اب آئیے ان کے ان کاموں کو سرانجام دینے کے لیے اس کے طے کیے طریقہ کار پر نظر ڈالیں۔
۔1۔ سیاست میں گروہ بندی اور خلفشار سے علیحدہ ہو کر ایک مشترکہ کلچرل پلیٹ فارم تیار کی جائے جہاں سے اس پیغام کو مشتہر کیا جائے۔
۔2۔ درج بالا سندھی بزرگوں کی طرف سے سندھ کے پیغام کو ان کے مراکز سے نئی زبان اور انداز میں پیش کر کے عوام تک پہنچایا جائے ۔
۔3۔ سندھ کے قدیم وجدید ہیرؤں اور قومی خادموں کی کارکردگی اور خدمات کو عوام تک پہنچایا جائے ۔
۔4۔موجودہ حکومت سے درج بالا مقاصد کی حصول کے لیے تعاون کر کے ان کے قریب آنے کی کوشش کی جائے ۔
۔5۔ حکومت کے خلاف موجودہ سیاسی جماعتوں کی جمہوریت ، مذہب اور مختلف نعروں کے پھندے میں پھنسنے سے کنارہ کیا جائے ۔ کیونکہ ان کے رائے کے مطابق نہ ان جمہوریت کے علمبرداروں ، نہ مذہبی ٹھیکیداروں کی روایات اور کار نامے ایسے تھے جن سے سندھ کی مشکلات کا حل حاصل ہوسکنے والا ہو۔
۔6۔ اس کو جنرل محمد ایوب کی صلاحیتوں پر بھروسہ تھا۔ وہ سمجھتا ہے کہ اچھی صلاح ومشورے سے اسے اس کے موجودہ ماحول اور پابندیوں سے آزاد کر کے اس سے بڑے کام کرائے جائے سکتے ہیں۔
۔7۔ وہ شیخ عبدالمجید سندھی کو موجودہ دور کا سندھ ، پاکستان اور بھارت کا بہترین مفکر ، ایماندار اور مدبر سیاستدان سمجھتا ہے ۔ اس کی خواہش ہے کہ کسی بھی طرح شیخ صاحب کو مذکور بالا پالیسی کے مطابق کام کرنے کے لیے آمادہ کرے۔
۔8۔ وہ مرحوم اللہ بخش سومرو کو مسلم لیگ کی متابعت نہ کرنے ، تقسیم ہند کی مخالفت کرنے ، مسلمانوں کے جداگانہ قومی نظریئے میں اعتماد نہ کرنے ، سندھ کو آل انڈیا سیاسی میدان میں ہونے کی پالیسی سے بچانے کی روش اختیار کرنے کے سبب بہترین سیاستدان سمجھ کر اس کو سندھ کے خادم سیاستدان کا نمونہ (ماڈل ) بنانا چاہتا ہے ۔
۔9۔وہ اپنے گاؤں عزیز آباد کو سندھی نوجوان کا رکنوں کی تربیت کے لیے آشرم (خانقاہ) بنانے کا خواہشمند ہے ۔جس طرح مہاتما گاندھی نے سابرمتی اور وار دھا کو آشرم بنایا تھا۔
یہ وہ باتیں ہیں جواُس نے مجھے لکھے گئے مختلف خطوط میں ظاہر کیں۔ ان خطوط کو میرے سوا نہ کسی نے پڑھا ہے اور نہ کوئی شاید ان کو پڑھنے کیلئے تیار ہو۔ اس کے، عام آدمی کیا رائے رکھتے ہیں، مثال کے لیے دوصاحبان کا خیال ملا خطے کے لیے درج کرتا ہوں۔
محترم میاں حیدر بخش جتوئی ایک دفعہ ملاقات کے لیے میرے پاس آیا ہوا تھا۔ اس وقت میاں محمد امین کھوسہ کے خطوط کا بنڈل ڈاک میں آیا ہوا تھا ۔مختصر لب لباب اسے بتانے کی کوشش کی۔ اس نے جواب دیا کہ : ’’میں نے سمجھا تھاکہ گذشتہ ساڑھے سات سال کی نظر بندی کے عرصہ میں کیے گئے مطالعہ اور غور وفکر کے بعد کوئی عقل حاصل کیا ہوگا ۔ مگر دیکھنے میں آتا ہے کہ تجھے کچھ بھی عقل نہیں آئی ہے ۔ ایسی خرافات والے طویل خطوط پڑھنا خلاف عقل اور شیخ چلی جیسی باتوں کی طرف توجہ کرنے سے تجھے آخر کیا فائدہ ہوتا ہے۔خبردار ، جیسے پہلے الجھے خیالات اور غلط جذبات کی بنیاد پہ کچھ ایسے کام کیے جن کی سزا آپ اور ہم بُھگت رہے ہیں ۔ ویسے اگر دوسری دفعہ ایسی کوئی غلطی کی !‘‘
دوسری دفعہ سید میاں خیر شاہ نواب شاہ والا محفل میں بیٹھا ہوا تھا کہ مجھے ایک بڑا بنڈل خطوط کا سینکڑوں صفحات پر مشتمل ملا۔ میں نے کچھ پڑھ کر ان کا اختصار اسے سُنا نے کی کوشش کی ۔ جواب دیا کہ ۔ ’’میاں محمد امین کھوسہ فارغ ہے جو ہر ہفتے سینکڑوں صفحات کے خطوط آپ کو بھیجتا ہے۔ آپ بھی فارغ ہیں جو یہ غور سے پڑھتے ہیں۔ دونوں اپنا قیمتی وقت اِس طرح ضائع کر رہے ہو۔ یہ آپ کا کام ہے ۔لوگ فارغ وقت کو گزارنے کے لیے ناول پڑھتے ہیں۔ اگر آپ بھی اِسی نقطہ نگاہ سے وقت صرف کرو تو فکر نہیں ۔ مگر آپ کو ایک عرض کر دیتا ہوں کہ اگر تم اِس دھوکے میں آؤ کہ واقعی سندھ ، پاکستان ، بھارت ، ایشیاء اور افریقہ کے معاملات سلجھانے کا کام بقول کھوسہ صاحب ، سندھ کے درویشوں اور بزرگوں کی طرف سے آپ کے حوالے ہوگئی ہے۔ اور آپ واقعی اس درجے پر پہنچ گئے ہیں تو یہ بات شیخ چلی کے ہوائی قلعوں کے برابر ہوگی۔
آپ کو تاریخ سے سبق سیکھناچاہیے کہ علامہ شیخ محمد اقبال نے ایسے ہی ہوائی خیالات کی بنیاد پر ہندوستان کے پسماندہ مسلمانوں کو وحدت خیال اور عمل پہ بنی ہوئی قوم قرار دے کر انہیں دُنیا کی رہبری اور امامت کا حقدار بنا کر الگ ملک لینے کی ترغیب دی۔ آپ کو معلوم ہے کہ گزشتہ چالیس سالوں میں عوام میں بیداری اور خواص کو انکے قومی فرض کی ادائیگی سے واقف کرنے کے لیے آپ اور آپ کے دوسرے ساتھیوں نے کتنی مشکلاتیں کاٹیں، اور محنت مزدوری کی ! لیکن حاصل کچھ بھی نہ ہوا ہے۔
’’سندھ کے اَپر کلاس (بالا طبقے ) جس میں پیر سید ، زمیندار ، آفیسر اور تاجر آتے ہیں، انہوں نے خود مطلبی چھوڑی ہے نہ ان میں قوم شناسی کا جذبہ پیدا ہوا ۔ ان میں بزدلی اور بے غیرتی گھر کر گئے ہیں۔ خانہ جنگی کی وجہ سے ہزاروں سال کی میراث یعنی سندھ ہاتھ سے نکلا بیٹھے ہیں۔ ابھی تک ان کوکیے گئے گناہوں اور حرکتوں کا احساس پیدا نہیں ہوا ہے ۔
’’ چری کئیں چی ویران ویرودھ‘‘
ترجمہ:’’ پگلی کہتی ہے کہ پچھلی لہر سے بھی بڑی لہر ہونی چاہیے‘‘۔
’’ہر روز حکمران طبقہ کی خوشنودی کے لیے ایک دوسرے پر چڑھائی کر رہے ہیں ۔ عوام ایسی خوابِ خرگوش میں ہے جو باوجود مذکور ہ بالا حرکتوں کے اسی طبقے کے پیروکار بنے پھرتے ہیں ۔ ایسی حالت میں اس لشکر کے سہارے آپ اور میاں محمد امین کھوسہ سندھ کا وجود بحال کرانے، پاکستان اور ہندوستان کو سمجھوتہ پہ لانے ، ایشائی اتحاد اور امن قائم کرانے اور انسانیت کو تباہی سے بچانے کی خوشفہمی میں مبتلا نہ ہوں! درویشوں کی دعائیں کسی کام نہیں آئیں گی ۔ یہ نہ سمجھنا کہ واقعی آپ میں ایسی قوت پیدا ہوگئی ہے ۔ آپ سندھ کی خاطر ساڑھے سات سال جیل اور نظربندی میں رہے ۔ کسی آدمی نے آواز نکالی نہ اخباروں نے ایک لفظ لکھا۔ بڑے لوگ باوجود دوستی کے دم بھرنے کے آپ کے قریب آنے سے ڈرتے ہیں کہ کہیں وہ بات ان آقاؤں کی ناراضگی کی باعث نہ بنے ۔ سندھی مختلف گروہوں میں مُنقسم ہیں۔ کچھ خود مطلب ، بزدل اور بے غیرت ہیں اور دوسرے مولوی کی انگلی سے باندھے ہوئے ہیں ۔ جن کو مذہب کے نام پہ مفلوج کردیا گیا ہے ۔ تیسرے ان دونوں گروہوں کے رد عمل میں مذہب سے بیزار ہوکر دہریت اور کمیونزم میں ملک کی نجات دیکھتے ہیں۔ یہ تینوں گروہ ایک دوسرے سے اتنے دور اور متضاد ہیں جو ان کے اختلافات کو سائیڈ میں رکھ کر کچھ مشترکہ مقاصد کی خاطر ایک پلیٹ فارم پر ملکر صلاح مصلحت کرنا اور اختلافات کے باوجود باہمی رواداری کا سلوک اختیار کرنا مشکل نظر آتا ہے ۔ ایں خیال ست ومحال ست وجنون ‘‘۔
لیکن ایسی صریح ، واضح ہدایات اور نصحیتوں کے ہوتے ہوئے بھی میں نے سارے سندھ کی بڑے درگاہوں کی زیارت کر کے ان کی مرکزی جاذ بیت کو ملک اور قوم میں احساسِ خود شناسی ، اصلاح نفس اور اخلاقی درستگی کے لیے مرکز کر کے سروے کیا ۔ اور بزم صوفیائے سند ھ کو قائم کرنے کا اِرادہ کیا۔ کافی دوست ابھی تک مجھے کہہ رہے ہیں کہ یہ درگاہیں اپنی موجودہ حالت میں پیر پرستی ، ہوس پرستی اور جہالت کے اڈے بن گئے ہیں ان سے روحانیت ، قوم پرستی خود شناسی اتحاد امن اور ترقی کے کام حاصل کرنا مشکل مسئلہ ہے ۔ لیکن باوجود اس کے اس نئے تجربے کی آزمائش کے لیے کوشش کر رہا ہوں۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ کچھ لوگ بیماری یا کسی تکلیف میں پھنستے ہیں علاج اور معالجے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے تو دعاؤں اور چُھپی ہوئی مافوق الفطرت طاقتوں کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اِ ن میں اگر جسمانی صحت یا فائدہ حاصل کرنہیں سکتے ہیں مگر نفسیاتی تسکین حاصل کرتے ہیں۔ ایسا ہی ہوتا ہے ۔ اور ہوتا آرہا ہے ۔ شاہ صاحب نے ایسی ہی حالات کے لیے کہا ہے کہ:
’’جب ظاہری اسباب سامنے آئی ہوئی مصیبتوں اور مشکلات سے نجات مفقود نظر آتی ہے چاروں طرف اندھیرا نظر آئے تو اس وقت نئے وسیلے ڈھونڈ پڑتے ہیں ۔ تاریخ شاہد ہے جب کسی شخص یا قوموں کی ترقی کی راہ میں پہاڑ آتے ہیں تو تو ان میں کئی عام راستے چھوڑ کر نئی نئی راہیں اختیار کر کے زندگی کی جدوجہد کو کسی نہ کسی نمونے قائم رکھے آتے ہیں۔ شاعر نے کہا ہے کہ:
اگر کھو گیا ایک نشیمن تو کیاغم
مقاماتِ آہ وفغاں اور بھی ہیں
ہم بھی اسی دور سے گزر رہے ہیں ۔ اسلام ، پاکستان مسلم قوم کے نام میں ہماری ہزاروں سال کی قومی روایات ، حاصلات آزادی ، اور ثقافت کی تباہی کے جملہ اسباب اکھٹے ہوگئے ہیں۔ داد رسی کے آئینی طریقے ختم ہوچکے ہیں۔ غیر آئینی رستے بدامنی کے باعث ہیں ۔ اس کے لیے نہ ہم تیار ہیں اور نہ ہی تو فیق ہے۔
اِس وقت ہمارے لیے صرف کلچرل پلیٹ فارم بچا ہے ۔ جہاں سے عوام میں خودشناسی ہمت ، حب الوطنی ، محبت، امن اور انصاف کا پیغام پھیلا سکتے ہیں ۔ ان میں حکمران طبقے کی مفاد سے براہِ راست ٹکراؤ نہیں ہوتا ہے۔ حاکم کوئی بھی ہو ہمیں اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہونی چاہیے۔ ہمیں اصلاح نفس ، ذہنی تربیت اور اخلاق کی درستگی کے لیے کام کرنا چاہیے۔ موجودہ دور میں سرسید احمد خان اعلیٰ مذہبی اور سیاسی مجتھد ہو کر گزرا ہے۔ اس نے جب محسوس کیا کہ انگریز حکومت انتظامی صلاحیت ، علم ، سائنس اور جدید اسلحہ کی وجہ سے مضبوط اور مستحکم ہوچکی تھی۔ اور اس سے سیاسی میدان پر جنگ جیتنے کا کوئی جلد امکان نظر نہیں آیا تو باوجود حریت پسند دیوبندی گروہ کی طرف سے اس پر بزدلی اور غلامی کے طعنے لگنے کے اس نے مسلمانوں کی ساری توجہ انگریزی تعلیم کے حصول اور اپنی کلچر کے بچاؤ کی طرف دلائی۔ پاکستان آج ان کا نتیجہ ہے۔ مہاتما گاندھی نے جب بھی دیکھا کہ حکومتی سختی قومی کارکنوں کی ہمت اور حوصلہ کمزور کرتی ہے تو اس نے یک دم طریقہ کار بدل کر ، سیاست سے کنارہ کشی کر کے سوشل رفارم، اچھوتوں کی اصلاح ،معاشی ترقی اور صحتِ عامہ کی طرف توجہ دیتا۔
تعداد میں ہم کم ہیں۔ علم، اخلاق ، یکجہتی ، خود شناسی اور سرمایہ وغیرہ میں پسماندہ ہیں۔ جمہوریت کا قیام کس طرح جلدی ہمارے جُملہ مسائل کا حل ہوسکتا ہے ! جب تک ہم نے قوم کی ثقافتی شعبے کو مضبوط بنانے کی کوشش نہیں کی تب تک ہم پرانے آزمائی ہوئی سیاسی راہوں سے قومی منزل مقصود پر پہنچ نہیں سکیں گے۔
ہماری سیاست اِس وقت تک قومی خدمت عوام کی بھلائی ملک کی ترقی کے لیے نہیں کی جارہی ہے ۔ بلکہ شخصی اور طبقاتی مفاد کیلئے کی جارہی ہے۔ اس نے ہم میں نفاق بزدلی اور خود مطلبی کے عیب پیدا کیے ہیں اوربڑھایا ہے ۔
یہ اور دوسری باتیں ہیں جنہوں نے مجھے اس مجذوب سندھی کی باتوں پر غور فکر کیلئے ترغیب دی ہے ۔ میں یاکوئی دوسرا اکیلے کچھ نہیں کرسکتا ۔ مجھے ملک اور قوم کی مستقبل کیلئے ترقی پسند ادیبوں اور عوام سے امیدیں ہیں۔
محمد امین کھوسہ ہمارے مخلص قومی کارکنوں میں ہے ۔ اس کے زندگی کا احوال پیش کرنے میں اسی کے نقطہ نگاہ کو اس کا جُملہ خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ ظاہر کیا ہے۔ اب یہ لوگوں پہ چھوڑا ہوا ہے کہ اسے کس رنگ میں لیتے ہیں۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے