(زہر ، قطرہ قطرہ)
ڈاکٹر امیر الدین
(16اکتوبر 1936۔۔14جولائی 2002)

میں نے جب ’’ عشاق کے قافلے‘‘ کے عنوان کے تحت،نسلِ آدم کی فلاح کے کاروانِ جہد میں شامل اپنے اکابرین اور دوستوں کی سوانح لکھنی شروع کی تھی توذہن میں امیر الدین کا نام سب سے آخر میں رکھا تھا۔ اس خیال سے کہ پہلے عمر رسیدہ احباب کا تذکرہ اُن کی زندگیوں میں کیا جائے،امیر الدین تو بہت بعد میں،شاید میرے بھی بعد مرے گا۔
احمق ہیں وہ لوگ جو پسماندہ ٹکنالوجی کے عہد میں موت کی گھڑی کے تعین لئے جمع تفریق کرتے رہتے ہیں۔ سائنسی ترقی کی پست سطح والے معاشروں میں موت کے لئے کیا وقت نا پاجائے اورکیا گھڑی دیکھی جائے ؟ ۔ابھی تو انسان اِسے ذرا سا پیچھے دھکیلنے کے قابل ہوسکا ہے۔ ابھی تو انسان ہزاروں اسباب رکھنے والے اس مظہر کو برپا نہ ہونے دینے کے لئے انہی اسباب کو کُند کرنے میں لگا ہوا ہے۔ ابھی تو اموات کی اکثریت ایسی ہے جن کی وجہ کے خانے میں ڈاکٹر لوگ Cause of Death (وجہِ موت )کی بجائے Probable Cause of Deathلکھتے ہیں۔ امیر الدین کی موت کا Probable Causeحادثہ تھا۔۔۔ مگر خود حادثات‘ کہاں بے سبب ہوتے ہیں؟۔
ہر انسان میں اپنے پرورشی ماحول کے پس منظر میں کچھ خاصیتیں زیادہ ڈویلپ کرتی ہیں۔امیر الدین کی خاصیت یہ تھی کہ وہ ہمیشہ نمبر ون رہتا تھا۔ اگلی نشستوں کا آدمی۔ دی پرنسپل، دی سیکرٹری جنرل ، دی پریذیڈنٹ، دی چیئرپرسن۔ اس نے ہر بلند عہدے کا ذائقہ چکھ رکھا تھا۔ بس ایک عہدہ ایک لقب رہ گیا تھا جسے اُس نے اپنے دوستوں سے پہلے حاصل کرنا تھا۔۔۔ سو‘امیر الدین ہم سب دوستوں میں سے سب سے پہلے وہ لقب، وہ خطاب بھی وصول کرگیا، چلو‘اب وہ’’مرحوم‘‘ بھی بن بیٹھا۔
مگر مضحکہ خیز بات دیکھیے کہ امیر الدین سابقہ پرنسپل،سابقہ سیکرٹری جنرل اور سابقہ صدر تو ہوسکتا ہے مگرکوئی بھی ،کبھی بھی اُسے ’’سابقہ مرحوم‘‘ نہیں لکھ پائے گا۔ وہ اس خطاب میں نہ تو کسی وڈیرہ اورٹکری کی حمایت لینے پر مجبور تھا اور نہ ہی ووٹروں،اورحامیوں کے رحم و کرم کا محتاج۔ بغیر کسی کمپین کے ، بغیر کسی کنوسنگ اور لابنگ کے اس نے یہ عہدہ حاصل کرلیا۔۔۔ اپنے ہی زوربازو سے۔۔۔ اور یہ اس کا وہ واحد عہدہ تھا جس کے حصول پہ ہمیں کوئی خوشی نہ ہوئی اورجس پر ہم نے اسے سخت برا بھلا کہا۔ اور گذشتہ تقریباً ربع صدی سے کہتے آرہے ہیں۔
زندگی ،رواں دواں زندگانی کا ،سب سے بڑا مگردلچسپ ترین معمہ ہے۔ مارکوئیز کے بقول ’’ زندگی ساری ایجادات سے بہتر ایجاد ہے‘‘ ۔ موت اُس کی لازمی ،منطقی ،متصادم و بنیادی تضادی ،صورت ہے۔اس اٹل حقیقت کو ہم نسل درنسل مانتے چلے آئے ہیں۔ مگر زندگی جب خود ہی اپنے قدر دانوں کو مارتی ہے تو بہت صدمہ ہوتا ہے۔ ۔۔اور،امیر الدین تو زندگی کے گیت گاتا تھا، زندگی کا ہار سنگھار کرتا تھا، اُسے جینے کے قابل بنانے میں لگا رہتا تھا، اُسے انسانوں کی بڑی اکثریت کیے لیے مقبول و محبوب بنانے کی جدوجہد کرتا تھا۔
ہم سید امیر الدین کی رفاقت سے اس عہد میں محروم ہوگئے جس میں لوگ دوستوں کے نہیں‘ مقام و دولت کے بھوکے ہیں۔ ہمارے اس آدمیت پرست ساتھی کے ہاتھ اُس وقت کاٹ دئیے گئے جب ان مصمم ہاتھوں میں تھامے بلند پرچم کو جھپٹ کر تھامنے اوراُسے جاودان و سربلندرکھنے کے لئے وافر ہاتھ موجود نہیں ہیں۔ اس انسان دوست شخص کا تعلق قحط الرجال والے بلوچستان سے تھا۔ہمارا بلوچستان بہت پیاسا ہے۔۔۔ پیاسا‘ بیک وقت بڑے انسانوں کے لئے بھی‘ اور اُن کے خون کے لئے بھی ۔ مگر انوکھی بات اب کے یہ ہوئی کہ بلوچستان نے اپنے اس بڑے آدمی کو تلوار سے نہیں ‘’’حادثے ‘‘سے مارڈالا۔
امیر الدین مر گیا۔ زندہ رہ جانے والوں کے لئے بڑا فریضہ مزید بڑا ہوگیا۔ ہمارے وطن میں سب سے بڑا کام اب سماجی تبدیلی لانا نہیں ‘ تبدیلی لانے والے ہاتھوں کو قائم رکھنا ‘ ہوگیا ہے۔ اور امیر الدین زندگی بھر اپنے ’’ہاتھوں‘‘ کی پرورش کرتا رہا، تربیت کرتا رہا ، ناز اُٹھاتا رہا ، بلائیں لیتا رہا۔ آپ ایسے عظیم ہاتھوں کو کوئی نام نہیں دے سکتے، آپ انہیں صرف امیر الدین ، عبداللہ جان،خدادئیداد،کمال خان،سی آر اور انجم قزلباش ہی کہہ سکتے ہیں۔ اور پھر یہ نام کہاں مستقل ہیں۔ آج ان ہاتھوں کو یہ نام دے رہے ہیں ،کل ہی انہیں سعید مستوئی ،نادر قمبرانڑیں ‘سائمن کانٹ اور ہیوگو شاویز پکارا جائے گا۔ بے ثبات ہیں نام ، ابدی ہیں ہاتھ۔ ہاتھ تبدیلی کے ، تغیر کے ، ارتقاء کے ، انقلاب کے۔ یہ ہاتھ چھوٹے خانوں،ناموں میں فٹ ہی نہیں ہوسکتے، چھوٹی املائیں ان سے لکھوائی ہی نہیں جاسکتیں۔
اورحیدر آباد دکن کی پیدائش والا سید امیر الدین بھی ہمیشہ ہی بڑے کام کرتا تھا۔ بڑے بنگلوں کے حصول کا نہیں، بڑی گاڑیوں کی ملکیت کا نہیں بلکہ اُس کانہ تو کوئٹہ میں ذاتی مکان تھا نہ کراچی میں۔۔۔ بے جائیداد مرنے والا پی ایچ ڈی،25 سال تک پرنسپل رہنے والا بے مکان۔۔۔ لا مکاں ، بیکراں ۔
امیر الدین ایک معروف ایجوکیشنسٹ تھا۔ بلوچستان میں سوئی کے گرامر سکول اور لورالائی ریذیڈنشل کالج کے بعد وہ ہیلپر سکول کوئٹہ میں بطور پرنسپل کئی سال تک پڑھاتا رہا۔ واضح رہے کہ ہیلپر سکول کا بچہ اپنی مخصوص تربیت کے حوالے سے بہت دور سے پہچانا جاتا تھا۔ میڈیکل کالج میں طلباء سے بات کرتے ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ امیر الدین کے زمانے کے ہیلپر سکول سے ہے یا مستنگ کے کیڈٹ کالج سے ۔ ہیلپرسکول کا بچہ بہت ہی پر اعتماد ، سر گرم اور گھل مل جانے والا ہوتا تھا۔ بہت وسیع النظر، روشن خیال اور بشر دوست۔ یہی تھی امیر الدین کی تربیت۔
ہیلپر سکول کی لائبریری قابل دید تھی۔سکول کی سالانہ تقریبات لائق ستائش تھیں۔اس کے علاوہ اس سکول میں زبردست ادبی تقریبات منعقد ہوتی تھیں۔ مشاعرے ، پروگریسورائٹرز ایسوسی ایشن کی ادبی تنقیدی نشستیں ،مباحثے ،۔۔۔ یہاں پروفیسر خلیل صدیقی آتا تھا، عطا شاد آتا تھا، مجتبیٰ حسین ،عبداللہ جان آتے تھے، خدائیداد ہوتا۔۔۔
ڈاکٹر امیرالدین عالمگیر سچائی کے قیام کا بڑا کام کرتا تھا، مسیحی اقلیت کو بم مارنے والوں کے خلاف ڈٹ جانا ، اغواکاروں کو اغوا گر قرار دینا،جیل میں پڑے بے گناہ کو چُھڑوانا،انسانی شرف و حقوق کی بحالی ،پروگریسو رائٹرز فورم کی مضبوطی،عوامی انقلابی پارٹی کی تنظیم کرنا‘جمہوریت کے احیاء کاکام ، انسان دوستی کے نظریہ کے فروغ کا کام۔۔۔ اس کی پوری زندگی انہی عظیم آدرشوں کی تکمیل میں مصروف گزری، اپنے دوستوں کے ساتھ اپنے بیلیوں کے ہمراہ۔ مگر جب اس مسلسل عمل میں کسی جھٹکے، کسی چھلانگ کی ضرورت پڑتی تو وہ دوسروں سے چوری چھپے اور سب سے پہلے تن تنہا میدان میں کود پڑتا۔
امیر الدین کوئی بہت گہرا دانشور نہ تھا ۔ اُس کی تحریریں اورتقریریں ادبی حسن و جمال میں یکتا اورممتاز نہ تھیں۔ لیکن وہ انسانی معاملات کی الجھی رسی کا سرا ہمیشہ تلاش کیے رہتا تھا ۔ وہ عام آدمی کی شعوری سطح کی بات کرتا تھا اور اُسی کی ذہنی استطاعت کو ساتھ لے کر معاملات ومسائل کی توضیح و تشریح کرتا تھا ۔ مگر، اُس نے بات کبھی نہ ادھوری چھوڑی اور نہ اُسے دھندلی یا گرد آلود رہنے دیا۔ اس نے ہمیشہ زندگی کے مسائل ترتیب دے کر بتائے اور اُن کا ممکنہ حل بھی پیش کیا۔ وہ صاف ستھرے اندازمیں اپنا موقف پیش کرتا تھا۔
امیر الدین کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ وہ ہر سٹیج اور موقع کو استعمال کرتا تھا۔ بزنجو کی فکر سے سختی کے ساتھ وابستگی کے باوجود وہ بیک وقت پیپلز پارٹی، جمہوری وطن پارٹی،ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان ، پاکستان سوشلسٹ پارٹی، ترقی پسند ادبی تحریک اور ٹریڈ یونین تحریک میں بھی شامل وموجود تھا۔۔۔۔۔۔۔ اور اِن سب کو قبول بھی تھا۔
اپنے نظریات سے اس کی وابستگی کی نوعیت بھی بہت دلچسپ تھی۔ مجبوریاں خواہ ’’ معروضی‘‘ ہوتیں یا ’’ موضوعی‘‘ امیر الدین بڑی بے پرواہی سے اپنی بات کہہ ڈالتا۔ اُسے نظریاتی اور سیاسی روایتی بحث کے دوران اونگھ آجاتی تھی۔ وہ تفصیلات میں کوئی دلچسپی نہ رکھتا تھا۔ مگر اپنے نظریات کے اصل مغز،اصل جوہر سے اس کی وابستگی حتمی تھی۔ کمیونزم کے ساتھ اس کا رشتہNSF والوں کا سارہا، جہاں نظریہ سازی کے بجائےActivism زیادہ ہوتا ہے۔ کراچی یونیورسٹی تھی(نفسیات میں،پی ایچ ڈی تو بعد میں امریکہ سے ہوئی) ،ایوبی آمریت تھی، ہلہ گلہ، پکڑ دھکڑ، جلسہ جلوس، ٹائرسوزی، جمہوریت بحالی نعرے اوردما دم مست قلندر ۔۔۔ یہ تھا پس منظر سید امیر الدین کے سیاسی ابھار کا ۔
امیر الدین نفرت کے باوجود بیوروکریٹوں سرمایہ داروں کے بیچ رہتا تھا۔ وہ اسے دھتکارتے نہ تھے مگر وہاں وہ Spoiled Child یعنی ’’ بگڑا بچہ‘‘ ہی کے بطور گردانا جاتا تھا۔ آذر کے اڈے میں رہتا تھا اور وہاں بلند آواز میں اُس کی ٹانگیں توڑنے کے ارادے کی بات کرتا تھا۔ امیر الدین مر گیا، درجن بھر سال گزر گئے ۔آذر شکنی کے ارادوں سے منور اس کے دیگر کئی ساتھی مر گئے مگر آذر کی ٹانگیں ابھی تک سلامت اور جواں ہیں۔آذر، ایک ایسا مہیب جانور جس کی سکرات بھی کئی زندگیوں پہ محیط ہے!
چنانچہ وہ صرف سرداری، جاگیرداری نظاموں کے لئے ہی مسئلہ نہ تھا، وہ اپنے ہم فکروں کے لئے بھی ایک پرابلم تھا۔ جس وقت ہم روایت پرستی پر گامزن ہوتے تو وہ اچانک’’ سبت‘‘ کے مقدس دن پرائی فصل توڑ کر کھانے لگ جاتا، ’’ نا مناسب ترین‘‘ حالات میں کسی’’ نا مناسب ترین‘‘ جلسے میں اپنے پکے کمیونسٹ ہونے کا اعلان فرمادیتا ۔ ہمارے سٹڈی سرکل سے بے زاری اور نیند سے بوجھل آنکھوں سے اُٹھا تو نواب اکبر بگٹی کی زیر صدارت سیمینار میں خود سٹڈی سرکل شروع کرڈالا۔ یہاں اپنے رسالے کے اداریے کی بحث میں بے زاری سے بیٹھا ہے تو وہاں’’ المرتضیٰ‘‘ لاڑکانہ میں جا کراداریہ جیسی تقریر کر ڈالی۔ ہم دیکھتے رہ جاتے اور وہ فارمیلٹی کے ’’ لات‘‘ کو لات اور ’’ منات‘‘ کو دو لتیاں مارتا نکل جاتا۔
امیر الدین عمومی طور پر اچھا سامع تھا۔ وہ آپ کی بات سنتا تھا، آپ سے مشورہ کرتا تھا، آپ سے قائل ہوتا تھا، آپ کے مشورے پر چلتا تھا۔ مگر امتحان کی مخصوص گھڑی پہ آپ کے سارے مشورے، آپ کی رہبری، آپ کی راہنمائی دھری کی دھری رہ جاتی۔اور وہ اپنے ہی انداز میں مورچے میں موجود ہوتا۔ اس شخص نے زندگی بھر کوئی بے ڈھنگا کام نہ چنا تھا۔ وہ ہمیشہ ہی ڈھب کا ، ڈھنگ کا کام چنتا تھا مگر اسے کرتا بڑے بے ڈھنگے انداز میں تھا۔ مروج کو کبھی مانا نہیں،روایت پہ کبھی چلا نہیں۔ اب دیکھئے نا،موت کتنے ڈھنگ کی مظہر ہے،منطقی ،مدلل اور حتمی مظہر۔ مگر اس نے اسے بھی انتخاب کا حق نہ دیا، نہ زماں کا حق نہ مکاں کا حق۔ موت ہکی بکی، ہم ہکّے بکّے ۔۔۔ یہی تھا امیر الدین کا سٹائل۔
پرویز مشرف کے مارشل لا کی بھر پورجوانی کے زمانے میں ہیلپرز ایسوسی ایشن کے رجعتی کمانڈروں نے امیر الدین کواس سکول سے نکال کر ایک محفل اُجاڑ دی۔وہ ہیلپر سکول جو نصابی اور غیر نصابی محفلوں کا مرکز ہوتا تھا، اُسے کر گس لے اُڑے۔ ظلمتوں کے امین لوگوں کی راجدھانی میں علم کا متقاضی، معصوم امیر الدین جتنی اصلاح کرسکتا تھا، کر گیا۔۔۔ آگے کسی کو تو ٹوٹنا تھا، Contentنے یا شیل نے۔ یہاں شیل مضبوط نکلا،نیوکلیس کو ہی نکال باہر پھینک دیا۔ راجہ احمد خان بلوچستان میں جس طرح کی تعلیم چاہتا تھا، ویسی ہی کی راہیں کھل گئیں۔۔۔۔۔۔
امیر الدین بہت بہادر شخص تھا۔ اس کے ہم عصر دانشوروں اور سیاستدانوں کے اندر جرأت اور بے باکی میں اس کاکوئی ثانی نہ تھا۔ ہیلپرز سے نکالے جانے کے بعدمعاشی مشکلات کو جس خندہ پیشانی سے امیر الدین نے قبول کیا تھا شاید ہی کوئی اور کرسکتا ہو ۔ اس نے مہنگی محفلیں سجانی ترک کردیں ، سفر مسافری چھوڑدی، اخبارات کی تعداد کم کردی، سموکنگ ختم کرنے کے بہانے گولڈ لیف پینے چھوڑ دئیے۔۔۔کسی کو بتائے بغیر ،کسی سے شکوہ کئے بغیر ۔ نیم سرکاری تجارتی تنظیموں سے بڑا ظالم کوئی ادارہ ہو ہی نہیں سکتا۔
امیر الدین کی بہادری اور جرأت کے بھرپور جوہر ہم نے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان، HRCP میں دیکھے۔ ایسی ایسی فورسز سے ٹکر لی اُس نے جس کا تصور تک ممکن نہ تھا۔ اس سلسلے میں وہ بلوچستان کے ایک ایک کونے میں گیا۔ تربت، گوادر، پنجگور، لسبیلہ،ژوب، پشین،نوشکی، ماوند، سبی۔۔۔ بہت سی نئی شاخیں کھولیں ، بہت سے نئے ممبر بنائے۔ کتنے سیمینارز کیے۔ کتنی ورکشاپیں کرائیں۔ بہادری اور استقامت کے ساتھ مارشل لاؤں کی مخالفت کی ، اس حد تک کہ جمہوریت کے نام نہاد’’ بیج بردار ‘‘ تک اسے ’’ ’’درست، مگر جذباتی‘‘ کہہ ڈالتے۔ وہ نواب زادوں کی الف رسوا ڈیموکریسی ،اور نم زدہ کیڑوں کی جمہوریت نوازی کی اصلیت بھی جانتا تھا‘ اُسے نعم البدل بھی نظر نہ آتا تھا مگر پھر بھی وہ مارشل لا مخالفت کو اپنی آدرش کا حصہ جان کر اس کی مخالفت پر تلا رہتا۔
امیر الدین کو اشعار بہت یاد تھے ، غالب و میر تو خیر تھے ہی ‘ وہ بالخصوص فیض و جالب و فراز کا حافظ تھا۔ چاہیں تو ایک شعر سن لیں چاہیں تو صفحوں کے صفحے ۔ موقع کی مناسبت سے اس کی یادداشت کا کمر بند ہمیشہ اشعارکی کارتوسوں سے بھرا رہتا۔
وہ بہت زندہ دل شخص تھا، محفل پسند تھا۔ پکنک پرست تھا۔ ہاؤ ہو،دیوان ، مچی ، اکٹھ، مشاعرہ، موسیقی، فلم۔۔۔ اور عشق اس کے محبوب شعبے تھے۔ مشاعروں میں وہ دو چار ہم رنگ دوست منتخب کرکے ایک کونے میں بیٹھ جاتا اور بجائے روایتی’’ واہ واہ‘‘ کہنے کے بہت ہی تخلیقی فقرے چست کرتا، تبصرے اچھال دیتا اور ایک زبردست گرمجوشی کی فضا پیدا کرتا۔ پاکستان میں اگر کوئی ہوٹنگ کلب ہوتا تو امیر الدین اس کا ’’تاحیات‘‘ چیئرپرسن ہوتا اور اگر فوجی حکومت تا حیات والے ڈرامے کے خلاف آرڈیننس جاری بھی کرتی تب بھی وہ دبئی،انگلینڈیا سعودی عرب میں رہ کر غائبانہ پانچ سالہ صدر منتخب ہوتا رہتا۔
ڈاکٹر صاحب زبردست حسِ مزاح رکھتا تھا۔ بر جستہ فقرے جیسے جیب میں لئے پھرتا ہو۔ وہ بہت ہی اچھی اور بہت ہی ’’نا ‘‘معصوم گالیاں ایجاد کرتا رہتا تھا ۔ وہ شعروں کی زبردست پیروڈی تخلیق کرتا تھا، معصوم بھی اور غلیظ بھی۔
امیر چونکہ عمر بھر بچوں کو پڑھاتا رہا۔ اس لئے اسے بچوں کی نفسیاتی اور ذہنی تربیت کا بہت خیال تھا ۔ وہ ہمہ وقت بلوچستان کے بچوں کو انسان دوست سوچ عطا کرنے، سائنسی ادراک دینے،اور آزادانہ تفکر کے قابل بنانے میں لگا رہتا۔
وہ دوسرے بچوں کی طرح خود اپنے اندر موجود بچے کا بھی بہت خیال رکھتا تھا۔ اس برگزیدہ نے ہم عام انسانوں کے برعکس اپنے اندر موجود بچے کا گلا نہیں گھونٹا تھا بلکہ اس کے اندر کا یہ بچہ جب چاہتا مچل کر معاملات کا سٹیرنگ اپنے ہاتھ میں سنبھال لیتا، تب قریبی احباب ہر طرح کی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے تیار ہوجاتے۔ مگر وہ بچہ بہت جلد اچھا بچہ بن جاتا۔ انٹی بایوٹکس اور انلجزک اس پر فوری اثر کرتا تھا۔ شرط یہ کہ دوا بھرو سے والا ڈاکٹر دیتا۔
ڈاکٹر کی بات آئی تو یہ بھی جان لیں کہ وہ بیماری میں بہت ہی بزدل شخص تھا۔ ذرا سی تکلیف پر آہ و بقا، فریاد و فغاں۔۔۔ آسمان سر پہ اُٹھالیتا۔ مسوڑھے کے انفیکشن میں کراچی داخل ہوا تو شک کینسر کا گزرا۔ جناب نے پوری مملکتِ ’’ خدائیداد‘‘ میں موجوداپنے تمام دوستوں کو بقلم خود ٹیلی فون فرما فرما کر اس مبارک بیماری کی اطلا ع کردی، اور اس بے وفا دنیا میں صرف دوچار دن رہ جانے والی اپنی زندگی کے لئے ماتم شروع کر دیا۔ جب اِس غلط اطلاع پر سر زنش ہوئی تو ذرا سی شرمندگی میں کہنے لگا’’ ہاں! یار مجھ سے ۔۔۔تیاپا ہوگیا‘‘۔ اسی طرح بلڈ پریشر کم ہونے یا تیزی سے اُٹھ کھڑے ہونے پہ کبھی کبھار چکر سا آجاتا۔ پھر کیا تھا۔۔۔ ہائے، دھائی، ٹیلی فون ،بیوی بچوں کو ایمر جنسی کے نفاذ کا کہتا۔
’’ ڈاکٹر کو بلاؤ۔ ابھی تک آیا کیوں نہیں؟‘‘ مگر مجھ بے چارے کے پہنچتے پہنچتے وہ فون پر اٹھارہ ڈاکٹروں سے نسخے وصول کرچکا ہوتا۔ دس پندرہ منٹ میں جب میں پہنچتا تو موصوف بڑے سکون و آرام سے بستر پر موجود ہوتا اور دو تین منٹ کے حال احوال کے بعد عملاً مارکسزم پہ تقریر بھی شروع کرتا ۔ تین چار ز کاموں اور ایک آدھ بخار میں بھی‘ ہنگامی طور پر بلائے جانے پہ ایک بار ہنستے ہوئے میں نے کہا تھا’’امیر الدین ‘ کسی روز واقعی شیر آئے گا۔۔۔‘‘ ۔ اور واقعتا ایک روز (14جولائی 2002 بروز اتوار) وہ منحوس شیر آہی گیا اور شال کی وادی کے اس خوبصورت بیٹے کو بڑی بے دردی سے متحرک زندگی سے پرسکون مادے میں ڈھال گیا۔ کاش ، طب کی ترقی اس شیر کے پنجے گنجے کردے۔
انتقال سے بارہ گھنٹے قبل تک ہم اکٹھے تھے۔ شہر کوئٹہ کی پرافتخار بیٹی اور ترقی پسند ادیبہ و دانشور محترمہ افضل توصیف‘ ثاقبہ رحیم الدین کے سرکاری قلم قبیلہ کی ادبی تقریبات میں شرکت کے لئے آئی ہوئی تھی اوروہیں قلم قبیلہ کے ہاسٹل میں ٹھہری ہوئی تھی۔ڈاکٹر امیر الدین،پروفیسر برکت، محترمہ ثبینہ رفعت ، افضل مراد اور میں وہیں ان سے ملنے گئے اور رات بارہ بجے تک عالمی لٹریچر، پنجابی اور بلوچی ادب کی صورتحال، ترقی پسند ادب اور ادبی تحریکوں کے بارے میں گفتگو ہوتی رہی۔ اگلی صبح مجھے افضل توصیف کو میر عبداللہ جان جمالدینی کے پاس لے جانا تھا اور گیارہ بجے اسے واپس قلم قبیلہ پہنچانا تھا جبکہ ڈاکٹر صاحب کی ڈیوٹی اپنی بیگم کو ایئر پورٹ پہنچانے کی تھی۔ چنانچہ اس اتوار کو’’ بلوچستان سنڈے پارٹی‘‘ میں ہماری اجتماعی ملاقات کا کوئی امکان نہ رہا۔ چھٹی کا باقاعدہ اعلان ہوا۔
اگلی صبح نو بجے ہم یعنی محترمہ افضل توصیف ‘ میں‘ پروفیسر برکت علی اور محترمہ ثبینہ رفعت ایک پرائیویٹ ہسپتال میں افغانستان سے آئے ہوئے ممتاز بلوچی ادیب وماہرِ لسانیات جناب عبدالرحمن پہلوال کی عیادت کے لئے گئے۔ آدھ گھنٹہ اس کے ساتھ رہ کر ہم ماما عبداللہ جان کے گھر گئے اور وہاں سے گیارہ بجے دوستوں کو واپس پہنچا کر میں بارہ سوا بارہ بجے گھر پہنچا۔ اور ٹھیک ساڑھے بارہ بجے فون پہ جناب امیر الدین کے حادثے کے سور پھونکے جانے والی اطلاع ملی۔ اس کے نوکر نے کہا کہ وہ سخت زخمی ہے اور بے ہوشی میں بار بار آپ کو بلا رہا ہے۔ دس پندرہ منٹ میں جب ہسپتال پہنچا تو وہ پہلے ہی شعبہ حادثات سے نیورو سرجری وارڈ بھجوایا جاچکا تھا۔ نبض نہ تھی ، بلڈ پریشر نہ تھا، محض سانس تکلیف دِہ طور پر چل رہی تھی۔ سخت بے چین تھا، تڑپ رہا تھا۔ آکسیجن کا مطالبہ کررہا تھا۔ ای این ٹی کے ڈاکٹر سلطان نے ناک کی پیکنگ کرکے خون بندکردیا۔۔۔ ڈیوٹی پر موجود نر س ہنگامی حالت میں اس عجیب و غریب مریض کو بچانے میں لگی تھی۔ یہاں کا اپنا ڈاکٹر موجود نہ تھا، میں جنرل سرجری کے رجسٹرار کو ساتھ لایا کہ کسی طرح نبض کی بحالی کی سبیل ہوسکے اور نیوروسرجن کچھ کرسکے۔ ہم چار پانچ لوگ اُس وقت دنیا و مافیہا سے بے خبر ایک ایسے شخص کی موت سے لڑائی میں اُس کی کمک میں سرگرم تھے جس نے ساری زندگی ،زندگی کے افتخار کے لئے کام کیا تھا۔ ہم اپنا علم، موت و زیست کی جنگ میں مصروف اُس شخص پہ نچھاور کررہے تھے جس نے سینکڑوں ہزاروں بلوچستانیوں کو علم کے نور سے منور کردیا تھا ۔ ہم ڈرپ اور انجکشن لگانے اس انسان کے وہ پیر چھورہے تھے جو ہمارے حقوق کے لئے سرزمین بلوچستان کے کونے کونے گھومے تھے۔ ہم جنون کی حد تک اس مجنون کو بچانے میں لگے ہوئے تھے جس نے حوا کی بیٹی کی تکریم کے احیاء کے لئے پاگلوں کی طرح جدوجہد کی تھی۔۔۔ اس کی نبض کی بحالی کے لئے یہ ساری تگ ودو، یہ ساری بھاگ دوڑ ناکام ہوئی اور آدھ گھنٹہ کے اندر ایک متحرک،فعال اور خندہ و برشکندہ زندگانی ابدی خاموشی میں ڈھل گئی اور ایک ہی سیکنڈ میں اس کے معالج اس کے لواحقین بن چکے تھے ۔ رور ہے تھے اور ایک دوسرے کو خاموش کروارہے تھے۔
غیبے زئیوں،رندوں، رئیسانیوں ، احمدزئیوں، بگٹیوں،مریوں،لانگووں،گچکیوں، بلیدیوں،محمد حسنیوں،ناصروں اور لونڑیوں کی برادر کش قبائلی جنگوں میں زبردست خدمات سرانجام دینے پر ملک الموت کو انعام کی صورت میں ڈاکٹر سید امیر الدین عطا کردیا گیاتھا۔ شایانِ شان انعام! ۔بلوچستان آتے جاتے ملک الموت پر بلوچستانی ثقافت کا اتنا اثر ہوا کہ اُس نے قبیلے میں موجود سب سے بہادر ،سب سے متحرک اور سب سے نامور دشمن کو قتل کرڈالا۔ وہ اپنے اس انتخاب پر بجا طور پر فخر کرسکتا ہے۔
اپنے محبوب ترین دوست کے بستر مرگ پہ موجود میری شدید تنہائی کے احساس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ جو شخص ہمہ وقت ہنستا تھا۔ چھیڑتا تھا،تکرار کرتا تھا ‘ کام کرتا تھا اورہاتھ بٹاتا تھا، آج خود اپنے بے شمار کام میرے کندھوں پہ چھوڑ کے چلتا بنا۔ جو شخص آخری سانسوں میں میرا نام لے رہا تھا، اب میرے پکارنے،چیخنے ،رونے ،دھاڑنے پہ ٹس سے مس نہ ہورہا تھا۔ نہ چھٹی کی درخواست نہ موت کا کوئی نوٹس ۔ اس کی اس غیر ذمہ دارانہ حرکت کی خبر ذمہ داری کے ساتھ اس کے دوستوں تک پہنچانا فوری کام تھا۔
کون الفاظ ڈھونڈے اور کون اس پہلودار شخص کے دوستوں کا سراغ لگائے! سوجو یاد آیا، جس کا نمبر پاس تھا، اسے ملک الموت کی چیرہ دستی کی شکایت پہنچادی ۔ بھلاکون امیر الدین کے اس باؤنسر کے لئے تیار تھا؟۔ شہرِ جاناں میں دو طرح کے اس کے دوست تھے۔ ایک وہ جنہیں زندگی کا طویل و پیچیدہ پراسیس جسمانی و ذہنی طور پر اتنا اکھاڑ پچھاڑ چکا تھا کہ انہیں سینئر دوست کہا جاتا ہے۔ اور دوسری کٹیگری ان دوستوں کی ہے جو ابھی نہ گرم دیدہ ہیں نہ سرد چشیدہ ، اپنی لااُبالی میں مست ہیں۔ سو اِس کریہہ موقع پر موجود ہونے،صلاح مشورہ میں حصہ دار بننے اور حتمی فیصلوں کی رسائی تک ساتھ ہونے کے قابل دو چار ہی تو لوگ تھے ۔ ارے امیر الدین، اس بے وقت کی کارروائی سے تمہیں کیا ملا؟۔
سول ہسپتال کے شعبہ حادثات میں موجود ڈاکٹروں کی انتہائی محبت اور پیشہ وارانہ بھائی چارے کے جذبے نے کئی مسائل حل کردئیے۔ سرکار سوشل سیکٹر سے کب کا ہاتھ کھینچ چکی ہے، لہٰذا مردہ خانے کا کیا انتظام ہوگا۔ انہی ڈاکٹروں نے کاسی کیژوئلٹی کے آپریشن تھیٹر کے ایک کونے کو مردہ خانہ بنا ڈالا۔(واضح رہے کہ بلوچستان میں سماجی خدمات کی یہ واحد بڑی عمارت ہے جو کسی فرد نے انسانوں کی خدمت کے لئے وقف کی ہو اور اس عظیم فرد کا نام عبداللہ جان کاسی تھا) ۔ جیئند او ر شیھک برف کی سلیں لائے۔جنہیں اُس کے بیڈ کے نیچے اور پہلوؤں میں رکھ دیا گیا۔ ساتھی لوگ ایک پیڈسٹل پنکھا بھی کسی سے پکڑ لائے اور اس طرح سرکاری دیواری پنکھے اور ایک پیڈسٹل فین کی مددسے برف کی سلوں نے میرے یار کے لئے سرد خانے کا کام کیا۔ امیر الدین کے سینے کی آگ کی حد ت جو تباہی لاچکی تھی، اب اس کے بعد برف کا انتظام کتنا غیر ضروری لگتا تھا۔
پروفیسر برکت علی ،طاہر محمد خان،آغا سرور ، دوستین، جیئند ،شیھک ،سیف الدین بوہرہ۔۔۔ سب دوست آچکے تھے۔ ہر چہرہ مرجھایا، ہر آنکھ آبدیدہ۔ ہم چار بجے تک کراچی سے ڈاکٹر صاحب کے عزیزوں کی طرف سے پوسٹ مارٹم کرانے یا نہ کرانے کے فیصلے کا انتظار کرتے رہے۔ دوسرا بڑا معاملہ اسے کوئٹہ یا کراچی میں دفن کرنے کا تھا۔ وہ بھی ہم نے اس کے بیوی بچوں پر چھوڑ دیا۔ اگر وہ کراچی کا کہتے تو وہاں تک پہنچانے کا انتظام کرنا تھا۔ اگر وہ کوئٹہ میں تدفین کی اجازت دیتے تو کاسی قبرستان یا سریاب میں سے کسی کا انتخاب کر نا تھا ۔ چنانچہ دونوں باتوں کے لئے ضروری تیاریوں کا جائزہ لینے لگے۔
طاہر محمد خان مجھے ساتھ لے کر مولانا عمر فاؤنڈیشن کی ایمبولینسوں کا جائزہ لینے لگا۔ وہاں ایئرکنڈیشن گاڑیاں نہ تھیں۔ سادہ گاڑیاں سب کی سب حاضر۔ مولانا مرحوم تو ہم سب کے اکابرین میں سے تھا۔ ساری زندگی علم دوستی کرتا رہا۔ ساری زندگی سامراج دشمنی کرتا رہا۔ اس کے نام نامی سے منسوب فاؤنڈیشن ہمیشہ سے ہماری نظروں میں قدرو شرف کا مرکز رہا ہے۔ بڑا آدمی تھا مگر بڑے بلوچستان میں گم ہوجاتااگر اس کے اپنے فرزنداِس کے نام کو زندہ نہ رکھتے۔ اس کا نام رہتی دنیا تک قائم رہے، شالا۔
اسی اثناء میں کراچی میں موجود اُس کے خاندان والوں(اُس کی بیگم ثریا، بیٹی منیزہ اور بیٹی عائشہ۔ بیٹا دارا پاکستان سے باہر امریکہ میں محنت مزدوری کرنے گیا ہوا تھا) نے مجھے فون کرکے پوسٹ مارٹم نہ کرانے کا حکم دیا۔ اور بہت بحث و مباحثہ کے بعد تدفین کے لئے کراچی کا انتخاب کیا۔اور مجھے اُس کی میت کراچی لے آنے کی ہدایت کی ۔
عبدالستار ایدھی نے پتہ نہیں کس کس سے روزی کے ہیچ ذرائع چھین رکھے ہیں۔ دنیاوی جھمیلوں میں غرقاں کبھی کبھی آپ بہت ہی اہم باتیں بھی نوٹ نہیں کرسکتے۔ ایدھی سنٹر نے ہمارے دوست کو غسل دلایا، فارملین لگایا، کفن لپیٹا، تابوت میں ڈالا اور نماز جنازہ پڑھوائی۔۔۔ بہت احترام کے ساتھ، بہت ملائمت ،اپنائیت کے ساتھ۔ اب میں سمجھا کہ ملّا اور ایدھی کی دوستی کیوں نہیں بن رہی۔
ڈاکٹر شمیم درانی سول ہسپتال کا ایم ایس ہے۔ طاہر محمد خان نے اس سے ایمبولینس مانگی۔ ہماری اس سے ذاتی شناسائی نہیں ہے۔ چنانچہ ہم نے محض میڈیکل پیشے سے اپنی وابستگی اور حالیہ ذمہ داری بتائی۔۔۔ بغیر کسی اگر مگر کے اس نے ’’ وی آئی پی‘‘ ایئر کنڈیشنڈ ایمبولینس ہمیں دیدی۔ نہ’’ صاحب سویا ہوا تھا‘‘ اور نہ ہی کسی ضروری ’’میٹنگ میں مصرو ف تھا‘‘۔ نہ ’’حکام بالا سے اجازت ‘‘کا ڈرامہ ہوا ۔ نہ ’’ درخواست بھروانے‘‘کی کاروائی ہوئی۔ اور نہ ہی ’’ گور نر وزیر کو ضرورت پڑنے‘‘ کا خدشہ جتلایا۔ وہ زندہ باد ہوں۔
سفر کے لئے ضروری سامان لینے گھر پہنچا تو گیٹ پہ خود کو بہت نارمل اور کمپوزڈبنا کر داخل ہوا۔ مگر میں غلط سمجھا تھا۔ امیر الدین کی موت سے میراپورا گھر انہ مغموم تھا۔ ہر بچے کو جو کہہ رکھا تھا کہ ’’ مجھے بڑے بھائی کی جگہ سمجھو‘‘۔ میری والدہ کی عیادت کے لئے میاں بیوی کا تسلسل سے آنا جانا، دعوتوں، میٹنگوں کے سلسلہ میں آمدورفت ، ٹیلی فون پہ اکثرہماری بات چیت۔۔۔ بچے انہی چیزوں سے تو اپنائیت لیتے ہیں۔ سال دو سال قبل میر ے بڑے بیٹے کی شادی پہ وہ میرے گاؤں ماوند تک آیا تھا۔ میرے بڑے بھائی میر و خان سے بہت پیار کرتا تھا ، اس سے بحثیں چھیڑتا تھا،ہنستا ہنساتا تھا ۔ حال ہی میں دعوت پہ میرے گھر آیا تو واپسی پہ میرے بھتیجے کے جوتے کو اپنا سمجھ کر پہن گیا ۔ تین دن بعد ہی بھائی صاحب کو احساس ہوا کہ جوتے اپنے نہیں ہیں۔ میرے نواسے کی پیدائش پہ مبارکباد کے لئے آیا۔ میرے گھرانے کے ایک ایک فرد کو جانتا تھا۔ اُسے ہمارا بلوچی لباس کلچر بہت پسند تھا ۔ اپنی ہنس مکھ طبیعت میں جیسے وہ گھر کا فرد ہو۔ چنانچہ میری بناوٹی لاتعلقی بیکار گئی اور میرے گھرمیں اس ’’ محبوب انکل‘‘ کی موت کا غم مکمل طور پر طاری تھا۔ اسی محبت پہ ہزاروں لوکل سرٹیفیکیٹ قربان ہوں۔
ہماری بڑی خواہش تھی کہ امیر الدین یہیں بلوچستان میں دفن ہو۔جس شخص نے سوئی، لورالائی اور پھر کوئٹہ، سریاب میں 30,25برس تعلیم کا نور پھیلایاہو، جس نے اپنی شناخت بلوچستان بنا لی ہو، جس کے دوستوں کی اکثریت کا تعلق اس سرزمین سے ہو، جس شخص کا ہیرو غوث بخش بزنجو ہو، جس کے ساتھی عبداللہ جان و خدائیداد ہوں ، جس نے بلوچستان میں انسانی حقوق کی سربلندی پہ باقاعدہ جدوجہد کی ہو اور جو شخص پوری زندگی یہاں کے افتادگانِ خاک کو معزز و معتبر بنانے کی لڑائی لڑا ہو۔۔۔ اس شخص کو تو یہیں اسی سرزمین کے عین دل میں دفن ہونا چاہئے تھا، ہمارے ساتھی کی حیثیت سے، ہمارے بزرگوں کے درمیان۔
مگر ہمیں اس کے خاندان کی خواہش کی تکمیل میں کراچی روانہ ہونا پڑا۔ چونکہ امیر الدین اب زندہ نہ تھا اس لئے پہلی بار مجھے فرنٹ سیٹ پہ جگہ ملی۔ اورامیر الدین پہلی بار نمبر دو کی حیثیت قبول کرنے پہ تیار ہوا تھا۔ وہ پچھلی نشست پہ لکڑی کے تابوت کے اندر برف کے ٹکڑوں میں بے حس و حرکت پڑا تھا۔۔۔ پھر بھی مرکز تو وہی تھا، سب کچھ تو اسی کی شخصیت کے گرد گھوم رہا تھا۔ وہی رلا رہا تھا، وہی سرد آہیں ہچکیاں بھروارہا تھا۔ وہی خود کو یاد کروارہا تھا، اپنی تعریفیں کروا رہا تھا۔ ہم پھر اس عامل کے معمول بن گئے تھے۔۔۔ ایسا لیڈر تھا امیر الدین جو مرکر بھی ہمیں ہانکے جارہا تھا۔
یہ سفر اپنی نوعیت کا منفرد سفر تھا۔ اُس کا ساتھ تو تھا مگر نہ تو اُس کے معاشقوں کے قصے تھے نہ شاعری تھی، نہ لطیفے، نہ بحث مباحثہ۔ نہ پروگریسو رائٹرز، نہ عوام الناس کی غربت و افلاس سے نجات کی باتیں۔۔۔ بس ایک حتمی خاموشی تھی۔ ہمارے سفر کاا میر کچھ بھی نہ بولتا تھا۔ میرا راہنما مزدوروں غریبوں کے لئے اپنی خدمات پہ مطمئن تابوت میں لیٹا تھا۔ اب نہ وہ یہ جانتا تھاکہ یہ مستونگ و کھڈ کوچہ ہے جہاں لانگو قبیلہ کے غریب ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے پر لگادئیے گئے ہیں، نہ اب اسے یہ خبر تھی کہ یہ قلات ہے جو ایک جمہوری، خوشحال اور ترقی پسند معاشر ے کا ہیڈ کوارٹر بننے کے بجائے پستی و پسماندگی کا نشان ہے۔ وہ اس پہ بھی خاموش تھا کہ رابعہ کی خضدار یونیورسٹی کے بچے نہ تعلیم پاتے ہیں، نہ روزگار۔ آج امیر الدین حب کے شہر میں بلوچستان کی تباہ ہوتی ہوئی صنعت اور بے روزگار ہوتے ہوئے مزدوروں کے بارے میں کسی تقریر کا نہیں سوچ رہا تھا۔۔۔ اس قدر اچھے ہم سفر کے ساتھ اس قدر بور سفر۔۔۔ میں تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔
بلوچستان کی سڑکوں کا ایڈز،تو انڈیا کی فلمیں اور گانے ہیں ۔ ذرا سا بڑا ہوٹل آیاوہیں پہ یہ زہر دستیاب ہے۔ بلوچستان میں جاری قبائلی جنگوں کی تعدادمیں اضافہ کرنے اور انہیں پرتشدد بنانے میں ان فلموں گانوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ ہماری سڑکوں پہ نہ مست وجوانسال ہوتے ہیں، نہ مہناز و توکلی۔ بیورغ، چگھا، عبدالعلی،شہ مرید ، نورا‘نورل،حانی سمو کچھ بھی نہیں۔۔۔ ہماری سڑکیں بانجھ ہیں۔ وہاں صرف ہندوستانی فلموں کی ننگی عورتیں واہی تباہی مچاتی ہیں،جن کا ہیرو عبدالقدیر خان ہے اور جہاں کا ولن ابوالکلام۔ نہ امین کھوسہ ہے نہ بزنجو ، نہ بخت نامہ ، نہ گل بی بی۔ ہم سے ہماری ثقافت کی برکت ،ہم سے ہمارا بھاری پن بے دردی سے نوچے جارہے ہیں۔500 میل میں کہیں بھی بلوچ دستکاری کی دکان نہیں،کہیں بھی بلوچ نیک آدمی کا مجسمہ نہیں،کہیں بھی بلو چ کا چنگ ، سریندا ،شفیلی، دونلی نہیں بکتے۔۔۔ یا تو آپ کو پسماندگی کی مکروہ علامت کے بطور ایک تنہا کھڑی بلوچ جھونپڑی نظر آئے گی یا پھر ضیاء الحق اور عرب شیخ کے مدرسے ملیں گے۔ پولیس تھانے یا فوجی چوکیاں نظر آئیں گی یا پھر ہوٹلوں ،پنکچر کی دکانوں، بسوں،ٹرکوں اور سگریٹ کی دکانوں میں ہندوستانی لچر اور پرتشدد گانے۔ کہیں کہیں البتہ آپ کی آنکھوں کو ٹھنڈک عطا کرنے والے ایدھی سنٹر نظر آئیں گے۔ ان کی ایمبولنسیں دوڑتی پھرتی نظرآئیں گی۔ باقی سارا دیس ملاّؤں کا ہے ، سارا وطن وار لارڈز کا ہے۔ کوئی امیر الدین نہیں ،کوئی عنقا نہیں ، آزاد نہیں، گل خان نہیں، مرادساحر نہیں۔۔۔ سب کو تاریک ترین قوت نگل گئی۔ یہ سارے مسیحا ‘ہتھکڑیوں جولانوں کی صلیبیں اُٹھائے یروشلم بلوچستان کی گلیوں میں گھمائے گئے اور کلوری کے پہاڑ پہ معدوم ہوئے۔
بلوچستان کی سڑکیں یا تو کراچی کے رجعتی صنعتی شہر سے آتی ہیں یا پھر پسماندہ، قدامت پرست انگریزی کیمپ فالوئرز کے شہر کوئٹہ سے۔ اس لئے وہاں سے سائنسی سوچ ، آزادانہ تفکر اور شعور و آگہی کی آمدورفت کا امکان تک نہیں۔ یہی عقیدتی بنیاد پرستی ، قبائلی بنیاد پرستی میں بری طرح خلط ملط ہوکر مستقبل کے بلوچستان کی تشکیل کررہی ہے۔
امیر الدین کی بارات میں کل تین گاڑیاں تھیں۔ اس بارات پہ پھول تھے نہ سجاوٹ۔ یہ سادی ماتمی گاڑیاں تھیں۔ ایک میں وہ خود جلوہ افروزتھا، دوسری ایدھی صاحب کی ایمبولینس تھی اور تیسری ظفر ہاشمی کی موٹر کار ۔ اور براتی بھی کیا براتی۔۔۔ ایک فقرہ کہو تو با جماعت روپڑیں ۔ برکت بھی بھلا کوئی براتی ہے؟ ۔ پہلے ہی لیفٹ کی سیاست پہ مسلط دائمی یوم عاشور پہ سینہ پیٹتا رہتا ہے۔ اب ایک اور چلتن امیر الدین مر گیا تو برکت میں بچا کیا ہے؟۔ ایک سرور آغا ، جونیشنل ورکرز پارٹی کا صوبائی کنوینر ہے، پہلے ہی چبا چبا کر بات کرتا ہے آج تو دین کے امیر نے زبان بندی ہی جاری کردی، تیسرا باراتی ظفر ہاشمی ہے۔ زور سگریٹوں پر، بار بار پانی پیتا ہے، اپنے پسندیدہ موضوعات کے ہاتھوں مجبور، امیر الدین کے دسیوں معاشقوں کے قصے سنانے لگتا ہے۔ مگر حاضرین کو بہت ہی رنجیدہ دیکھ کر جھینپ جاتا ہے۔ سو خاموشی۔ امیر الدین نے ایک بار بھی سر اٹھا کر نہ کہا’’ ارے بھئی کچھ بولو بھی‘‘۔
پوری رات سفر میں یادِ یار کی زلف کے تاروں کو سہلاتے گزری اور صبح چھ بجے ہم کراچی میں داخل ہوئے۔ موبائل فون نے کام کرنا شروع کردیا۔ موبائل پہ احمد بن محمد کے اس استفسار پہ کہ تم لوگ کہاں پہنچے ہو، ہم انہیں بتارہے تھے کہ یہ کراچی ہے یا کلاچی ہم تو سسی کو اس کی ریت میں گاڑنے پہنچ گئے ۔ لوگ محبوبہ کی محبت میں موبائل خریدتے ہیں اور ہم محبوب کی جدائی کی خبر نشر کررہے تھے ۔
ہمارا استقبال پاکیزہ اور خالص ترین آہوں، سسکیوں سے ہوا۔ ہم ایک لمحہ درِ یار پہ رک کر پھر ایدھی صاحب کے دربار پہنچے کہ ظہر تک میت اس کی امانت گاہ میں رکھنے کا حکم ہوا ۔ اس کے ایئر کنڈیشنوں سے یخ کردہ امانت گاہ میں بیسیوں بے نام اور نامعلوم مسافر پہلے ہی موجو د تھے جو سب کے سب نچلے طبقے کے تھے۔ واپس ماتمی گھر آئے، کچھ دیر سوگوار خاندان کے ساتھ درد بانٹتے رہے ۔ اور پھر۔۔۔ ،اصحاب کہف آگئے، احمد گلے مل کر رویا، راحت نڈھال ،شمس بے حال اور ڈاکٹر شمیم کا اترا چہرہ۔ امیر الدین کمیونسٹ اخلاقیات کے بنیادی اصولوں کا احیاء کرواچکا تھا۔
اس کی موت کی اطلاع لاہور میں اس کی پارٹی کے ملک محمد اسلم کی توسط سے وہاں کے دوستوں تک پہنچائی۔ ملتان ملک محمدعلی کو بتایا ، سن کر جیسے سینے میں مکا لگا ہوا۔ امیر الدین کے جنازے میں اس کی نیشنل ورکرز پارٹی کا سیکرٹری جنرل یوسف مستی خان موجود تھا۔ ملتان پارٹی کا صدر سعید احمد ایڈووکیٹ کھڑا تھا، مسلم شمیم تھا، حسن عابد تھا، مظہر جمیل تھا، اعیز تھا، پائلر،ایمنسٹی ،ہیومن رائٹس ، پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن، پروگریسو رائٹرز ایسوسی ایشن ، وکلاء اور بے شمار اُن کے ذاتی دوست موجود تھے۔
امیر الدین آج اپنے جنازے کی اگلی صفوں میں کھڑے بہت سے نماز نہ پڑھنے والے دوستوں کو جانتا تھا مگر اس روز کسی بھی بے تکلف دوست کو اس نے اس بھیس میں آنے پہ وہ گالی نہ دی جس کا متضاد لفظ’’ حلالی‘‘ ہوتا ہے۔ ایک بار بھی ملّا کی شان میں گستاخی نہ کی۔ ساری عمر محکوم انسان کے پیروں کی دھول صاف کرتے رہنے والا یہ شخص آج اپنے اوپر منوں مٹی ڈالنے والوں سے کوئی احتجاج نہ کررہا تھا ۔ نہ ہی وہاں موجود لوگوں کو یہ پیغام دے رہا تھا کہ ’’ میرے آدرش‘ میرا نام ‘ میرا پرچم، اب تمہارے حوالے‘ اس کی سربلندی سرفرازی اب تمہارا کام‘‘۔
مگر یہی سرگوشی تو کوئٹہ کی ہوا ایک دن قبل ہی سندھ و ہند تک پہنچا چکی تھی۔
پرومیتھیس دیوتا کے اچھے شاگرد! تم نے بلوچستان میں علم کا نور پھیلایا تھا‘ بلوچستان تمہارے علم کا گاؤن عبدالعلی اخوندزادہ کے چوغے کے ساتھ محفوظ کردے گا۔ یہ سرزمین ،احیائے شرفِ انسانی کے تمہارے عظیم مشن کے نقار ے کو پیرک کے سریندا کے ساتھ کوہِ جاندران کی بلندیوں پہ رکھے گی جہاں جمعہ کی شب فرشتے اس پہ امن کی، جیون کی ، شانتی کی اور اُمید کی دُھن بجاتے رہیں گے اور پوری کائنات سنتی رہے گی۔۔۔۔۔تا ابد۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے