ہفت روزہ ’’عوامی جمہوریت ‘‘کا طرز اپنے سابقہ پیش رواخباروں کی طرح تھا۔ اِس کے سرورق کے اوپر کی پٹی پردائیں طرف درانتی پکڑے ایک کسان ، ہتھوڑا تھامے ایک مزدور، اورکتاب لیے ایک طالب علم نے کر مل کر پرچم اٹھایا ہوا ہے اورنوجوان طالب علم نے انگلی سے مصمم عزم کے ساتھ پٹی کے درمیان میں چھپے موٹے لفظ ’’عوامی جمہوریت ‘‘کی طرف بطور منزل اشارہ کر رکھا ہے ۔’’ عوامی جمہوریت ‘‘ کی سرخی کے ایک طرف ہفت روزہ لکھا ہے اور دوسری جانب لاہور ۔ اُس کے نیچے ایڈیٹر ، سید مطلبی فرید آباد ی لکھا ہے اور اس کے نیچے قیمت 25پیسے ۔بائیں طرف چوکٹھے میں سالانہ بارہ روپے ، ششماہی چھ روپے اور بیرون ملک بذریعہ ہوائی ڈاک 3پونڈ اور عام ڈاک ایک پونڈ درج ہے ۔
مگر نہ توکوئی تین پونڈ دیتا تھا اورنہ 25پیسے۔ سی آر اسلم نے اپنے تئیں کچھ دوست بنا رکھے تھے جو اخبار کو چلانے کا خرچہ اٹھاتے تھے۔ ہمیں معلوم ہوا کہ اِن چندہ دھندگان کی تعداد نصف درجن سے زیادہ نہ تھی۔ اور ان میں سے دو ایک ہی پارٹی افراد یا نظریاتی لوگ تھے ۔ بقیہ تو اُس کے ذاتی جان پہچان کے ایسے دوست تھے جن پرسی آئی ڈی والوں کو شک تک نہ گزر تا تھا۔ یہ گویا سی آر اسلم کی طرف سے اخبار کے مالی وسائل کا ایسا ذریعہ تھا جو مستقل بھی تھا اور اُن پر سرکاری نظر بھی نہ پڑتی تھی۔ تیسری دنیا کی بنیاد پرست، مارشل لا زدہ اور عوام کی ناترس ترین دشمن خطے میں ایسا ہی تخلیقی طریقہ چلانا احسن کام تھا۔کارکنوں میں غربت اور تنظیم کی کمی کی وجہ سے 25پیسے دینے کی عادت نہ تھی۔(آج بھی ایسا ہی ہے!۔ اور صرف ’’عوامی جمہوریت‘‘ کے ساتھ ہی ایسا نہیں بلکہ ہمارے سارے رسائل کے ساتھ ایسا ہے)۔
13جون 1970کے شمارے میں مال روڈ لاہور کی کتابوں کی دکان ’’کلاسیک ‘‘کو جلاڈالنے کی خبر پہ ایک مضمون ہے ۔ دکان پر سوشلسٹ لٹریچر فروخت کرنے کا الزام لگایا گیا تھااور مالک کو دکان بند کرنے کی ،ورنہ قتل جیسی دھمکیاں دی جارہی تھیں۔اور بالآخر دکان جلادی گئی۔ اخبار نے اِس خبر نما مضمون میں اسے طبقاتی جنگ میں دشمن طبقات کا ایک کامیاب اور ہمہ وقت کار گر حربہ قراردیا۔ اس نے عوام کو ایسے ہتھکنڈوں سے ہر دم چوکس رہنے کا کہا اور اپنے سیاسی کام کو احتیاط ،مستعدی اور ہوشمندی سے آگے بڑھانے کا مشورہ دیا۔ اخبار کے مطابق’’ اسی سیاسی کام نے امریکی سامراج ، اجارہ دار سرمایہ داروں جاگیرداروں اور ان کے ایجنٹوں بالخصوص مودودی جماعت کے حواس باختہ کردیے ہیں‘‘۔ہم نے دیکھا کہ پاکستان کی بعد کی تاریخ بھی ایسے الزامات اور واقعات سے بھر پڑی ہے ۔ نہ صرف دکان جلا دیے گئے بلکہ لوگوں کو قتل کر دیا گیا، وطن بدر ہونے پر مجبور کیا گیا اورایسے الزامات لگا کرحتی کہ بورژوا پارٹیوں کو بھی الیکشنوں سے دور رکھا گیا۔
