کتاب : چے گویرا
مصنف: ڈاکٹر شاہ محمد مری
صفحات: 120
قیمت: 200 روپے
مبصر: عابدہ رحمان

ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب کی کوئی بھی کتاب اٹھا کر پڑھیں ، چاہے وہ ان کی اپنی تخلیق ہو یا پھر کسی کتاب کا ترجمہ، اس میں آپ کو ان کی فکر، سوچ اور نظریہ واضح طور پر نظر آئیں گے۔ اسی فکر، سوچ اور نظریے کو لے کر ہی و ہ موضوع یا شخصیت کا انتخاب کر کے کاغذ قلم کی طرف لپکتے ہیں ۔ کیوبا کافیڈل کاسٹرو ہویا سوویت یونین کا کارل مارکس یا پھر ماوند کا مست، چین کا ماؤزے تنگ ہویا ارجنٹینا کا چے گویرا۔ ان سب کی طبقاتی جدوجہد، کمزوروں محکوموں کے حقوق کی جنگ،عورت کو حقوق دلانے کی جنگ اور اس جدوجہد کی تکلیفیں، مشکلات اور بالآخر کامیابی سے روشناس کرانے کا ذمہ ڈاکٹر صاحب نے اپنی مرضی اور خوشی سے لیا ہے۔
’چے گویرا ‘ چند دن تو میرے تکیے کے نیچے ان چھوئی پڑی رہی کہ ان دنوں ایک افسانے کی گتھیاں سُلجھا رہی تھی۔ اس دن موسم کچھ خوشگوار سا ہو گیا تھا ۔ بادل چھا گئے اور پھر آسمان ٹپ ٹپ چھلکنے لگا ۔ گھر کے چھوٹے سے آنگن میں کھڑے ہو کر پھوارکو اپنے اوپر خوب برسنے کی اجازت دی جس نے بوجھل پن دھو ڈالا۔ طبیعت کی گرد بارش کے ساتھ ہی کہیں بہہ نکلی۔ کچن میں جا کر اپنے لئے چائے بنائی اور مگ لے کرکمرے میں کھڑکی کے پاس اپنے بیڈ پر بیٹھی تو ’چے گویرا‘ کی کتاب جوتکیے کے نیچے سے سرک کر میرے پاس آگئی تھی۔ تب پہلی دفعہ میں نے کتاب کھولی تو دیکھا کہ یہ بارہ انقلابیوں کی جدوجہد کی داستان ہے۔
چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے میں نے صفحہ پلٹا، چے گویرا؛ 14 جنوری 1928 کو ارجنٹینا میں پیدا ہونے والا مستقبل کا یہ انقلابی بچپن میں ایک مزدور تحریک میں حصہ لینے والایہ نوخیز ایک قوم پرست انقلابی تنظیم میں شریک ہوا جو جان بیرون کے خلاف مسلح جدوجہد میں اٹھ کھڑے ہوئے۔اس کی پہلی تحریر ’ موٹر سائکل ڈائری ‘ کے نام سے سامنے آئی جو دراصل طالب علمی کے زمانے میں تین ماہ اپنے ملک کی سیاحت کی داستان تھی۔مارکسزم سے متاثر ، پیراسائیکالوجی کا یہ سٹوڈنٹ شخصی ترقی کے جال سے نکل کرمعاشرے کی بیماریوں یعنی غربت، جہالت، بے گھری و محکومیت کے علاج پر نکل کھڑا ہوا۔اور کامیاب معالج بننے کے لئے فلسفہ ،شاعری،کارل مارکس اور پابلو نرودا کا مطالعہ کرکے اپنے انقلابی نظریئے کو پختگی دی۔
بادل گرجے ۔مینہ برسنے کی آواز اندر تک آرہی تھی۔ میں نے کھڑکی سے باہر دیکھا تو آسمان سفید نظر آرہا تھا۔ میں نے مگ ہونٹوں سے لگایا اور مصنف کی انگلی تھامے چلی تو چے گویرا کو فیڈل کے ساتھ سانتا کلارا کے محاذ پر بھی دیکھا جب اس نے فیڈل کے ہمراہ گوریلوں کی قیادت کی اور بے آف پگز پر حملے کے وقت بھی دیکھا۔ چے مختلف ملکوں میں کیوبا کا سفیر بھی رہا۔بندوق کے ساتھ ساتھ اس نے قلم کا ہتھیار بھی اٹھایا اور بارہ کتابوں کا مصنف بنا۔
اور پھر فیڈل کو خط ملتا ہے ’ تم نے مجھے جس جنگ کے آداب سکھائے ہیں میں اس جنگ کو نئے محاذوں پر لے جارہا ہوں۔ میں وہ انقلابی روح دوسری قوموں کے غلاموں میں پھونکنا چاہتا ہوں ‘۔
ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ انسان اور انسانیت کے لئے لڑنے والا یہ بہادر جنگجو18 اکتوبر 1967 میں بولیویا میں زخمی حالت میں گرفتار ہو کر مقدمہ چلائے بنا قتل ہوا ۔
میں نے کتاب پڑھتے پڑھتے اسی طرح الٹی رکھ دی اور چائے پیتے ہوئے سوچنے لگی کہ قتل کون ہوا؟۔۔۔چے یا وہ ضمیر فروش؟؟ ۔۔۔چے تو آج بھی اپنی فکر اپنے نظریئے کو لیے زندہ ہے۔۔۔ آج بھی دنیا کے ہر کونے میں حقوق کی جدو جہد کے لئے کوئی نہ کوئی چے موجود ہے، چے کی سوچ و فکر لے کر نئے وجود کے ساتھ حاکمیت کی مخالفت میں۔۔۔!۔
میں اٹھی ایک دفعہ پھر بارش کا نظارا کرنے ۔پھر پورے گھر میں باقی مکینوں کی مصروفیات دیکھنے کے بعد آکر اپنی کتابوں کو شیلف میں ایک ترتیب سے رکھنے لگی۔ واپس آکر چند لائینوں کا اضافہ اس خط میں کیا جو میں ایک دوست کو آج کل لکھ رہی ہوں ۔ اسی اثناء میں مغرب بھی ہو گئی اور پھر میں نے کچن کا رخ کیا کہ رات کا کھانا بنانا تھا۔
باقی کاموں سے فارغ ہو کر جو میں اپنے کمرے میں آئی تو مجھے ’چے گویرا ‘ نظر آئی جو میں پڑھتے پڑھتے چھوڑ گئی تھی۔شال میں چند چھینٹے پڑیں تو موسم ٹھنڈا ٹھنڈا ہو جاتا ہے ۔اپریل جس میں باقی علاقوں میں آگ برس رہی ہے وہاں شال کا یہ عالم کہ میں نے تو اٹھ کر کمرے کا ہیٹر آن کر دیا۔ بارش۔۔۔سردی۔۔۔ہیٹر کی ہلکی سی حدت ۔۔۔ایسے میں میرا من تو ہمیشہ کوئی اچھی کتاب پڑھنے کو ہی کرتا ہے ۔ لہذا چے گویرا اٹھائی اور بیڈ کے پاس کارپٹ پر رکھے تکیے سے ٹیک لگاتے ہوئے میں نے دوسری شخصیت راؤل کاسٹرو کو پڑھنا شروع کیاجس نے اپنے بڑے بھائی فیڈل کاسٹرو کا ساتھ 1953 میں 26 جولائی کی تحریک میں دیا ۔اس کی جلا وطنی ہی تھی کہ جب چے گویرا سے ملاقات اور پھر دوستی ہوگئی۔مونکیڈا بیرکوں کے حملے سے لے کر کوہِ سائیرا مائیسترا کی جنگوں تک سب میں بہادری سے لڑا۔فیڈل کاسٹروکی بیماری اور پھر مو ت کی وجہ سے صدارت سنبھالنا پڑی لیکن اس نے کہا ’میں صدر اس لئے منتخب نہیں ہوا کہ کیوبا میں سرمایہ داری بحال کروں ، نہ اس لئے کہ انقلاب کوہتھیار ڈالوا دوں ۔ میں اس لئے منتخب ہوا کہ سوشلزم کا دفاع کروں ، اسے برقرار رکھوں اور اسے لگاتار بہتر کرتا رہوں ، نہ کہ اسے تباہ کروں ‘۔
ولما ایسپین؛ راؤل کاسٹرو کی بیوی۔ اگر میاں بیوی دونوں ایک ہی فیلڈ میں ہوں تو میرا خیال ہے زندگی آسان ہو جاتی ہے۔ یا شاید یہ میرا خیال ہی ہو۔ خیر سنتیا گوڈی کیوبا میں پیدا ہونے والی ولما کو گلی کے بھکاری نے طبقاتی جدوجہد کا احساس دلایا اور اس جدوجہد میں اپنا حصہ ڈالا۔ وہ ایسٹرن ریویولیوشنری ایکشن نامی تنظیم کے بانیوں میں سے تھی۔History will absolve me نے اُسے قوت بخشی جو اس نے بہت سے لوگوں میں بانٹا اور سائیرا مائسترا میں انقلابیوں کی مدد کی اور 1960 میں بنائی گئی عورتوں کی تنظیم ’ فیڈریشن آف کیوبن وومن‘ کی صدر آخر تک رہی۔
میں نے ہیٹر بند کر دیا کہ کمرہ خاصہ گرم ہو گیا تھا۔تب ہی لائٹ بھی چلی گئی۔کتاب بند کرنا ہی پڑی۔ بارش گاہے بگاہے اب بھی ہو رہی تھی۔ میں بارش کی آواز سننے لگی ۔خاموشی ۔۔۔اندھیرا ۔۔۔ بارش کی آواز۔۔۔!کوئی آدھے گھنٹے تک میں بارش کی خاموش آواز سے لطف لیتی رہی کہ لائٹ آگئی۔
ڈاکٹر صاحب کی کتابیں اگر آپ نے پڑھی ہوں تو آپ کو پتہ ہوگا کہ وہ اس انداز میں لکھتے ہیں کہ جیسے ہم ان کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے ان شخصیات سے مل رہے ہیں اور کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ وہ سب ہمیں جانتے ہیں ، ہم سے واقف ہیں۔
وہ لکھتے ہیں کہ سیلیا سانچیز گوریلا فوج میں شامل ہونے والی پہلی خاتون کا کردار گورکی کے ناول ’ماں‘ میں ماں کا سا کردار تھا ۔ اس نے رسل و رسائل اور خوراک کی فراہمی اپنے ذمہ لی تو سنتیا گوڈی کیوبا کی انقلابی افواج کے ساتھ بھی اور ہوانا کی جانب آزادی کاروان کابھی حصہ رہی۔ انقلابی شہیدوں کے بچوں کی تعلیم و تربیت ہو یا لوگوں کے مسائل کو حل کرنے کے مشورے، سیلیا موجود رہتی۔
اگلا صفحہ پلٹا جس پر ایک اور گوریلا انقلابی جنگ کے بہادر المیدا کے بارے میں لکھا تھا۔ میزائیل بحران، مونکیڈا محاذ، گرانما محاذہر جگہ یہ سیاہ فام ڈٹا رہا۔ گرفتار ہوا، قید کاٹی اور میکسیکو میں گوریلا فوج منظم کی۔ جنگ کے میدان میںیہ لڑنے والا نغمے بھی لکھتا رہا اور بے شمار کتابیں لکھی۔
چلی کا نام کہیں سنتی یا پڑھتی ہوں تو مجھے نرودا کی ’ یادیں ‘ یاد آجاتی ہے۔ اتنی خوبصورت تحریر ، اتنی حسین منظر کشی کہ بندے کو خواب میں چلنے کا سا گمان ہوتا ہے۔ایک عجیب سرور ہے اس کتاب میں کہ پڑھ کر بھی کافی دن تک اسی کے حصار میں رہی۔
جی! چلی کا ایک بہادر، ممتاز ، ایماندارشخصیت جو زمانہ طالب علمی سے ہی سیاست کا شوق رکھتے ہوئے طلباء فیڈریشن کا نائب صدر بنا۔ یہ شخصیت تھی ڈاکٹر سلواڈور آلندے۔ 1935 میں میڈیکل ایسوسی ایشن کا لیڈر بنااور سوشلسٹ پارٹی کی رکنیت اختیار کی۔ 1938 میں پاپولر فرنٹ کے قیام پر روٹی، چھت اور روزگار کا نعرہ مقبول ہوااور آلندے وزیرِ صحت بنا۔ سوشلسٹ خیالات رکھنے والا یہ عوامی لیڈر کاسٹرو کا دوست تھا۔اپنے ملک کی سیاسی اور معاشی آزادی کا خواہاں 1970 میں صدارتی مقابلہ جیتتے ساتھ اس نے کاپر کی معدنیات، بنکوں اور دوسری بڑی صنعتوں کو قومیا لیا۔ جاگیرداروں سے زمین چھین کر بے زمین کسانوں کو دی اور لاطینی امریکہ میں کامریڈ پریزیڈنٹ کہلایا۔اپنی خصلت سے مجبور امریکہ نے چلی کی معیشت پر زبردست حملے کئے جس پر آلندے نے کہاکہ ’ ان کے پاس قوت ہے، وہ ہم پر حاوی ہو سکتے ہیں ، مگر سماجی پروسیس کو نہیں روکا جا سکتا، نہ جرائم سے اور نہ طاقت سے۔ تاریخ ہماری ہے اور عوام اسے بناتے ہیں‘ ۔ گیارہ ستمبر آلندے کو شہید کر دیا گیا اور ملک میں فاشزم کا دور دورا ہو گیا۔
ابھی تو میں نے پابلو نرودا کا ذکر کیا تھا اور ڈاکٹر صاحب نے اگلے صفحے پر جس شخصیت پر قلم اٹھایاتھا وہ نرودا ہی تھا۔ ادھر آکر مجھے پتہ چلا کہ ڈاکٹر صاحب خود بھی ’ یادیں ‘ کے متاثرین میں سے تھے ۔ بقول ان کے کہ اس میں جوانی بہت ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ 12 جولائی 1904 میں پیدا ہونے والا یہ عظیم شاعرایک ریلوے مزدور کا بیٹا تھا۔ بارش ، گھنے جنگل، سبزے کی مہک سے اٹھنے والی شاعری نرودا ہی کی تھی جو ’ مدھم سی روشنی کی کتاب‘ کے نام سے چھپی۔ پھر ’بیس عشقیہ نظمیں اور نا امیدی والا ایک گیت‘ شائع ہوئی جس میں عشقیہ شاعری تھی۔ مختلف ممالک کا سفیر رہنے والا یہ پابلو سپین کی خانہ جنگی میں صرف فطرت اور عشق و محبت کا شاعر نہ رہا ۔ شاعروں ، ادیبوں پر فاشسٹوں کو مظالم ڈھاتے دیکھ کروہ کیسے کنارا کر سکتا تھا لہذا عشق و محبت کا یہ شاعر ایک انقلابی شاعر بنا۔ عشق کا یہ ترجمان ، آلندے کی انقلابی حکومت میں پیرس میں چلی کا سفیر بنا کر بھیجا گیا ۔ آلندے کے قتل پر اس نے ایک نظم لکھی جس کی تشہیر ریڈیو، ٹی وی اور اخبارات میں ہوئی۔ 23 دسمبر 1973 میں سنتیا گو میں انتقال کر گیا۔
آج جانے کیوں نیند آنکھوں میں بس گئی تھی۔ معمول کے خلاف نیند آگئی۔اور میں نے کتاب سائیڈ پر رکھ کرلائٹ آف کر دی ۔ رِم جِھم بارش برستی رہی۔ میں چھم چھم کی آواز کے ساتھ نیند کی آغوش میں چلی گئی۔
صبح آفس کے لئے تیار ہوئی تو جاتے جاتے چے گویرا بھی اس امید کے ساتھ اٹھائی کہ ٹائم ملا تو پڑھ لونگی۔ آفس پہنچتے ساتھ گہرے بادل چھا گئے۔ میٹنگ سے فارغ ہوکر میں نے مڑ کر کھڑکی میں دیکھا تو پھوار شروع ہوچکی تھی ۔گہرے سبز درخت اور پودے دھل کر نکھر گئے تھے۔ اچانک پیانو پر بجتی ہوئی کوئی ہلکی سی دھن میرے کانوں تک آئی۔ میں ادھر ادھر دیکھنے لگی کہ آفس میں یہ آواز کہاں سے آسکتی ہے۔ میں کچھ نہ جان سکی۔ چند لمحے بعد مجھے وہی آواز پھر سے آئی۔ غور کرنے پر مجھے لگا کہ کہ جیسے چے گویرا کی کتاب سے آرہی ہو۔میں نے اپنے خیال پر مسکراتے ہوئے کتاب اٹھائی۔اچھا تو یہ بات تھی ۔ لکھا تھا کہ 28 ستمبر 1932 کو چلی میں پیدا ہونے والا وکٹر ہارا نے پیانو اور گٹار ، چلی کی لوک موسیقی اپنی ماں سے سیکھی اور اپنے وطن کی تجدیدِ موسیقی میں اہم کردار ادا کیا۔ 1970 میں چلی کے محنت کش عوام کی جدوجہد میں شامل ہوا تو اس کے گیت محنت کش عوام کے گیت بنے ۔ محبت، امن و انصاف کے گیت گانے والے کو وحشتناک حالت میں قتل کر دیا گیا۔
دور سے ایک سوگوار گیت کی آواز آنے لگی ۔ دل گھبرانے لگا ۔میں کتاب سینے سے لگائے باہر نکل آئی۔ بارش تھم چکی تھی۔ سبزے کی مہک چار سُو پھیلی ہوئی تھی۔ روش پر واک کرکے میں ایک بینچ پر بیٹھ گئی اور کتاب کھولی۔ گبرئیل گارشیا مارکیز ، کولمبیا کا اک سحر انگیز لکھاری جس نے اپنے والدین کی محبت کواپنے ناول Love in the time of cholera میں بیان کیا۔صحافت بھی کی اور نوبل پرائز پایا۔ اپنی تصنیف One hundred years of solitude میں کہا کہ ’ میرا خدا اگر پھر سے مجھے دل دے تو میں اپنی تمام نفرتوں کو برف کی چادر پر بچھا دوں گا اور سورج کے نکلنے کا انتظار کروں گا‘۔
دورسے وہ مالی بابا آتے ہو ئے دکھائی دیئے جو ہمیشہ سلام دعا کے ساتھ مجھے پھولوں کا گلدستہ اور کبھی کبھار چند پھو ل لا کر دیتا ہے۔ اس نے آکر کہا ’ اسلام علیکم بیٹا، کیا حال ہے‘ اور پھول میری طرف بڑھا دئے ۔ میں نے سلام کا جواب دیتے ہوئے پھول پکڑ لئے ۔ا ن کی خیریت دریافت کی اور وہ آگے کو چل دیئے۔میں واپس کتاب پر جھک گئی۔
ہیوگو شاویز ؛ ملٹری اکیڈمیوں سے پانے والے شاویز نے ملٹری اکیڈمی میں تدریسی اور انتظامی ذمہ داریاں بھی سنبھالیں جہاں اس نے اپنی شعلہ بیانی اور وینزویلہ حکومت اور معاشرے پر انقلابی انداز میں تنقید کرنے کی وجہ سے مقبولیت حاصل کی۔بولیویرین موومنٹ قائم کی اور فوج میں رہتے ہوئے چند ساتھیوں پرمشتمل ایک چھوٹی فوج بنائی، قوم پرستانہ نظریہ بناکر اسے ’ بولیویرین ازم‘ کا نام دیا۔ 1992 میں جب آمریت نے اپنے عوام پر گولی چلانے کا حکم دیا تو کرنل ہیوگو شاویز نے فوجی بغاوت کر دی۔صدر منتخب ہونے پر اس نے نیا آئین دیا۔ 2002 میں اسکے خلاف بغاوت کر کے اسے قید کیا گیا لیکن وہ جیل میں بھی نہیں جھکا اور استعفی دینے سے انکار کر دیا۔لیکن عوام کے پرزور احتجاج پر اس کی حکومت بحال ہوئی۔ تعلیم و صحت کے شعبوں کو ترقی دی اور زرعی اصلاحات پر دستخط کئے۔
میں اٹھ کر آفس کی جانب چل دی ۔ اپنی ٹیبل پر بیٹھی۔ایک ضروری لیٹر ٹائپ کیا اور پھر گھر کے لئے نکل گئی۔گھر پہنچ کر کچھ کام کئے۔ ایک دوست کی کال آئی اس سے گپ شپ کے بعد چے گویرا کا آخری حصہ پڑھنے لگی۔
ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ برازیل کا لولا چھوٹی عمر سے ہی ٹریڈ یونین تحریک میں دلچسپی لینے لگا اور اسی سے سیاست میں آگیا۔1998 میں سٹیل ورکرز یونین کاصدر بنا اور 2003 سے 2011 تک رہا۔
موریلز نے 2005 کے انتخابات جیت لیے۔ تین سال کے اندر اندر ناخواندگی ختم کی۔لاطینی امریکہ کے چار ممالک کیوبا، وینزویلا، بولیویا اور نکاراگوا میں۔
اور یہ اس کتاب کی آخری شخصیت تھی ۔ ایک مزیدار کتاب کامزہ ایک بہت خوبصورت موسم نے دوبالاکر دیا۔ چند ایسی شخصیات تھیں جن پر بہت مختصر لکھا گیا تھا سو پیاس برقرار رہی لیکن خیر بارش تو ہوتی ہی رہتی ہے۔۔۔لہذا اس امید پر کتاب بند کی کہ بارش ہوگی۔۔۔! ۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے