور سوزو گداز ختم ہوتا دکھائی دیتا ہے کیونکہ دیگر زبانیں مست کی تشبیحات و تراکیب سے تہی دست ہیں۔
توکلی مست کی وفات بلوچستان گزیٹر میں 1896 ء جب کہ میرمٹھا مری نے 1892ء لکھی ہے ڈاکٹر شاہ محمد مری نے بھی مست کی وفات کا سال 1896 ء قرار دیا ہے جبکہ انعام الحق نے اپنی کتاب تذکرہ صوفیائے بلوچستان میں مست کی وفات کا سال 1895 ء لکھا ہے ۔
[…] مست کی شاعری کو سمجھنے کے لئے جب اردو ترجمے کا سہارا لینا پڑتا ہے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ مست کی شاعری کس قدر گہری اور معنویت لیے ہوئے ہے۔کیونکہ جب مست کی شاعری کو ترجمے کی حدود و قیود سے گزارا جاتا ہے تو وہ چاشنی ،وہ رنگینی،وہ لطافت اور سوزو گداز ختم ہوتا دکھائی دیتا ہے کیونکہ دیگر زبانیں مست کی تشبیحات و تراکیب سے تہی دست ہیں۔توکلی مست کی وفات بلوچستان گزیٹر میں 1896 ء جب کہ میرمٹھا مری نے 1892ء لکھی ہے ڈاکٹر شاہ محمد مری نے بھی مست کی وفات کا سال 1896 ء قرار دیا ہے جبکہ انعام الحق نے اپنی کتاب تذکرہ صوفیائے بلوچستان میں مست کی وفات کا سال 1895 ء لکھا ہے بشکریہ محمد حسن آثمؔ کھیازئی (ماہتاک سنگت کوئٹہ) […]