اسی شمارے میں جناب حیدر بخش جتوئی کے انتقال کی خبر سیاہ چوکھٹ میں دی گئی۔۔۔۔ ’’مرحوم کافی دنوں سے علیل تھے۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ کسان کانفرنس کا دعوت نامہ جب انہیں بسترِمرگ پر دیا گیا توتمام مغربی پاکستان کے کسانوں کے اجتماع پر انہیں خوشی سے زیادہ اس لیے رنج ہوا کہ وہ اپنی علالت اور نقاہت کے سبب اس تاریخی اجتماع میں شرکت سے معذور تھے۔ اس بے بسی نے انہیں زار وقطار رلادیا۔ ان کا وہ پیغام جو کسان کانفرنس میں پڑھا گیا اُن کے اُس وقت کے قلبی تاثرات کا ترجمان تھا۔ وہ پاکستان کے اس طبقہ کے مخلص کارکن تھے جس کی پسماندگی کو ختم کیے بغیر آزاد و خوشحال اور جمہوری پاکستان کی تعمیرناممکن ہے۔
’’ سندھ میں مرحوم نے ہاری تحریک کے منظم کرنے میں دوسرے رفیقوں کے تعاون سے کافی کوششیں کیں۔ انہوں نے ہاریوں کے مسائل اور اُن کے اسباب کو بخوبی سمجھا اور حل کرنے کے لیے مردانہ وار مصائب کا سامنا کیا، جیلوں کی اذیتیں جھیلیں ، نام نہاد سندھی راہنماؤں کے ہاتھوں دکھ اٹھائے جو اپنی جاگیر دارانہ رقابتوں میں ہاریوں کو استعمال کرنے کے لیے قوم پرستی کا چولہ پہن کر سامنے آتے رہے۔ مسٹر حیدر بخش جتوئی کی وفات پاکستان کی کسان تحریک بالخصوص سندھ کی ہاری تحریک کے لیے ایک افسوسناک سانحہ ہے ۔سندھ کے کسانوں نے اپنا ایک بیش قیمت اور مخلص فرزند کھویا ہے‘‘۔
اس سے اگلے شمارے میں تو جتوئی صاحب کی وفات پر پارٹی کی نیشنل کونسل کی جامع قرار داد موجود ہے: ’’جناب حیدر بخش جتوئی اُن چند رہنماؤں سے تھے جن کے ذکر کے بغیر سندھ کی پچھلی نصف صدی کی کوئی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی ۔ جتوئی صاحب نے سندھی کسانوں کے شعور کو بلند کرنے ،ان کو منظم کرنے، اور سندھ کے متشددانہ جاگیر داری نظام کے خلاف جدوجہد کرنے میں جو کردار ادا کیا ہے وہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ جتوئی صاحب نہ صرف ایک سیاسی راہنما تھے بلکہ سندھی زبان کے ایک بڑے شاعر بھی تھے۔ اور جس طرح ان کی سیاست ترقی پسند شعور سے پروان چڑھی تھی اسی طرح ان کی شاعری بھی قومی آزادی اور وطن دوستی کے نظریے مالا مال تھی‘‘۔
چونکہ 1970کے الیکشن قریب تھے ، اس لیے ایک مضمون میں اخبار نے الیکشن کے بارے میں اپنی پوزیشن واضح کی ۔اخبار نے پارٹی کی طرف سے الیکشن میں اپنے نمائندے کھڑا کرنے کا فیصلہ چھاپتے ہوئے ، مگر خبردار کیا کہ: ’’سیاسی جمہوریت معاشی جمہوریت کے بغیر بے معنی ہے ، عوامی مسائل عوام کی مستقل اور لگاتار جدوجہد ہی سے حل ہوسکتے ہیں۔ سامراجی عہد میں سرمایہ دار قیادت نہ جمہوریت لاسکتی ہے اور نہ عوام کے مسائل حل کرسکتی ہے ۔تاریخ کے اس دور میں یہ کام مزدور طبقے کی قیادت ،مزدوروں اور کسانوں کے اتحاد اور اُن کی منظم اور باشعور جدوجہد ہی سے تکمیل کو پہنچ سکتا ہے‘‘۔
ہم آج بھی وہیں کھڑے ہیں۔ ’’اُن‘‘ کی جمہوریت آئی ۔ بھٹو اور شریف اقتدار کے ایوانوں پہ مسلط ہونے کی باریاں لیتے رہے۔ آج ایک بار پھر2018کے الیکشن ہو رہے ہیں۔ اور ایک بار پھر اسی حکمران بالائی طبقہ کے درندوں لٹیروں کی رسمِ تا جپوشی کے مراحل جاری ہیں ، پورا سال یہ سلسلہ چلے گا۔ ہمارے ووٹوں سے ہمارے آقا’’چنے ‘‘جائیں گے اور اگلے پانچ سال ہی کو لوٹنے کے بعد ایک بار پھر یہ سلسلہ چلے گا۔لہذا کچھ بائی پراڈکٹ عوام کو ملنے کے سوا یہ بورژوا الیکشن کچھ نہیں ہوتے ۔ سرمایہ دار اپنے طبقے کے معاملات کی انتظام کاری کے لیے اپنے ہی طبقے کے لوگوں کی کمیٹیاں بناتے ہیں جنہیں ہم قومی اسمبلی ، سینٹ ، صوبائی اسمبلیاں کہتے ہیں۔
شمارے کا آخری صفحہ ’’لینن اور دیہات کے عوام‘‘ نامی مضمون سے مزین ہے ۔ واضح رہے کہ اخبار اُس وقت لینن کی صد سالہ سالگرہ مناتے ہوئے ایسا کررہا تھا۔
27جون 1970کے شمارے میں مجھے ایک زبردست ٹکڑاملا ہے ، اولین صفحے پر :’’۔۔ دانشوروں میں یہ غلط فہمی اکثر پائی جاتی ہے کہ ترقی پسند کارکن ہر تحریک میں گھس کر اُسے ترقی پسند تحریک بنا سکتے ہیں۔ اور اُس کی قیادت اپنے ہاتھ میں لے کر اُسے درست لائنوں پر چلا سکتے ہیں ۔ (اب بھی آپ کو ایسی بے شمار آوارہ روحیں ملیں گی جو تن تنہاسرکار دربار اور عوام الناس میں مقبول جگا دری لیڈروں کو راہ راست پر لانے کی ڈینگیں مارتی نظر آتی ہیں۔ کوئی پیپلز پارٹی کو لیننی پارٹی بنانے کی جگالی کرتا نظر آتا ہے تو کوئی ایم کیو ایم کو مارکسسٹ پارٹی بنانے پہ تلا ہوا ہے ۔ حتی کہ یار لوگ نواز شریف کو بھی چے گویرا کہنے ، بنانے کی بے برکت دلیلیں دیتے نظر آتے ہیں۔ اور جب آپ ان کی توجہ اس بات پر مبذول کرائیں کہ ’’بھائی یہ تو بورژوا پارٹیاں ہیں ۔ ان کے لیڈر تو سرمایہ کے انٹرنیشنل کارپوریشنوں کے ترجمان ، محافظ ، مینجر، اور ملازم ہیں۔ یہ سماج میں کسی قسم کی تبدیلی کو برداشت نہیں کرسکتے‘‘۔ تو وہ ڈھٹائی سے جواب دیتے ہیں کہ دیکھیں جی کیا کریں، عوام اُن کے ساتھ ہیں ، ہم تو اُن کا ساتھ اس لیے دے رہے ہیں تاکہ عوام کو اُن سے توڑیں اور اپنے ساتھ ملا لیں۔
پچاس پچاس سال گزر جاتے ہیں اور اُن کے ساتھ دو آدمی بھی نہیں آتے، حاشیہ برادر ہیںیہ لوگ حکمران طبقات کے !)۔اخبار نے لکھا:’’پہلی بات تو یہ ہے کہ ہر وہ تحریک جس میں عوام شریک ہوں عوامی تحریک نہیں ہوتی ۔ بلکہ عوامی تحریک وہ ہے جو عوام کے طبقاتی مفادات کی نمائندگی کرے اور جس میں شریک ہونے سے اُن کا طبقاتی شعور بلند ہو، طبقاتی اتحاد بڑھے اور طبقاتی تمیز گہری اور واضح ہو۔ دوسری بات یہ ہے کہ صرف ترقی پسند نظریہ ہی ترقی پسند تحریک کو پیدا کرسکتا ہے ۔ اور جو تحریک ترقی پسند نظریے نے پیدا نہ کی ہو خواہ اس میں عوام شریک بھی ہوں ترقی پسند نہیں ہوتی اور نہ اُسے ترقی پسند بنایا جاسکتا ہے ۔‘‘
مندرجہ بالا پیراگراف میں نے خصوصی طور پر اس لیے منتخب کیا ہے کہ نوجوان قاری بات سمجھ سکے۔ اُسے معلوم ہو کہ آج کی سیاست میں جورویے اور رجحانات اُسے ملتے ہیں وہ نئے نہیں ہیں۔ یہ پچاس ساٹھ برس قبل کے رجحانات ہیں۔ چونکہ ہماری تحریک کی تاریخ جامع اور یکجا طور پرمیسر نہیں ہے اس لیے نوجوان کنفیوز ہوجاتا ہے اور اُس کا وقت ان امور پر سوچنے پہ ضائع ہوتا ہے۔وہ ’’بڑی‘‘شخصیات کے ’’ترقی پسند درباریوں‘‘ کے پروپیگنڈہ میں آکر ہر بورژوا اور عوام دشمن سیاسی پارٹی میں انقلاب ڈھونڈنے کے سرابی راستے پر چل پڑتا ہے۔ کاش ہم نوجوان نسل کو تجربات کا وہ خزانہ ایک مجتمع اور جامع صورت میں مہیا کرسکیں!۔
اسی مضمون میں ہمارا یہ ٹیچر اخبار ہمارے لیے ایک اور اہم سوال کو چھیڑ تا ہے، اور پھر اُس کا جواب دیتا ہے۔ سوال ہے :’’ جمہوریت کیا ہے‘‘ ؟ ۔جواب ہے کہ: یہ سرمایہ داروں کے لیے ’’پالیمانی طرزِ حکومت ، فیڈرل سسٹم، براہِ راست انتخاب ، صوبوں کی آبادی کی بنیاد پر حق نمائندگی ۔۔‘‘ہے۔مگر اصلی جمہوریت میں’’ سامراجی اثرات سے نجات اور معاشی نظام میں بنیادی تبدیلیاں لانا بھی شامل ہیں‘‘۔۔۔یہ علمی مضمون سی آر اسلم کا لکھا تھا۔
اخبار نے اپنی پارٹی (نیشنل عوامی پارٹی )کی نیشنل کونسل کے سہ روزہ اجلاس کی روداد بھی چھاپی ہے جو 27جون 1970کو شروع ہواتھا۔نیشنل کونسل نے اگلی ٹرم تک کے لیے پارٹی کے نئے عہدیدار چنے ۔اس انتخاب میں صدر مولانا عبدالحمید خان بھاشانی،اور جنرل سیکریٹری سی آر اسلم منتخب کیے گئے۔
اس شمارے میں ایک اور کمال بات کی گئی ۔ ایسی بات جوآج کی ہماری نئی نسل کے لیے ایک سبق کا درجہ رکھتی ہے ۔لکھا ہے کہ ’’یکم جولائی (1970)سے ون یونٹ ختم ہوگیا ہے ۔ ۔۔ پندر ہ سال پہلے جب وہ یونٹ بنایا گیا تھا تو تمام سیاسی کارکنوں اور محنت کش تنظیموں کے حقیقی لیڈروں نے اس غیر جمہوری اقدام کی کھل کر مذمت کی تھی۔ ون یونٹ توڑنے کے ہمارے اس مطالبے کو پاکستان اور نظریہ پاکستان کا دشمن کہا جاتا رہا۔ ون یونٹ کی مخالفت کرنے کی وجہ سے ہمارے جلسوں پر پتھراؤ کیا گیا ۔ ہمارے کارکنوں کو جیل میں ڈالا گیا اور ان کی جدائیدادیں ضبط کی گئیں۔ آج جب ون یونٹ ٹوٹ گیا ہے تو وہی سیاسی جماعتیں اور افراد جو ون یونٹ کو اپنا سیاسی ایمان سمجھتی تھیں، اُس کے ٹوٹنے اور صوبوں کے قیام پر جشن منانے والوں میں شامل ہیں‘‘ ۔
اور یہ صرف ون یونٹ تک محدود نہیں ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ سیٹوسنٹو سے نکلنے کے لیے قربانیاں جمہوری سیاسی ورکرز نے دیں ۔ مگراس کے ثمرات لینے یہ موقع پر ست بورژوا سیاست دان آگے آگے تھے۔ مارشل لاؤں کے خاتمے کی جدوجہد میں شاہی قلعے اور پھانسی گھاٹ روشن فکر سیاسی ورکرز نے آباد کیے تھے۔ مگر جب مارشل لا گیا تومارشل لا کی گود میں بیٹھے لوگ وہاں سے پھدک کر باہر نکلے اوریکا یک جمہوریت کے ٹھیکیدار بن کر اقتدار پہ بیٹھ گئے ۔اُس روز کوئی دوست کہہ رہا تھاکہ کل جب عوامی اورجمہوری انقلاب ہوگا تب بھی اقتدار لینے یہی بورژوا موقع پرست سیاست دان آگے آگے کھڑے ہوں گے، جو ہمیں شاہی قلعوں ، پھانسی گھاٹوں ، انڈرگراؤنڈی اور جلاوطنی میں بھیجتے رہے تھے۔
سبق یہ ہے کہ انقلابی لوگ خبر دار رہیں کہ اپنی قربانیوں کامالک خود ہوا جائے اور اپنی طبقاتی جدوجہد کی کسی کامیابی کا کر یڈٹ اور فائدہ دشمن کو لینے نہ دیا جائے۔
ہم جس وقت یہ سطور لکھ رہے ہیں توملک میں 2018کے الیکشنو ں کی گہما گہمی شروع ہے ۔ آئیے ذرا دیکھیں کہ آج سے نصف صدی پہلے 1970کے الیکشنوں اور آج کے الیکشنوں میں کوئی فرق ہے؟۔ (عوامی جمہوریت،25جولائی1970)۔
’’گلیوں، بستیوں، اور دیہات میں جھنڈے لگائے جارہے ہیں۔ انتخابی دفاتر قائم کیے جارہے ہیں۔ ریڈیوٹی وی کے علاوہ روزانہ اخبارات کسی نہ کسی جلسے، عصرانے یا استقبالیے کی خبروں اور بیانات سے بھرے نظر آرہے ہیں ۔ ۔۔ وہ جاگیر ی، اجارہ دار سرمایہ داری اور سامراجی مفادات کے خاتمے کا نام لیے بغیر کہتی ہیں کہ وہ برسرِ اقتدار آکر معاشرے میں بنیادی تبدیلی لائیں گے ۔۔۔ (آج کے عمران ، نواز شریف، پیپلز پارٹی اور دیگر ساری پارلیمانی پارٹیوں کی طرح )۔ مذکورہ بالا پارٹیوں کے سربراہ تمام تر وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے دور اقتدار میں اُن سیاسی ورکروں کی ہمیشہ مخالفت اور مذمت کی ، انہیں جیل خانوں میں رکھا اور ہمیشہ غدارانِ وطن اور دشمنانِ اسلام کے اُن پر لیبل لگائے جنہوں نے معاشرے میں بنیادی تبدیلی لانے کے لیے سامراجی مفادات ، اجارہ دار سرمایہ داری او رجاگیرداری کے خاتمے کے لیے جدوجہد کی۔
’’۔۔۔ان میں پیپلز پارٹی کے سربراہ مسٹر ذوالفقار علی بھٹو جیسے لوگ بھی موجود ہیں جو دورِ ایوبی کے گناہوں کی آلودگی سے اپنے آپ کو پاک کرنے کے لیے کئی دفعہ توبہ کرچکے ہیں۔
’’ ۔۔۔ہم مشورہ دیں گے کہ ۔۔۔ہر پارٹی اور فر د کے حال اور مستقبل سے متعلق اس کے عزائم کے جائزے کو کسوٹی قرار دیا جائے‘‘۔
اخبار نے الیکشنوں میں ایک بنیادی اصلاح کا مطالبہ بھی کیا ۔ یہ مطالبہ آج تک موجود ہے ، اور برحق مطالبہ ہے:ہمارا’’مطالبہ ہے کہ ملک کے تمام طبقات کو تناسبِ آبادی کے لحاظ سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں نمائندگی دی جائے ۔یہی صحیح معنوں میں جمہوریت کی بحالی ہے جس کے تسلیم کیے جانے سے 95فیصد عوام کو وہ اقتدارِ اعلیٰ حاصل ہوتا ہے جس سے آج تک انہیں محروم رکھا گیا ہے ۔‘‘ ۔۔۔ یعنی ملک کی 95فیصد آبادی پر مشتمل کسان مزدور، اور دانشورطبقات کے لیے 95فیصد سیٹیں ہوں۔
ایک اورکمال مضمون کی طرف آئیے۔ کچھ لوگوں کو موروثی بیماری لگی رہتی ہے :بورژوا پارٹیوں سے اتحاد کرنے کی۔ 1970میں بھی یہ بیماری موجود تھی ۔ذرا دیکھیے: ’’مسٹر ذوالفقار علی بھٹو نے یہ کہہ کر کہ الیکشن کے لیے وہ کسی سیاسی پارٹی سے اتحاد نہیں کرنا چاہتے۔ اُن کا اتحاد عوام یعنی مزدوروں، کسانوں اور دانشوروں سے ہے ۔ بائیں بازو کے اتحاد کا نعرہ لگانے والے ان نام نہاد ترقی پسندوں بلکہ بزعم خود ’’انقلابیوں‘‘ کی کھوپٹری میں ایک اور چپت رسید کی۔ یہ ہی کیفیت اُن’’ترقی پسندوں‘‘ پر گزر چکی ہے جو شیخ مجیب الرحمن کی ’’انقلابی‘‘ قیادت سے اپنا نکاح باندھنے کے لیے بے قرار تھے۔ مگر عروسی لباس میں جہیز کے لیے جب دولہا کے دروازے پر پہنچے تو دھتکار دیے گئے۔
’’ان نام نہاد ترقی پسندوں نے ہمیشہ بورژوا ، اورپیٹی بورژوا جماعتوں اور عناصر کی دُم سے ترقی پسندوں کے باندھنے کو بائیں بازو کے اتحاد کا نام دیا ہے۔ اور اپنے متواتر عمل سے سیاسی کارکنوں کی صفوں میں پھوٹ ڈالنے اور ان کے سیاسی شعور کو کند کرنے کا شرمناک فریضہ انجام دیا ہے۔ اُن کی ہر موقع پرستی حکمران طبقے کی استحصالی رقابتوں سے مرتب ہونے والی سیاست کی پرچھائیں کے پیچھے دوڑی ہے اور اسے انہوں نے ترقی پسندی کا نام دیا ہے جو سیاست عوام کے بجائے حکمران طبقہ کے کسی ایک دھڑے کے استحکام کی سیاست ہے اور جو مزدوروں، کسانوں اور دانشوروں کے اتحاد او راس اتحاد سے مستحکم ہونے والی مزدور قیادت کے بجائے خود اسی رجعتی طبقاتی قیادت کے گرد مزدوروں ، کسانوں اور دانشوروں کو سر بسجود رکھنے کی خواہش مند ہوتی ہے‘‘۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے