گفتگو کے دوران جب یوسفی اچانک خاموش ہو جائیں تو سمجھ جائیے کہ ایک چٹپٹے جملے کی آمد آمد ہے ۔ اوراس بات کی ضمانت میں دیتا ہوں کہ آنے والا فقرہ دل آزار قطعاً نہ ہو گا ۔ہاں، البتہ مشرقی ، جنوبی ، اور شمال مغربی اخلاقیات کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا ۔ یوسفی کی محفل صرف عقلی بالغان کے لئے ہوتی ہے ،فیوڈل اخلاق و عقائد تافتہ ، ثقافت بافتہ اور شہرت یافتہ کم سنوں کے لئے نہیں ۔ایک اور بات بتانی بھی سخت ضروری ہے ، وہ یہ کہ ایسے بڑے انسان کے پاس جانا ہو تو اپنا رعب،دبدبہ،دولت اور علمیت جیسی غیر ضروری چیزیں گھر رکھ کر جایئے کہ مسجد میں جوتوں سمیت نہیں جایا کرتے ۔اس لئے کہ ، اگر پورے براعظم میں یوسفی جیسا ایک بھی فی البدیہہ شگفتہ گومل جائے تو کالا پانی میرا ۔ اس معاملے میں ’’امتیاز‘‘ کا حلال بھی وہی ہیں اور ستارہ بھی وہی ۔
ہندوؤں کی مذہبی لغت میں ’’جئے ‘‘ کا لفظ بڑی تکرار سے استعمال ہوتا ہے ۔ ہمیں ابھی تک ’’ جی ‘‘ کا مطلب نہ آیا جو بلوچی شاعری میں محبوبہ کے تذکرے میں اکثراستعمال ہوتا ہے ۔۔۔ دعائیہ ، طربیہ، توصیفیہ معنوں میں ۔۔۔۔۔۔ تو بھلا ہم ’’ جئے ‘‘ کا کیا ترجمہ کر سکیں گے ، جسے ہم اپنی چُھوٹ چُکی محبوبہ تک کے لئے استعمال نہ کر سکے ۔ لیکن اتنا اندازہ ضرور ہوتا ہے کہ ’’ جئے ‘‘ کوئی اچھی بات ہو گی ۔ اور اگر کہیں بے شمار ’’ جئے ‘‘ یک جا ہو جائیں تو وہ جگہ ’’ جے پور‘‘ بن جائے گی ۔ اپنے یوسفی صاحب کاوالد عبدالکریم خان اسی جے پور کی میونسپلٹی کاچیرمین تھا اور بعد میں تووہ ’’جئے‘‘ بھرے لوگوں کی منتخب اسمبلی کا بھی سپیکر بنا ۔
مشتاق یوسفی چونکہ مطالعہ بہت کرتا ہے اس لئے اس کی دلپذیر گفتگو کبھی کھوکھلے قہقہے نہیں لگواتی ۔ آپ کسی فقرے پرایک دفعہ ہنسیں گے تو دس دفعہ اس فقرے کو محفلوں میں دہراتے رہیں گے کہ اسی ایک ہی فقرے میں مزاح بھی موجود ہو گا ، تاریخ کی چاشنی بھی ہوگی اور مٹھاس بھی ۔
میرے بزرگ دوست سائیں کمال خان شیرانی نے ایک بار مجھے جارج برناڈ شا ہ کو پڑھنے کی ترغیب دی۔ میں نے اس کا ’’ مین اینڈ سُپر مین‘‘ اور ’’Pygmalion‘‘ ایسے حال میں پڑھے کہ میں دور دراز ،فیملی اور دستوں سے پرے ژوب میں مارشل لائی سزا کی نوکری کررہا تھا۔ پرانے انگریز کے بنائے نیم کچے پکے میڈیکل افیسر’’ بنگلے‘‘ میں اتاہ خاموش دوپہر کو میں اکیلا بیٹھا زور زور سے قہقہے مارتا اور جلد ہی جھینپ کر خاموش ہوجاتا کہ لوگ پاگل سمجھیں گے ۔ ایسا تھا۔ برنارڈ شاہ۔
میںآپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یوسفی کے کچھ پڑھے اور کچھ اُس سے سنے فقرے ایسے ہیں جو تنہائی میں بھی پھیپھڑوں کو زور سے قہقہے لگانے پر مجبور کردیتے ہیں۔
مجھے ایسے دانشور بالکل اچھے نہیں لگتے جو مشہور لوگوں کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کی باتیں دہراتے رہتے ہیں( ممکن ہے سبب یہ ہو کہ میری اپنی ملاقاتیں مشہور لوگوں سے کم کم رہیں )۔ مگر یوسفی کے ملاقاتیوں سے مل کر اچھا لگتا ہے کہ ان کی یادداشت کی پگڑیوں کے پلو میں کوئی کام کی بات ضرور بندھی ملتی ہے ۔ کم فہم ملاقاتیوں کی بات البتہ الگ ہے ۔وہاں سے تو بہت ہی سنسر شدہ مواد ملے گا ، ملاوٹ سے بھرا ، حذف شدہ،تخریب شدہ اور مہذب شدہ۔ لگتا ہے وہ یوسفی سے نہیں پوپ بینے ڈکس سے مل کر آئے ہوں ۔
مشتاق یوسفی کو آپ اُس کی ’’ کمپنی ‘‘ سے ہر گز نہیں پہچان سکتے ۔اس لئے کہ سُدھرے بگڑے جیسے بھی لوگ ہوں عادتیں پختہ ہو چکنے کے بعد ہی اُس کی طرف کھچتے ہیں ۔ میں نے فرعون کو بھی اس کا تذکرہ کرتے سناہے ،اور فرشتہ بنے ہوئے جبہ پوش کو بھی وہاں پایا ہے؛کوئی اپنی فرعونیت کا بوجھ ہلکا کرنے وہاں ہوتا ہے تو کوئی اُس کے قابلِ وضو دامن کو نچوڑنے ۔ مگرہوتے سب معمر اور درمیانے عمر کے لوگ ہیں ۔ پتہ نہیں یوسفی کی دنیا نوجوانوں کے لئے کیونکر کشش نہیں رکھتی۔ حالانکہ اچھے بوڑھوں کی طرح یوسفی بھی نوجوانوں کی محفل کو بہت پسند کرتاہے ۔یوسفی کو ’’ تنہائی ‘‘ کی مار نہیں پڑنی چاہیے کہ ایسے میں یہ سر سبز بیل کملا جائے گی ۔ کوئی کملا ، کوئی وملا ، کوئی جمیلہ ، کوئی شکیلہ ۔۔۔ ۔۔۔ مگر شرط یہ ہے کہ وہ بہت پھکڑ نہ ہو، جذبات سے خالی بھی نہ ہو اور جذبات سے چھلکتی بھی نہ ہو ۔
یوسفی صاحب کی سن پیدائش کیا یاد رکھنا ۔بس سمجھئے اِس سال (2011ء) کو وہ 88 برس کا ہو جائے گا ۔ یہ کلیہ مجھے اپنے ناکام عاشق دوست ڈاکٹر ۔۔۔ نے بتایا ۔ وہ بے چارہ ہر ماہ اپنی بے محابہ محبوبہ کی تاریخ پیدائش پر سال ، ماہ اور دنوں میں اس کیlatest عمر کا ایس ایم ایس بھیجتا رہتا ہے ۔ بس جواب میں ’’ تم دنیا بھر میں Unique محبوب ہو ‘‘ کا میسج آتا ہے اور ہمارا یار اسی میں خوش ۔ سو Unique بنیے اور ہرچار اگست کو یوسفی صاحب کو عین یہی میسیج بھیجیےے۔ ( اس کا موبائل نمبر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔خود تلاش کیجئے ،میں بتاؤں گا تو وہ خفا ہوگا)۔
یوسفی نے بھی ہمارے بزنجو اور امین کھوسو کی یونیورسٹی سے فلسفہ میں ایم اے اور ایل ایل بی کر لیے ،جی ہاں علی گڑھ یونیورسٹی سے ۔ شکر ہے کہ تقسیم ہند پہ وہ پاکستان چلا آیا ۔ پتہ نہیں وہاں سے مشتاق یوسفی صرف ایک آدھ ہی کیوں آیا اور لیاقت علی لاکھوں کی تعداد میں کیوں !! ۔
محترمہ ادریس فاطمہ سے میں دو دفعہ ہی مل پایا جو ہم سے ملنے وہیل چیئر پر اپنے کمرے سے اپنے میاں کی بیٹھک تک آتیں۔ خدا اُس کی روح کو سکون عطا کرے جو ہمیں اصرار کے ساتھ ’’اور کھایئے ، کچھ اور لیجئے ‘‘ کہتی رہتی تھی۔ خدا مارے کراچی کے رواج کو، یا پھر جدیدیت اور ما بعد جدیدیت(والے سماج )کو۔ یوسفی کی اولاد کی اکثریت امریکہ شمریکہ میں رچ بس گئی ہے ۔۔۔ اور وہاں امریکہ میں کوئی یوسفی جیسا شخص کیا مہمان بنے گا ، کہ وہاں تو آدمی بادشاہوں کے زمانے کے مقہور کے گھر کا سفید ہاتھی ثابت ہو جاتا ہے ۔ خواہ وہ اس کی اپنی اولاد کا گھر ہی کیوں نہ ہو ۔
پشتون کہتے ہیں ’’ محبت کرنا بہت مشکل ہے، چلو ملاّ بن جاتے ہیں ‘‘لہٰذا یوسفی والوں کو یوسف زئی ہونا مشکل لگا۔ زئی کو پرے کر لیا ، بس آخری ’’ ی ‘‘ کو لفظ یوسف کی دم سے اڑس لیا اور یوسفی بن گئے۔
میری پیدائش سے چار برس قبل یعنی 1950 ء کو وہ ’’مسلم ‘‘کمرشل بنک میں بھرتی ہو گیا۔(’’ہندو‘‘ کمرشل بنک کے قیام کی جرأت بھی کوئی نہیں کر سکتا، نہ یہاں اور نہ وہاں! یہاں اُسے جینے کی پابندی سے آزاد کیا جائے گا اور وہاں سماج اتنا بھی گیا گزرا نہیں کہ مذہب کے نام پر بنک چلائے جائیں)۔ یوسفی صاحب بنک کی ملازمت میں اوپر کی جانب، پیچیدہ اور اعلیٰ سیڑھیاں چڑھتا رہا، اُس کے زیر پا بنکوں کے نام بدلتے گئے ۔ مسلم کمرشل سے الائیڈ اور وہاں سے 1974ء میں یونائیٹڈ بنک کا صدر بن گیا۔1972ء میں وہ پاکستان بیکنگ کونسل کا چیئرمین بن گیا ۔
’’چراغ تلے ‘‘ بہت سُست نویس یوسفی کی پہلی کتاب ہے ۔ یہ 1961ء میں چھپی۔ آدم خان ، (آدم جی) ایوارڈ ملا تھا اس کتاب کو ۔
’’ خاکم بدہن‘‘1969ء میں چھپی۔ اردو والوں نے اس لفظ کا اردو ترجمہ کر لیا ہے ۔ مگر بلوچی میں اس کا نعم البدل موجود تک نہیں (تہذیبوں کا ۔۔۔؟) اس کتاب کو اس نے اپنی بیگم کے نام سے منسوب کیا ۔ یوسفی صاحب کے اپنے پیش لفظ کے علاوہ اس میں آٹھ مضامین شامل ہیں ۔ اتنی مقبول کتاب کہ خود مصنف کو بھی معلوم نہ ہو گا کہ اس کے کتنے ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔۔۔۔۔۔ ۔ پندرہ ؟، بیس یا زیادہ ۔اس کتاب نے بھی آدم جی ایوارڈ پایا ۔
’’زر گزشت ‘‘ اُس کی تیسری کتاب ہے ۔ یہ 1976ء میں چھپی ۔ پیش لفظ کا عنوان ہے ؛ ’’تزکِ یوسفی ‘‘۔ یہ بقول اُس کے اپنے اُس کی ’’سوانح نو عمری‘‘ ہے۔اس کتاب میں گیارہ باب شامل ہیں ۔
’’ آبِ گم‘‘1990 ء میں چھپی ۔ 404 صفحوں کی اس ضخیم کتاب میں پانچ مضامین ہیں اور ایک دانہ پیش لفظ ۔ حجرہ ایوارڈ (حُجرہ نہیں بھئی!! )، اکیڈمی آف لیٹرز ایوارڈ ،یہ ایوارڈ ، وہ ایوارڈ ۔۔۔ ایک بے تکبر یوسفی کو کیا غرض ایوارڈ دو یا نہ دو ۔۔۔۔۔۔۔برپشمِ قلندر( اگر یہ لفظ برا ہے تو گناہ ڈاکٹر امیر الدین مرحوم پر کہ اس نے مجھے یہ لفظ سکھایا تھا)۔
یوسفی صاحب (سردیوں میں بالخصوص) کبھی بھی تھری پیس سوٹ سے کم پہننے پر راضی نہیں ہوتا۔ لا غربدن ، فطری اور غیر فطری دونوں وجوہات کی بنا پہ کھلی کشادہ پیشانی، انتہائی زیرک مگر ہمیشہ تکلیف میں مبتلا آنکھیں ، ایسا دھوکے باز سنجیدہ چہرہ کہ لگتا ہی نہیں کہ یہ اس خطے میں سب سے زیادہ ہنسنے ہنسانے والا چہرہ ہے، ( اس کااپنا ہنسنا بہت نپا تلا ہوتا ہے، میں نے اس کا قہقہہ نہیں سنا)۔ یوسفی تقاریب میں ضرور جاتا ہے مگر صدارت کرنے، مہمانِ خصوصی بننے، اوپر سٹیج پر بیٹھنے اور تقریر کرنے سے ایسا دور بھاگتا ہے جیسا ہندو گائے کاگوشت کھانے سے۔ویسے وہ گوشت کھانے سے بھی اسی طرح دور بھاگتا ہے حتیٰ کہ ’’مرغی کی صحبت یافتہ سبزی کھانے سے بھی انکاری ہو جاتا ہے۔‘‘
یوسفی صاحب فقرے بدخشاں سے چن کر لاتا ہے ، الفاظ تخلیق کے کار جاہ میں بناتا ہے ، اورتخیل یونان سے لاتا ہے۔ مشتاق یوسفی جائز طور پر بڑاادیب ہے ۔ یہ فقرہ ہی دیکھئے:’’لہجہ لفظ کا ڈی این اے ہے، جس سے نظر کا فتور، نیت کا کھوٹ اور دل کا چور پکڑا جاتا ہے۔ لہجہ وہ بوئے پیراہن ہے جس سے دیدہ نادیدہِ یعقوب اپنے یوسفِ معنی کو پہچان لیتا ہے۔‘‘
مجھے مشتاق یوسفی کی طرح کے اپنے بزرگوں کی ایک بات ہمیشہ بہت خوش فہمی میں مبتلا کردیتی ہے۔ میں جب کوئٹہ سے فون کرتا ہوں توبہت ہی خلوص سے کہتا ہے:
’’ صاحب بڑا عرصہ ہوا آپ کو دیکھے ہوئے، کراچی کا کوئی پروگرام بنا ہی لیجئے۔‘‘
۔۔۔ ۔۔۔ اور جب ’’دلوں ‘‘کی فرمائشیں پوری کر کے کراچی پہنچ جاتا ہوں تو خشکا بے کی بھیڑوں کی طرح پہلا کام دوڑتے ہانپتے میٹھے اور ٹھنڈے پانی کے تالاب یوسفی کی طرف جاتا ٹھہرتا ہے ۔بغلگیر ہوتے ہوئے اس کا ایک پیار بھرا فقرہ ہمیشہ نیکیاں لکھنے والے فرشتے کی طرح دائیں کندھے پہ سوار ہو جاتا ہے:
’’زہے نصیب! آ پ سے مل کر اچھا لگتا ہے !‘‘