کارل مارکس کہتا ہے کہ ’ جمہوریت سوشلزم کی راہ ہے‘ اور پھر وہ ایک اور جگہ کہتا ہے کہ ’ امن کا مطلب ہے کہ سوشلزم کے خلاف کوئی اپوزیشن نہ ہو‘ مطلب یہ ہوا کہ جب تک تمام انسانوں میں برابری نہیں ہوگی، نجی جائداد کا خاتمہ نہیں ہوگا، تمام سہولیات برابری کی بنیاد پر تمام انسانوں کو مہیا نہیں ہوں گی ، سوشلزم کے مخالف ختم نہیں ہوں گے تب تک یہ انسان مطمئن نہیں ہو سکتا، امن نہیں ہو سکتا اور تب تک یہ جنگ جاری رہے گی۔ دنیا کے ہر ملک میں ، ملک کے ہر کونے میں۔
ڈاکٹر شاہ محمد مری کی کتاب ’ سی آر اسلم‘ بھی کچھ ایسے حالات و واقعات کا مجموعہ ہے۔
مجموعی طورپر اگر کتاب کو دیکھا جائے تو اسے چار حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے پہلا؛ 1947سے پہلے یعنی 1929 سے لے کر 1947تک، دوسرا حصہ؛1947 سے لے کر 2007 یعنی سی آر اسلم صاحب کی وفات تک کا ہے۔ کتاب کا تیسرا حصہ ان خط و کتابت پر مشتمل ہے جو سی آراسلم صاحب اور ڈاکٹر شاہ محمد مری کے بیچ ہوتی رہی۔ اور آخری نسبتا مختصر حصہ سی آر اسلم صاحب کی تصانیف کے بارے میں ہے۔
کتاب کی ابتدا کچھ یوں ہوئی کہ سی آر اسلم صاحب 15 جنوری 1915 کو حاجی محمد اولیاے گھر پیدا ہوئے۔ بابا بزنجو کی طرح فٹ بال کے اِس شوقین نے گورنمنٹ ہائی سکول سانگلہ ہل سے میٹرک کیا۔
1929 میں شروع ہو نے والے سرمایہ داری نظام میں زائد پیداوار کے بحران نے 1930 تک پوری دنیا کواپنی لپیٹ میں لے لیا۔کارخانوں کے بند ہونے اور بے کاری سے تجارت ختم ہوئی اور یوں بے روزگاری کے خاتمے کی نعرہ بازی شروع ہو گئی جس نے نئی قیادتوں اور نئے اقتدار کو جنم دیا۔
اس عالمی پس منظر کا سامنا اس خاندان کو بھی تھا جس کا ایک فرزند کا نام سی آر اسلم تھا ۔ کاشت کاری کے ساتھ ساتھ شیخ سعدی، گلستان و بوستان سے ہوتے ہوئے اس نے 1936 میں LLB کر لیا۔اور وکیل بن کر ساری زندگی انسانیت کی وکالت کی۔ اس وکیلِ انسانیت نے احسان، نوائے وقت اور لاہور کا یاغستان کے راستے صحافت کا جہاں سر کر لیا۔’لاہور کا یاغستان‘ اور ’کوئٹہ کا لٹ خانہ ‘ ایک ہی فکر کے دو نام؛ شاعروں ، ادیبوں اور دانشوروں کا مرکز۔
۔1936 میں ہونے والے الیکشن میں سپین میں سوشلسٹ پارٹی کی جیت کو ہٹلر اور مسولینی نے فاشزم کی شکست سمجھااور سپین پر حملہ کر کے کشت و خون کا بازار گرم کر دیا۔ سوشلزم کو بچانے کے لیے دنیا بھر کے دانشوروں سمیت 53 ممالک سے30 ہزار افراد سپین روانہ ہوگئے۔ بہادری سے لڑنے والی جنگ کا نتیجہ سوشلزم کی شکست کی صورت نکلااس جنگ میں ایک زبردست لٹریچر تخلیق ہوا۔یورپ میں زیرِ تعلیم نوجوانوں نے واپس آکر کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ مل کر پروگریسو رائٹرز ایسوسی ایشن ، آل انڈیا سٹوڈنٹس فیڈیریشن اور آل انڈیا کسان سبھا قائم کیں۔
ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ یہ وہ دور تھا کہ جب آل انڈیا کسان سبھاکے دوسرے جلسے میں شاہ کوٹ میں سی آر صاحب شریک ہوا۔ جاگیرداری کا خاتمہ، ملک کی آزادی کا حصول اور کسانوں کے حقوق اس کا موضوع تھے۔مختلف بحثوں سے سوشلزم اور کارل مارکس،اینگلز اور لینن کی فکر کو پاتے ہوئے وہ 1940میں زیرِ زمین کمیونسٹ پارٹی کا ممبر بن گیا۔
دوسری جنگِ عظیم؛ 1940 سے 1942 تک تباہ کاریوں نے دنیا کے تمام انسان دوست اور امن خواہ طاقتوں کو بری طرح مجروح کیا۔ 22 جون 1941 کو سوویت یونین پر حملے کے ساتھ کمیونسٹ، سوشلسٹ فکر کو سوشلسٹ حکومت کے بقا کی فکر پڑ گئی اور یوں سامراجی جنگ عوامی جنگ میں بدل گئی۔ 1942 میں پارٹی پر سے سامراجی پابندی اٹھنے کے بعد مختلف جگہوں میں پارٹی کے دفاتر کھل گئے اور دو تین سال کے اندر اندر ممبرز کی تعداد ایک لاکھ ہوگئی۔سی آر اسلم صاحب نے اکنامکس میں ماسٹرز کیا، مارکس کی تحریریں پڑھیں، طلبا کو منظم کیا اور لیڈر لیکچرز کروائے۔ ’ نیا زمانہ‘ اور ’ پیپلز ایج‘ کے نام سے اخبارات کا اجرا بھی اسی زمانے کی بات ہے۔
۔1948 میں ریلوے ورکرز یونین کے جنرل سیکرٹری بنے اور بے شمار سٹڈی سرکلز کروائے۔
جنگ میں فوجی شکست اور سوویت یونین کے کردارنے نظریاتی میدان میں طبقاتی قوتوں کوسوشلزم کی وکالت کرنے والوں کے حق میں کرکے سامراج کو کمزور کر دیا۔ 1945 میں ہندوستان کی آزادی کے اعلان کے ساتھ ریلوے ہڑتال ملتوی ہو گئی لیکن کسان کانفرنسیں جاری رہیں۔ فیروز الدین منصور جو افغانستان کے راستے سوویت یونین جا کر ایشین یونیورسٹی آف کالونیل پیپلز سے انقلابی تربیت لی اور مارکسزم پڑھا۔ 1926 میں کمیونسٹ پارٹی کے رکن بنے۔ 1948 میں پارٹی کی دوسری کانگریس ہوئی جس میں پاکستان کے لیے الگ پارٹی کی تشکیل اور فاصلے کی وجہ سے دونوں بازؤں مشرق و مغرب کے لیے الگ پارٹی کے فیصلے ہوئے۔
مغرنی پاکستان میں پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے ارکان میں پنجاب سے سی آر اسلم صاحب اور مرزا ابراہیم تھے۔ 1948 میں پارٹی نے 7 نکاتی پراگرام دیا۔
غریب کی بات کرے کوئی اور اسے جیل نہ ہو۔۔۔کتابِ ظلم میں یہ کب لکھا ہے؟
لہٰذا 1948 میں مزدوروں کی ٹریڈ یونین کے لیے جدوجہد کی سزاجیل کی صورت میں ملی۔ 1951 میں پارٹی پر حملہ کر کے اکثر کارکنوں کو جیل میں ڈالا گیا۔اسی سال اسے شاہی قلعے کے تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ 1952 میں بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیا اور 1954 میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی اور گرفتاریوں میں سی آر اسلم صاحب کو بھی لاہور جیل بھیج دیا گیا جو 1955 تک رہی۔
اس کے بعد بھی ملٹی کلاس پارٹی میں رہ کرطبقاتی تنظیموں کو منظم کیا۔ 1963 میں کمیونسٹ پارٹی میں رہ کر سی آر صاحب کی قیادت میں خانیوال میں پاکستان کے سیاسی کارکنوں کا وسیع کنونشن ہوا۔ اسی دوران مختلف ہفت روزے بھی نکلتے رہے۔ جاگیرداری مخالفت اور سامراج دشمن جدوجہد میں مولانا بھاشانی کے ساتھ عوامی لیگ میں شامل ہوئے۔ 1956 میں سامراج دشمن ساتھیوں نے برطانوی حملے کی مذمت کے لیے جلوس نکالنے کے جرم میں مولانا بھاشانی اور سی آر اسلم صاحب کو عوامی لیگ سے نکالا گیا۔
1957 میں نیشنل پارٹی قائم ہوئی جو بعد میں مولانا بھاشانی کی شمولیت سے نیشنل عوامی پارٹی بن گئی۔ سرحد کے خدائی خدمتگار، بلوچستان کے عبدالصمد اچکزئی اور بابا بزنجو اور سندھ کے عبدالمجید سندھی، جی ایم سید اور حیدر بخش جتوئی شامل ہوئے۔ سی آر اسلم صاحب پنجاب کا صدر بن گیا۔ 1956 کے آئین کے بعد 1958 میں الیکشن ہونے تھے لیکن روس کے خلاف قائم کردہ محاذ کے خاتمے کے خوف سے امریکہ نے مارشل لا لگوا دیا۔ ساری پارٹیوں پر پابندی لگ گئی اور سی آر اسلم صاحب دوسرے لیڈروں کے ساتھ جیل چلاگیا۔ عوامی بے چینی کو دور کرنے کے لیے ایوب خان نے 1959 میں زرعی اصلاحات کا اعلان کر دیا۔ سیاسی پابندیاں ہٹیں اور 1962 کے آئین اور پارلیمانی آئین کامطالبہ کیا جانے لگا۔ محنت کش طبقات کا سیاسی طور پر متحرک ہونے پر سی آر اسلم صاحب ایک دفعہ پھر سرگرم ہوگیا۔ اس نے1964 کے نومبر میں سائنٹفک سوشلزم کی وضاحت، تشریح اور تشہیر کی مہم کا آغاز ’ آفاق محنت ایڈیشن‘ لاہور سے شروع کیا۔ پھر پارس، لائلپور اور نگار کے مالکان سے ہفتہ وارکرائے پر لیا اور ایک زبردست قسم کی نظریاتی لڑائی لڑی۔ بالآخر 1969 خواجہ محمد رفیق کے نام پرہفت روزہ ’عوامی جمہوریت‘ کا ڈیکلئیریشن مل گیا جو باقاعدگی سے چھپنے لگا۔ سی آر اسلم صاحب کی وفات 2007 تک یہ اخبار سیاسی کارکنوں کی کم و بیش دو نسلوں کی تربیت کرتا رہا۔
چیکو سلواکیہ کانگریس میں روس چین کے آپس میں کچھ اختلافات ہو گئے۔ 1970 کے الیکشن کے بعد خانیوال کنونشن میں پاکستان سوشلسٹ پارٹی نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ دونوں پارٹیوں میں سے کسی کے ساتھ نہیں ملیں گے۔
ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب کہتے ہیں کہ ’ ایوب خان اپنی ذات کی وفاداریوں میں کلیسا کے پوپ جیسا تھا کہ جو دوسرے کی پارٹی میں جائے وہ غدار ہے، جو ہماری پارٹی میں آئے وہ نو عیسائی ہے‘۔ پیپلز پارٹی بنی تو اصرار کے باوجود سی آر اسلم صاحب اس میں شامل نہیں ہوا۔ 1967میں مارشل لا نافذ ہو اتو ایوب خان کے بعد یحییٰ خان آیا۔23 مارچ 1970 کو کسان کانفرنس ہوئی۔ اس ملک گیر کانفرنس نے تمام کسانوں ، مزدوروں اور پسماندہ طبقات میں شعور اجاگر کیا کہ بجائے مخالف طبقے کے اپنے طبقے کو منتخب کرے۔ اسی کانفرنس نے شاہ عنایت کے نعرے ’ جو کھیڑے وہی کھائے‘ دوبارہ سے زندہ کیااور ایک نعرہ ’ چلو چلو ٹوبہ چلو‘ بھی دیا۔کانفرنس کا مقصد شہری، عوام، طلبا اور دانشوروں پر زرعی اہمیت واضح کیا جائے اور یہ کہ صوبائی تعصبات، ذات برادری، رنگ و نسل کی تمیزسامراج، جاگیرداراور اجارہ دار سرمایہ دار پیدا کرتے ہیں اور محنت کشوں کا اتحاداور تفریق اور تمیز کو مٹاتا ہے۔کانفرنس نے انتخابی ماحول اس طرح سے بدل دیاکہ بڑی سے بڑی رجعتی اور زرعی اصلاحات کو کفر قرار دینے والی سیاسی جماعتوں نے بھی اپنے منشور میں زرعی اصلاحات کا ذکر شروع کر دیا۔
عوامی لیگ کی کامیابی کے باوجود ملا ، ملٹری اور فیوڈل کی وجہ سے اقتدار منتقل نہیں ہوا اور فوجی ایکشن کی وجہ سے بنگلادیش الگ ہو گیا۔سی آر صاحب نے اقتدار کی غیر منتقلی اور فوجی ایکشن کی شدید مخالفت کی۔
بنگلا دیش الگ ہونے پر مولانا بھاشانی بھی الگ ہو گئے لہٰذا 1971 میں 23 مارچ کو دوسری کانفرنس ہوئی جس میں 25 ہزار کسان شریک ہوئے جس کے اختتام پر ڈیلیگیٹ کانفرنس ہوئی اور 300 مندوبین نے حصہ لیا جس میں مغربی پاکستان کے حصے کا نام پاکستان سوشلسٹ پارٹی رکھا۔
19فروری 1972 کو 400 مندوبین پر مشتمل سوشلسٹ ورکرز کانفرنس ہوئی اور 23 مارچ کو تیسری کسان کانفرنس منعقد ہوئی اور 1994 میں چوتھی کانفرنس ہوئی۔سی آر اسلم صاحب ساری زندگی کسان کانفرنسیں کرواتے رہے، سٹڈی سرکلز کرواتے رہے، پمفلٹ پوسٹرز چھپواتے رہے، خط وکتابت کرتے تھے۔دوسری روشن فکر پارٹیوں کے رہنماؤں اور کارکنوں سے بحثیں کرتے تھے۔ اور ’ عوامی جمہوریت‘ کے کام کرتے تھے۔
سی آر صاحب اور ان کے ساتھی سرداری نظام کے بد ترین دشمن ہوتے ہوئے بھی فوج کشی کے سخت مخالف تھے۔ اور ان کے اسی جرم کی پاداش میں ’ عوامی جمہوریت‘ پر پابندی لگا دی گئی۔
ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب اس کتاب میں سید مطلبی فرید آبادی کے بارے میں کہتے ہیں کہ ہندوستان کے شہر فرید آباد میں پیدا ہونے والے سید مطلبی فرید آبادی نے 1963 میں کسانوں کو منظم کیا۔ وہ ایک سنجیدہ مارکسسٹ تھے۔ وہ ساری زندگی کسانوں کے لیے گیت لکھتے رہے۔ ڈرامہ ’ کسان رُت‘ اور مشہور گیت ’ ہیا ہیا‘ بھی انھی کی تخلیقات ہیں۔ روسی کتابوں کے تراجم کیے اور مختلف اخبارات کے ایڈیٹر رہے۔وہ ایک ادیب ، شاعر، صحافی اور سیاسی رہنما رہے۔ اور ظاہر ہے کہ ان کو اس سارے کاموں کی وجہ سے جیل بھی ہوتی رہی۔ ان کا انتقال 21 جولائی 1978 کو انتقال ہوا۔
یہ سال سی آر اسلم صاحب کے لیے چیلنجوں کا سال رہا کیونکہ سید مطلبی صاحب کی وفات، ثور انقلاب اور پھر ضیا الحق پورے پاکستان کو افغان انقلاب کے خلاف کرنے کی مہم جوئی کرتے رہے۔
کتاب میں شامل سی آر اسلم صاحب کے خطوط اگر آپ پڑھیں تو آپ کو دو باتیں واضح طور پر محسوس ہوگی کہ ایک تو ان دونوں کا محبت بھرا دوستانہ تعلق کہ جس طرح وہ ڈاکٹر صاحب ، ان کی فیملی اور دوستوں کا پوچھتے اور دوسرا یہ کہ ان کے تمام خطوط میں پارٹی، عوامی جمہوریت، ملکی حالات، مستقبل کا لائحہ عمل، پڑوسی ممالک پر پاکستان کے اثرات جیسے موضوعات ہوتے تھے۔ چند ٹکڑے آپ ان خطوط کے پڑھیں۔
’ میں کوشش کروں گا کہ عوامی جمہوریت کا ایک صفحہ ہر شمارے کا ’ انقلاب افغانستان‘ کے لیے وقف رہے۔‘
’ ہم جناب نور محمد ترہ کئی کی سوانح حیات اور انقلاب افغانستان پر ایک پمفلٹ چھاپ رہے ہیں ‘۔
’ ہم سیاست کرتے ہیں نعرے بازی نہیں کہ ہم بھی نعرے بازی کے سوداگر بن جائیں ۔ اندھیروں کے یہ مسافر چندھیا جائیں گے کہ تاریکی کے عادی روشنی کو برداشت نہیں کر سکتے‘۔
’ ایس ایس او نے بلوچستان کی معدنیات اور کان کنی اور کان کنوں کے بارے میں جو تحقیقی مقالہ لکھا تھا ،وہ ان کا قابلِ ذکر کارنامہ ہے۔ میری خواہش ہے کہ ایس ایس او کے رفقا اب بلوچستان کی زرعی معیشت پر تحقیقی مقالہ تحریر کریں‘۔
’ جہاں تک سیاست میں لچک کی بات ہے میں آپ سے متفق ہوں لیکن اصولوں میں لچک پیدا نہیں کریں گے‘۔
’مکتوبِ بلوچستان کا انتظار ہے۔ اس میں ملکی سیاست کے علاوہ افغان بھگوڑوں کی سرگرمیوں کے بارے میں بھی تحریر کریں‘۔
’ ہم نے یہ بھی طے کیا ہے کہ اکتوبر کے کسی روز بلوچستان میں کسان ریلی کی جائے‘، پوسٹروں اور ہینڈ بلوں میں زرعی، صنعتی، ثقافتی اور قومی مسائل پر اپنی لائن ہو گی اور مزدور کسان راج کی بات ہوگی۔ اور محنت کشوں کے اقتدار کی بات ہوگی‘۔
’ آپ مری ہیں اس لیے ضدی ہیں۔ میں انقلابی ہوں اس لیے باشعور ضدی ہوں ۔یعنی میں متعصب نہیں ہوں البتہ مستقل مزاج ہوں۔ آپ کو اپنے بیٹے پر ناز ہے مجھے سب بیٹوں پر ناز ہے۔آج کے بچے کل کے سوشلسٹ نظام کے وارث ہوں گے۔وہ نہ ضدی ہوں گے نہ متعصب‘۔
یہ صرف چند خطوط کے ٹکڑے ہیں جن سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں سی آر اسلم صاحب کا ڈاکٹر صاحب سے کیسا دوستانہ تعلق تھا اور یہ بھی کہ انسانیت، سوشلزم، پارٹی، سیاست، بلوچستان ان کے لیے کس قد ر اہمیت کا حامل تھا ۔
کتاب کے آخری حصے میں ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب نے سی آر اسلم صاحب کی تصانیف کے بارے میں لکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی کتابوں میں جمہوری سماج میں عورت کا کردار،اقبال کا پیغام میری نظر میں،عالمِ اسلام مبتلائے زوال کیوں ہے؟، اکتوبر انقلاب،علم المعیشت، اس عہد کی نئی حقیقتیں اور اس کے تقاضے، خواتین کے بارے میں لینن کے خیالات ، جدلی و تاریخی مادیت کے اصول، سوشلزم کیا ہے، نور محمد ترہ کئی کے حالاتِ زندگی، پاکستان میں سوشلسٹ تحریک اور اس کے علاوہ ان کے مضامین کے بارے میں لکھا ہے۔حوصلہ دینے والے، امید دلانے والے یہ انسان ، جہدِ مسلسل کرنے والے سوشلسٹ بالآخر دس جولائی 2007 کو اس دنیا کو چھوڑ گئے۔
لیکن ہم پُر امید ہیں بقول سی آر اسلم صاحب کے کہ ’ ہم تین ہیں تو کوئی بات نہیں ، تین سو بن جائیں گے!‘۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے