جب میں چھوٹا تھا تو مجھے اپنے ماضی کے قصے دوہراتے رہنے کی بزرگوں کی عادت بری لگتی تھی۔ اس لیے کہ بڑھاپے میں اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ سامع نیا ہے یا وہی جسے وہی بات بے شمار دفعہ پہلے سنا یاجاچکا ہوتا ہے۔
اب جب میں خود بزرگ ہونے لگاہوں تو یہی چیلنج مجھے در پیش ہے ۔میں خود کوشعوری طور پر روکتا رہتا ہوں کہ ماضی کی کوئی بات کروں ہی نہ۔
اور پھر،کوئی ایسی قابلِ ذکر بات موجود ہوتی تو پہلے ہی نہ کہہ دیتا؟ ۔ میں کونساعبداللہ جان ہوں جو ماضی کی یادداشت محفوظ رکھنے کا حیرت انگیز دماغ رکھتا ہوں۔ اور جب چاہوںیادوں کی الماری کھول کر کسی یادکو کان سے پکڑ کر آپ کے سامنے پیش کروں۔میں تو16سال قبل آنسوؤں سے تیار کردہ موت نامی جانورکے کباب کا پورا دنبہ پراتھ میں رکھ لایا تھا۔ سو اپنے پاس نیا کچھ نہیں ہے دوستو۔
خواتین وحضرات!امیر الدین جیسے قریبی دوستوں کے بارے میں بات کرتے وقت بڑی تکلیف ہوتی ہے۔ وہاں توآپ اپنے بارے میں بات کررہے ہوتے ہیں۔ جو اس قدرتکلیف دِہ ہوتا ہے جیسے جوانی میں سینے کے بال اکھاڑ نا۔۔ اوراُس تکلیف کا بار باراعادہ کرنا، واقعی بہت عذاب ناک ہوتا ہے ۔
مگر میں حیران ہوتا ہوں کہ امیر الدین کی سیاست ، تنظیم ،ڈسپلن اور کاروان سے دور تک واسطہ نہ رکھنے والا بھی امیر الدین کے بارے میں دھڑلے سے بول رہا ہوتا ہے ۔اُس کی ساری زندگی اُس پہ ٹھٹھا کرنے والے مرنے کے بعد ایسا ظاہر کرتے ہیں کہ امیر الدین کے پاس تو موصوف سے بڑا صلاح کار اور ایڈوائزر موجود ہی نہ تھا۔امیر الدین کے ساتھ کام کرنے والا ہی جانتا ہے کہ امیر الدین کو کس طرح بیان کیا جائے ، اس کے بھاری پن کو کس طرح بھاری پن لپٹایا جائے ۔ ارے بھائی وہ آدمی نہیں نا سٹلجیا تھا۔
ہمارایہ دوست اگر گوراآدمی نہیں تھاتومُشکی بھی بالکل نہیں تھا۔ اُس کے کان اچھے خاصے لمبے تھے جن پہ ہمیشہ نظر کی عینک ٹنگی ہوتی تھی۔ وہ ، تقریباً ہمیشہ پینٹ شرٹ میں ہوتا ،جوان جوان اور سمارٹ سمارٹ ۔ سکول اوقات میں تو وہ ہمیشہ سکالرز والا چوغہ پہنے رہتا۔ہاں، شام اور چھٹی کے روز شلوار قمیص چل جاتی تھی۔گولڈلیف سگریٹ پینے والے امیرالدین کا نشانہ بہت اچھا تھا۔ میں اِس وقت اُس کے نظر کے نشانے ہی کی بات کر رہا ہوں مگر ایک اور زاویے سے ۔ وہ سکول کی نیلی سوزوکی پک اب چلاتے ہوئے کھڈے کھمبے دیکھتا تو اس کی نشانہ بازی کی صلاحیت بے قابو ہوجاتی تھی۔اور گاڑی کے سائیڈ شیشے کا فریکچر،یا فرنٹ سیٹ پہ بیٹھے فرد کے سرپہ سُوجن والا ابھار،اور یا، سائیڈ سیٹ پہ براجمان شخص کے شیعہ ہونے کی صورت میںیا علی مدد کی چیخ اُس کے پکے نشانہ بازہونے کی علامتیں ہوتیں۔ صرف غیر حاضر دماغی نہ تھی وہ توموٹی عینکوں کو بھی دوش دیتا تھا۔ اور اس کا یہ دوش دینا خانہ بدوش کی زبان والی اُس وقت کی ’’چاشنی‘‘ سے لبریز ہوا کرتی تھی جب وہ کسی شریر بکری کی شیطانیوں سے تنگ آکر اُس بکری کی پوری سات نسلوں کی مونثوں کے لیے استعمال کرتاہے۔
امیر الدین خود کو سنسرنہیں کرسکتا تھا۔ باتیں کرنے والا آدمی تھا،باتونی آدمی ، باتیں بنانے والا آدمی۔باتوں میں عمومی طبقاتی بے بسی جمہوریت کی بار بار کی اغواشدگی اور بھوک وغربت تو ہوتی ہی تھیں، مگر ضیاء الحق دور میں آبِ حیات کی نارسائی کے مرثیے خوب ہوتے تھے۔مجھے خدشہ ہے کہ ہم دوچار زندہ دوستوں کے بعد امیر الدین کا تخلیق کردہ ڈکشن گم ہوجائے گا۔ہم اس سلسلے میں کچھ کر بھی نہیں سکتے اس لیے کہ ہم چار ہی دوست آپس میں وہ ڈکشن استعمال کرپاتے ہیں۔جو ملا کے ہاں بھی گناہ اور سرداری اخلاقیات کے پیمانے پہ بھی غیر مستحسن ہے ۔ کاش یونیسکو اُس زبان کو endangared قرار دے کر اس کے تحفظ کی ذمہ داری خود لے لے۔
مجھے موقع ہی نہ ملا کہ حیدر آباددکن کے دوسرے لوگوں کا مشاہدہ کرتا کہ یہ وہاں کی مٹی کی تاثیر تو نہیں ہے؟۔
امیر الدین کے الفاظ کی ادائیگی بھی اچھی تھی ،اس لیے اُس کی بکواس بھی بری نہیں لگتی تھی حالانکہ ہم یہ لفظ ’’ بکواس‘‘اُس کے تقریباً ہر فقرے کے بعد بولتے بھی رہتے تھے۔
یاروں کی محفل میں موضوعات کی مہار ڈھیلی ہی رہنی چاہیے ۔ اگر یاروں کی محفل میں بھی موضوعات پٹ فیڈر کے مقروض وڈیرے کے مائع لگے لباس کی طرح اکڑے ہوں تو پھر بے تکلفی،روانی، Pluralismاور رنگینی چاشنی سب کر فیوزدہ ہوجائیں۔ ہماری محفلیں ایسی نہ تھیں۔ جعفر اچکزئی، خدائیداد،سرور آغا، ماما عبداللہ جان، امیر الدین، ، پروفیسر برکت ، اورسیف الدین بوہرہ کی محفل سب کچھ ہوسکتی ہے، مگر خشک ویکساں کبھی نہیں۔
خواتین وحضرات۔ مارشل لاکس کو اچھا لگتا ہے ؟ ۔مگر امیر الدین تو اس پورے خطے میں مارشل لا کا حساس ترین مخالف تھا ۔ہر وقت اُس کے خلاف بولتا رہتا تھا۔ اور چونکہ ہم سب کی طرح اُس کی عمر کا بھی بڑا حصہ مارشل لاؤں میں گزرا تھا، اس لیے وہ مارشل لا ایڈمنسٹر یٹروں کی اصلیت سے خوب واقف تھا۔ وہ اُن کی نقلیں اتارتا،اُن کے بارے میں لطیفے بناتااور اُن کی جائیدادوں کی بہتات اور اخلاقیات کے فقدان کے قصے سناتا تھا۔آہ ،ہماری بدقسمتی کہ مارشل لا سلامت ہے اور امیر الدین فنا کی دھند میں غائب ۔ یار دنیا میںیہ سب کچھ الٹا کیوں ہے ؟۔ ہم نے جتنا زیادہ سنہرا سویرا دوہرایا اُس کی کالک کی گہرائی اتنی سِوا ہوتی گئی۔پتہ نہیں اور کتنی نسلیں lost-generationsکہلائیں گی۔ لیکن بس ٹھیک ہے ۔ استادنے سچ کہا تھا کہ There are decades where nothing happens and there are weeks where decades happen ۔
مگر،امیرالدین وہ والی جمہوریت چاہتا تھا جو اُس کی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان چاہتی تھی۔ جو لاہور وکراچی کے این جی اوز والے چاہتے ہیں، جو سول سوسائٹی کے جاذبِ نظر پیکٹ میں لپٹے ہوئے مڈل کلاسیے چاہتے ہیں۔ یعنی بے برگ وثمر جمہوریت۔ننگ دھڑنگ جمہوریت ۔ ووٹ والی جمہوریت ، بورژوا جمہوریت ، فیوڈلوں کی جمہوریت ،جنگ اخبار والی جمہوریت ۔
لیکن ،وہ اُس جمہوریت پہ تھابڑاپکا ۔امیر الدین اِس جمہوریت کے لیے مصلحت مصالحت ساتھ والے کوپکڑادیتا اور خود کُود جاتا تھا آمریت کے کان کاٹنے ۔ہم نے جابر سلطان کے سامنے ’’ایک ‘‘ امیرالدین ہی کو کلمہِ حق بولتے سنا تھا۔ ایسے وقت ،جب سچ لکھنے چھاپنے کے نام نہاد ٹھیکیدار لکھاری افسروں کی انتظار گاہ میں یا نواب کی جوتی رکھنے والے کی جگہ پر بیٹھ کر ایسے اچھے لوگوں پر تبرابھیج رہے تھے، اور نواب کو لطیفے سنانے کے کام پر مامور تھے۔
امیر باتوں میں بے سنسر ضرور تھا مگر منہ پھٹ آدمی ہر گز نہ تھا۔بے سنسری تو یار داروں کی نشانی ہوتی ہے ، اور منہ پھٹی غیر ذمہ داروں کی ۔ امیر الدین ’’بات ‘‘پر یقین رکھتا تھا ۔ بات کرنے ، سننے ، پہنچانے پھیلانے پر یقین رکھتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اُس کے تعلقات بھی’’ مہابکُو‘‘لوگوں سے زیادہ ہوا کرتے تھے۔ وکیلوں سے ، لیڈروں سے، اور صحافیوں سے۔ آپ نے کوئی خبر افق کے اُس پار تک چلانی ہوتو بڑے راز دار انہ انداز میں اُس کے کان میں وِس پر کردیں ،شرطیہ شام تک موٹی تازی کردہ اس کی بازگشت آجاتی ۔ ہاں مگر شرط یہ تھی کہ امیر الدین ایسا کرنے کو قائل ہوجاتا ۔ ایک دفعہ قائل ہوجاتا تو پھرکچھ بھی کرگزرنے کو تیار تھا ۔
امیرالدین امریکہ سے نفسیات میں پی ایچ ڈی کرآیا تھا۔ مگر ایمانداری کی بات ہے میں نے کبھی نفسیات کے علم سے اُسے کوئی زیادہ استفادہ کرتے نہیں دیکھا ۔ البتہ امریکی انگلش کے سلینگز خوب سیکھ آیا تھا ۔ اُن میں اُس کی مہارت قابلِ رشک ہوا کرتی تھی۔ اور وہ انہیں بروقت وبرمحل استعمال بھی فراو انی سے کرتا تھا۔مگر فضل الرحمن قاضی نے بتایا کہ جب اس کی بیگم کا نروس بریک ڈاؤن ہوا تھا تو امیرالدین دوماہ تک روزانہ ایک گھنٹہ تک اس کی سائیکو تھر یپی کر نے اُس کے گھر آتا رہا ، بغیر فیس لیے ، بغیر شکریہ وصول کیے ۔وفا کا پیکر تھا امیرالدین۔
اُسے اردو شاعری حسبِ ضرورت اورہر وقت وبروقت یاد تھی بالخصوص فراز ؔ کی شاعری۔ اُس کی اپنی طبیعت بھی فراز انہ تھی۔اور اِس فرازانہ معاملے میں وہ بہت کامیاب شکر خورہ تھا۔
مگر یہ شکر جیسا میٹھا آدمی ،پیار تلخی سے کرتا تھا۔وہ ظالم وجابر کے سامنے تلخ ترین بات کہہ کر تلخ خمیاز ہ بھگتنے کا رسیا تھا۔ اور تلخاب؟ وہ تو لگتا تھا ایجاد ہی اُس کے لیے ہوا تھا۔ وہ اِس ہررنگ وبے رنگ مائع کے بارے میں باتیں بھی کثرت سے کرتا تھا۔ امیرالدین، مقدار کی پرواہ بالکل نہیں کرتا تھا ۔مگر وہ فریکوئنسی کے معاملے میں بہت محتاط تھا۔ کوئی مافوق الفطرت قوت تھی ضرور جو اسے حافظ وعمر خیام تو بنائے رکھتی تھی مگر ساغر صدیقی بننے نہیں دیتی تھی۔چنانچہ اُس نے تلخاب کو زہر آب کبھی نہ ہونے دیا، نہ اپنے لیے ،نہ خاندان کے لیے ،اورنہ دوستوں کے لیے۔
دو بیٹیوں اور ایک بیٹے کے گھرانے پر مشتمل یہ میاں بیوی عجب تعلقات میں رہتے تھے۔ امیر الدین ایک بہت بڑے سکول کالج کی پرنسپلی کرتا تھا تو بیگم نے بھی اپنا سکول قائم کر رکھا تھا۔ شامیں دونوں کی کبھی الگ اور کبھی ایک جیسی سرگرمیوں کے لیے ہوتی تھیں۔ امیر الدین ہیومن رائٹس ، پریس کلب، ادیبوں شاعروں کی محفلوں، اور کسی بھی نام کے انقلابی گروہ یا پارٹی میٹنگوں میں ٹائم دیتا تھا۔ جبکہ اس کی بیگم ثریا (بھابھی) خواتین کی وسیع النظر یہ انجمنوں میں شریک ہوتی تھی۔ دوستوں کے غم خوشی میں دونوں اکٹھے آتے جاتے تھے ۔
دونوں کی لومیرج تھی ۔ بیگم اُس کی طرح شین قاف والی اردو سپیکنگ نہیں بلکہ پنجابن تھی مگراس کے باوجود وہ اُسے ’’آپ، اِن ، اُن ‘‘ ہی بولتی تھی۔ اکثر اُن دونوں کے بیچ ایسی نوک جھونک ہوتی کہ لطف آجاتا ۔ایسے موقعوں پر ثریا بھابی پر،ظرافت کے عرشی نسخوں کی سمجھو بارش ہوتی تھی، اوپر سے ہمارے قہقہے اور حوصلہ افزائیاں اُس کی اِس حِس کو آسمان تک سربلند کرتی جاتی تھیں ۔اُس کا بڑا چوٹ خاوند کے معاشقوں پر ہوتا تھا۔ چوٹ کیا،وہ تو کوسنے، شکوے، تبصرے ، بس سنگسار یاں کرتی تھی ۔ امیرالدین دومنٹ میں ناک آؤٹ ہوتا ، اور واقعتا ایسی بلی بن جاتا جس کو گرم شوربے میں بھگو دیا گیا ہو۔باتونی امیرالدین اُس کے سامنے لا جواب ہوتا توہم میں سے کسی کو حلالی غیر حلالی کہہ کر موضوع بدلنے کی ناکام کوششیں کرتا ۔مگر ایسے بھونڈ ے انداز میں جس طرح کہ درد کے صحرا بلوچستان میں’’باپ ‘‘جیسی سیاسی پارٹیاں بنانے والے، پریس کانفرنسوں میں کرتے رہتے ہیں۔
بھابھی ثریا اب اسلام آباد وغیرہ میں آنکھ اوجھل ہوچکی ہیں۔اپنی دوستی توبیٹی منزہ سے تھوڑی تھوری برقرار ہے ۔ وجہ یہ ہے کہ وہ ڈان اخبار میں لکھتی ہے اور کوئٹہ چکر لگاتے وقت مل لیتی ہے یا بلوچستان کے بارے میں کچھ لکھتے وقت پوچھ گچھ کرتی ہے۔
چھوٹی بیٹی عائشہ اُس کی لاڈلی تھی۔ اور چونکہ یہاں کوئٹہ زیادہ رہتی تھی اس لیے باپ کے احباب کو زیادہ جانتی تھی۔اور اُن سے میل ملاپ رکھتی تھی۔ عائشہ نے اپنی دو بچیوں کے عجب سے نام رکھے ہوئے ہیں:ایک شہرزادے ہے اور دوسری انُوشے؟۔ ترجمہ دس بار اس نے بتادیا اور ہم گیارہ بار بھول بیٹھے۔ ۔ عائشہ کا موڈ ہوتا ہے توفون پر’’بھابھی کا کیا حال ہے؟ ‘‘پوچھ ڈالتی ہے ورنہ میلوں جیسے طویل مہینوں تک غائب رہتی ہے۔
سید امیر الدین نے اپنے اکلوتے بیٹے کا نام داراشکوہ اورنگ زیب عالمگیر کے بیٹے کے نام پر رکھا۔وہ لیکچرر اقبال نودھا نڑیں والادارا شکوہ نہیں، جب اردو پرچے کی انویجی لیٹری میں کسی طالب علم نے اُس سے مدد چاہنے کے لیے پوچھا کہ : ’’شُکُوہ ‘‘اور’’جواب شُکُوہ‘‘کس نے لکھے تو اُس نے جل بُھن کر کہا تھا: دارا شکُوہ نے ۔چنانچہ یہ اقبال والا ’’شکُوہ یاجواب شکُوہ ‘‘نہیں بلکہ یہ مغل شہزادہ داراشکُوہ ہے ۔ جس کے لفظی معنی امیر الدین کو بھی نہیں آتے تھے۔ وہی داراشکوہ جس نے کہا تھا:۔
بہشت آنجا کہ ملائے نہ باشد
زِ ملّا بحث وغوغائے نہ باشد
جہاں خالی شود از شورِ ملا
زفتوا ہاش پروائے نہ باشد
دراں شہرے کہ ملاخانہ دارد
درآنجا ہیچ دانائے نہ باشد
داراکچھ عرصہ یہاں آئی ٹی یونیورسٹی میں اپنی ڈاکٹر بیوی کے ساتھ رہا۔ اب کہیں اعلی تعلیم کے بہانے بیرون ملک ہے ۔ پتہ نہیں روٹی روزی کی تلاش میں اس نے ایسا ، یا اس لیے کہ بلوچستان کی مقناطیس میں پرے دھکیلنے والا پول حاوی ہوچکاتھا۔
داراشکوہ کے بچوں کے نام سنو : دانیا، فرجاد اور آئزہ۔
سید صاحب کے دوستوں کا تذکرہ کروں؟ ۔مگر کتنوں کا؟ ۔ وہ بسیار نوش کی طرح ایک بسیار دوست آدمی تھا۔ ہاں،دوستی نبھانے والا شخص بھی۔اس لیے صرف کراچی سے اُس کے دوچار دوستوں کا تذکرہ ہوسکے گا۔
وہ محمد بن احمد کے ساتھ نسبتاً رکھ رکھاؤ والی دوستی میں تھا۔ احمد صاحب بہت معمر اور بہت عمدہ انسان ہے ۔وہ اُس وقت حبیب سکول وکالج کا پرنسپل تھا ۔ اب توبہت عرصہ ہوا ریٹائر ہوگیا۔وہ رات گئے ’’بگاڑنے والے مشروب ‘‘کے ہاتھوں اپنے بگڑے ہوئے شکستہ مہار دوستوں کو بحفاظت اُن کے گھروں میں داخل کر کے گھر لوٹتا تھا۔احمد صاحب ابھی بھی سمیناروں اجتماعوں میں شامل ہوتا ہے ۔ مگر حتمی بات ہے کہ اب وہ آسمان پہ پہنچنے کی کیفیت میں مبتلا اپنے جوان دوستوں کو اُن کے ’’اپنے ‘‘ گھروں تک پہنچانے کی صلاحیت سے عاری ہوگیا ہے، اور اب خود اس بوڑھے کو اُس کے جوان بیٹے پوتے بخیر واپس اپنے گھر پہنچاتے ہیں ۔ (بڑھاپے کی لوریاں نہ دو بیٹوں کو ۔ بیورغ رند)۔
اُن بگڑے بچوں میں راحت سعید ، ڈاکٹر شمیم اور سید شمس الدین شامل تھے ۔ یہ چار کا ٹولہ اکھٹے انقلابی ادبی وار داتیں کیا کرتا تھا۔ یہ لوگ یہاں کوئٹہ بھی اکٹھے آیا جایا کرتے تھے اوروہاں کراچی میں بھی بڑے بڑے ادبی جلسے منعقد کرایا کرتے تھے۔ یہاں امیر الدین نے اُن کےs Counter Partکے بطور ،خان گل ، برکت علی اورخدائیداد جیسے لوگ اکھٹے کر رکھے تھے ۔…یہ workaholicلوگ تھے، متین ومشنری لوگ۔مگر بہ یک وقت کھلے ڈلے اور lively لوگ۔ افسوس کہ کراچی کی اِس چوکڑی کے ساتھ امیر الدین کی یہ بہت اچھی دوستی اُس کی زندگی کے آخری دنوں میں پتلی ہونی شروع ہوتی تھی۔ وجوہات کوماروبم۔
خود ہم کوئٹہ والے ،بقیہ تین سے تو اچھی یاری میں رہے ہیں لیکن گذشتہ 14برس سے راحت سعید سے الجھے بیٹھے ہیں۔ وہ یہاں سنگت اکیڈمی کا خاتمہ چاہتا ہے اور اُس کی جگہ اپنی کمپنی کا برانچ کھولنا چاہتا ہے ۔
کراچی کا یہ راحت سعید ایک بہت ہی فعال آر گنائزر ہے ۔ مگر اسی آرگنائزری میں اُس سے غلطیاں بھی بڑی فاش قسم کی سرزد ہوئیں ۔اور یوں وہ پاکستان بھر کے ادیب اور شاعر دوستوں سے کٹتا چلا گیا۔ اور اُس پہ یہ فاش غلطی کہ اُس نے پراگریسورائٹرز ایسوسی ایشن کے متوازی ایک تنظیم کھڑی کردی۔ ظاہر ہے ستھرا مال اُس کے نصیب میں کہیں سے نہ آیا۔ ہر جگہ بقول شمیم آفریدی گیارہ نمبرہی اسے میسر ہوا۔ اور کمیونزم میں گیارہ نمبر مال ہمیشہ ہر شہر میں موجود ، وہاں کے ’’حبیب ‘‘نالے کے اُس پار سے آتا ہے۔
کبھی اِدھر اُدھر سے دبلے پتلے شمس الدین سید کی اپنے جثہ کے مطابق سرگرمیوں کی خبریں ملتی رہتی ہیں۔وہ ابھی بھی ،سکوت وجمود کی لکیر کے دوسرے طرف کھڑا ہے۔ ڈاکٹر شمیم گُم ۔
پتہ نہیں امیرالدین کے توسط سے یا پھرکسی اور حوالے سے کراچی کے مسلم شمیم اور مظہر جمیل سے بھی دوستیاں رہیں۔ مگر ہم پسماندہ معاشروں کے بدکے لوگ کبھی کبھی بغیر معقول وجہ کے ،اور محض حواس خمسہ میں سے کسی ایک میں فنی خرابی پیدا ہوجانے کی وجہ سے ،اپنا راستہ جدا کرلیتے ہیں۔چنانچہ بہت سی باتیں اور بہت سی ’’نہ باتیں‘‘ہمکاری میں رکاوٹ بنی رہیں۔
امیر الدین سوئی، لورالائی اور پھر کوئٹہ میں تعلیم پھیلاتا رہا۔ اُسے بلوچستان سے باہر بہت سے اچھے مواقع ملے، پیش کشیں آئیں مگر وہ کہیں نہ گیا، بلوچستان ہی میں رہا۔ اُس کی میت بھی محض اِس لیے کراچی گئی کہ اب اُس کی اپنی بولتی بند ہوچکی تھی، اوراُس کے پسماندگان کی بات چلتی تھی۔ اور میت کراچی بھی اس کروفر کے ساتھ گئی کہ خود بلوچستان ایمبولنس میں اس کی میت کے ساتھ موجود تھا، ہمارا تمہارا سرورآغا۔
امیر الدین پراگریسو اور روشن خیال سوچ کے علاوہ کچھ بھی نہ تھا۔ اُس کو اُس کی عوامی اور جمہوری آدرش سے جدا کیا ہی نہیں جاسکتا تھا کہ وہی اس کی زندگی کا ڈرائیونگ موڈ (Mode) تھا۔ وہ پراگرسیو رائٹرز ایسوسی ایشن اور اُس کے تسلسل یعنی سنگت اکیڈمی آف سائنسز کے بانی راہنماؤں میں سے تھا۔ اس نے اس صوبے میں ہیومن رائٹس کمیشن کی سربراہی کی۔ وہ ملک بھر سے اچھے ادیبوں شاعروں اوربشر دوستوں کا کوئٹہ میں میزبان تھا۔ وہ یومِ مئی کے جلوسوں میں چلتا تھا، وہ درد کے دشت بلوچستان کی میتوں ماتموں میں موجود تھا۔ وہ بلوچستان ٹیچرز فورم کا بانی تھا۔ وہ مظلوموں محکوموں کی سیاسی پارٹی کا بلوچستان میں سربراہ تھا۔ وہ وفا کی برات کا رقصاں ڈھولچی تھا۔
امیر الدین ایک کمال آرگنائزر تھا۔سٹڈی سرکلوں کا احیا ہویا سمینار، کہیں دورہ کرنا ہو یا کسی سے ملنا ہو، وہی ہمیں لیڈکرتا نظرآتا۔وہ فون ، قاصد ، گاڑی ، اور اپنے احباب کو برمحل استعمال کرنے کا ماہر تھا۔ ٹھیک جگہ پر ٹھیک کی ڈیوٹی لگانے والاآرگنائزر ۔ اور آدھی ڈیوٹیاں تووہ خود سرانجام دیتا ۔ وہ اپنے مرکزے میں دوستوں کو جمع کرنے اور اس اجتماع کو برقرار رکھنے کا سپیشلسٹ تھا ۔ جس کسی نے ہر مشکل مورچے پر ہمہ وقت موجود اُس کی ایسی رفاقت چکھی ہوتو وہ کیسے تصور کر سکتا ہے کہ وہ اب نہیں ہے۔ کبھی چھلا وہ بھی مرا؟ ۔ کراچی ، تیرے یاسین آبادقبرستان کی ایسی کی تیسی ۔ ہم نے تو دل میں یار کی زیارت گاہ سجا رکھی ہے ۔