جلسہ شروع ہوتا ہے
اس کے باوجود کہ کانفرنس کے زعما نے سرداراور سرکاردونوں کو اعتماد لینے کی سرتوڑ کوششیں کی تھیں، اور اپنی طرف سے انہیں اس کانفرنس کے غیرسیاسی ہونے کا یقین دلایا تھا۔ مگر پھربھی سردار سرکار کے طبقاتی شکوک و شبہات نے اُنہیں آرام سے ، یا غیر جانبدار ہونے نہ دیا۔ ہم سرداروں کی بات پہلے ہی کرچکے ہیں ۔اب جناب عبدالصمد اچکزئی کے پشین عدالت میں کہے گئے وہ فقرے دیکھیے جس نے ایک پیشی کے دوران سرکار کی بدعہدی اور بدنیتی کے بارے میں یوں بتایا:
کانفرنس کی مخالفت میں اعلیٰ حکام نے بہ نفسِ نفیس حصہ لیا۔ پہلے ہی اجلاس کے موقعہ پر حکومت کی دہشت انگیزی کی یہ حالت تھی کہ کانفرنس حدودِ بلوچستان کے باہر منعقد ہورہی تھی۔ لیکن پھر بھی بلوچستان کے کم وبیش دودرجن پولیس آفیسر پنڈال میں اپنی موجودگی سے کانفرنس کی شان کو دوبالا کر رہے تھے۔ سنا جاتا ہے کہ سپرنٹنڈ نٹ پولیس خود اپنے حدود کے آخری حد پر اُس وقت تک قیام رکھتے تھے جب تک کانفرنس جاری رہا۔ اس کے بعد وہاں سے واپسی پر سر کردہ نمائندگان کو تنگ کیا۔(1)۔
تعجب ہوتی ہے کہ بلوچستان کے بعض خطاب یافتہ حضرات اور رؤسابلاوجہ اس کا نفرنس کی مخالفت کر رہے تھے۔ ’’ راسخ العقیدہ ‘‘سرکار پرستوں کا اس سے بدکنا تو ہماری سمجھ میں آسکتا تھا لیکن جس حالت میں کانفرنس کو ہرنائی نس میر صاحب خیرپور جیسے ذمہ دار والی ریاست نے صدارت سے مشرف فرمایا ہو، قوم بلوچ کے متعدد اکابر بہ خلوص تمام اس میں شریک ہوچکے ہیں اور کانفرنس نے کوئی ’’باغیانہ وسرکشانہ‘‘ قرار داد بھی منظور نہ کی ہو، ان حضرات کی مخالفت ایک معمہ ہے جو کسی کی سمجھ میں نہیں آسکتا۔
سرکار کی مزید بد کرداری ملاحظہ ہو۔انٹلی جنس بیورو، گورنمنٹ آف انڈیا نیو دہلی کی طرف سے 18 جنوری1933 کو اے جی جی بلوچستان یہ رپورٹ بھیجی گئی:
’’ میں نے زمیندار کے اختر علی اور شمس الدین حسن کا پیچھا کیا جنہیں مولوی ظفر علی خان نے بلوچ کانفرنس اٹنڈ کرنے بھیجا تھا۔ ہم وہاں28 دسمبر کوپہنچے۔ ریلوے سٹیشن پر ہمارا استقبال کسی یوسف علی مگسی نے کیا جو کانفرنس کا چیف آرگنائزر تھا۔۔۔۔۔۔‘‘
’’بتایا جاتاہے کہ بلوچستان کے مختلف علاقوں سے مندوب نے اس کانفرنس میں حصہ لیا، مگرا ن میں سے محض نیم درجن لوگ لکھ اور پڑھ سکتے تھے ۔ اور نوابزادہ یوسف علی خان مگسی کانفرنس کا روح رواں تھا۔
’’یوسف مگسی کے علاوہ امین کھوسہ، عبدالقادر وکیل آف جیکب آباد، غلام رسول(سب جج آف پنجاب) عبدالصمد آف گلستان ، اخوانزادہ عبدالرحیم خان کندھاری، غلام سرور، محمد عظیم خان مزارع جام میر نوارللہ آف کوئٹہ، قاضی احسن احمد آف شجاع آباد، اور یوسف علی خان مگسی کانفرنس کے فعال ورکر تھے‘‘۔
انگریز حکام کی بدنیتی دیکھی آپ نے ؟۔ کس قدر حقارت چھلکتی ہے اس جاسوسی رپورٹ میں۔ کس قدر عناد، دشمنی چھلکتی ہے اُس کے لب ولہجے میں۔
ایک اورجاسوسی رپورٹ میں کانفرنس کے شرکا کے بطورمندرجہ ذیل لوگوں کے نام بھیجے گئے ۔
اللہ یار خان رستم زئی (کانک)، غلام سرورمستنگ، عبدالعزیز کرد،مرزارحیم بخش شاہوانڑیں(مستنگ)، محمد کریم مستنگ، محمد اعظم شاہوانڑیں مستنگ، میر حسن خان مگسی جھل(قلات) ،پیر بخش خان ، خدابخش کوئٹہ ، عبدالخالق اچکزئی قلعہ عبداللہ، فیض محمد یوسف زئی ،محمد حسن (سبی) ، میر بخش یا پیر بخش ولد خدابخش سومرانڑیں(سبی)،کریم بخش سبی، مٹھاخان ولد گل محمد مری سبی، میر حبیب اللہ خان شاہوانڑیں ( مٹھڑی )‘خیر بخش رئیسانڑیں( مٹھڑی)، عبدالصمد اچکزئی ، عبدالواحد اچکزئی گلستان، لعل خان اچکزئی قلعہ عبداللہ ، محمد ایوب اچکزئی سکول ماسٹر قلعہ عبداللہ، ملک محمد شفیع بروہی کوئٹہ، چاکر خان کلوئی کوئٹہ ، ملک صاحب داد کاسی، عبدالرمضان کاسی، عبدالعزیز کاسی، جام نوراللہ خان ، بلدیو صحرائی۔
اس بات کو چھوڑیے ،میں آپ کی توجہ جاسوسی رپورٹوں کی between the linesوالی باتوں پر مبذول کرنا چاہتا ہوں:
۔1۔ زمیندار کا مولانا ظفر علی کانفرنس میں نہ آسکا ۔ اس نے اِس کی کوریج اور نمائندگی کے لیے اپنے دونمائندے بھیجے ۔
۔2۔ کانفرنس کی صدارت وغیرہ وغیرہ جس جس نے بھی کی مگر اصل کام یوسف علی خان کا تھا جسے جاسوسی رپورٹ میں کانفرنس کا ’’چیف آرگنائزر‘‘ کہا گیا ۔
۔3۔ رپورٹ کی اس بات پہ ضرور غور کیجیے کہ اس میں بلوچستان کے ’’مختلف علاقوں ‘‘ سے مندوبین شامل ہوئے ۔
***
سادہ معاشروں کی خاصیت ہے کہ وہاں تبدیلی کی ساری سیاسی تحریکیں بالکل عوامی طرز سے شروع ہوتی ہیں اور اسی بلاساختگی ، بے بناوٹی ، غیر مصنوعیت میں چلتی ہیں۔ یہاں بلوچستان میں بھی یہی کچھ ہورہا تھا۔۔ ہم نے شروع ہی میں یہ عجیب اور غریب بات بتائی تھی کہ اتنی بڑی سندھ ہند سطح کی چار روزہ کانگریس کے منتظمین اور آل انڈیا بلوچ کانفرنس نامی پارٹی کے بانی یعنی یوسف عزیز مگسی اور عبدالصمد اچکزئی یہیں ، اسی جیکب آباد کانفرنس میں پہلی بار مل رہے تھے ۔آج سے پہلے انہوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تک نہ تھا ۔ ہر ایک اپنے طور پر محنت کرتا رہا اور آج ،اس بہت بڑے اکٹھ میں اِن دونوں دمکتے ستاروں کی اولین ملاقات ہوئی۔ بقول اچکزئی:۔۔۔ تین چار روز کے کم وقت میں، میں اور جناب یوسف علی خان باہم بہت قریب آئے اور شیر و شکر ہوئے اور اُن کی وفات تک میٹھے دوست رہے ‘‘(2) ۔
قلات ، مستنگ، جیکب آباد اور مگسیوں سے کچھ نوجوان پہنچ چکے تھے جو سب بقول صمد خان اچکزئی، ’’ میری طرح ناآزمودہ نو جوان تھے ۔ مگر قومی کام کے لئے ہر ایک محبت اور جوش سے بھرا ہوا تھا ۔(3)
اسی طرح خاران سے نوابزادہ میر شہباز خان،جام نور اللہ خان اوردیگر کئی بلوچ سرکاری ملازم اس کانفرنس کے لئے آئے تھے ۔انگریز انٹلی جنس رپورٹوں کے مطابق جام نوراللہ خان نے اس کانفرنس میں سرگرم حصہ لیا اور اور کئی اہم قرار دادیں پیش کیں جن میں بلوچستان میں آئینی اصلاحات دینے اور لوکل سیلف گورنمنٹ لاگو کرنے کے مطالبات شامل تھے۔ (کس قدر سیاسی نکات تھے یہ!!)۔
انگریز جاسوسی رپورٹوں میں جیکب آباد کانفرنس میں سبی میں سکول ماسٹر اور میرے نہایت ہی محترم بزرگ جناب مٹھاخان مری کی سرگرم شمولیت کا بھی تذکرہ موجود ہے۔(4)
یاد رکھیے کہ تحریکیں تنظیمیں بغیر ماں باپ اور شجرہ کے نہیں ہوتیں، بہت سی چھوٹی چھوٹی سیلابی نالیاں اور نالے مل کر دریائے بیجی تشکیل دیتے ہیں۔چنانچہ یہاں اس کانفرنس میں انجمن اتحاد بلوچستان ، انجمن اتحادبلوچانِ ہند، انجمنِ رشید یہ سندھ انجمن مجاہدینِ اسلام جیکب آباد ، انجمن اشاعت اسلام شکار پور، اور دیگر کئی انجمنیں اپنی جماعتی حیثیت میں شامل ہوئیں۔ مطلب یہ کہ اس پارٹی سے قبل مندرجہ بالا نیم سیاسی نیم سماجی تنظیمیں موجود اور سرگرم تھیں۔(5)
رضا کاروں کے سبز وسرخ یونیفارم تھے۔اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ پارٹی کا پرچم سبز وسرخ رنگ کا تھا؟ ۔
البلوچ کی یہی مندرجہ بالا رپورٹ ایک دلچسپ تذکرہ کرتی ہے:۔۔۔۔ (فلاں شخص) فلاں ’’سجیکٹ کمیٹی‘‘ میں جگہ پانے میں کامیاب ہوا مگر جلد ہی اُسے ریاستِ کلات کاجاسوس جان کر نکال باہر کیا گیا۔(ارے ؟ ۔یعنی جاسوس اُس وقت بھی موجود تھے۔ اور وہ اپنی ہی بلوچ ریاست یعنی،ریاستِ کلات کے جاسوس تھے!(۔۔ میں نے اس رپورٹ سے دو باتیں اخذ کیں: ایک : کلات ریاست کی بادشاہی حکومت کی زبردست اپوزیشن موجود تھی۔ سیاسی اور جمہوری لوگ ایک طرف تھے اور خان اور سردار دوسری طرف تھے۔دوسری یہ کہ ریاست کلات سیاسی وجمہوری کارکنوں کے لیے ضیا مارشل لا سے بھی زیادہ سخت اور سفاک تھی۔ اس طرح جو بورژوا بلوچ دانشور ریاست کلات کو بہت رومانوی انداز میں پیش کرتے رہے ہیں او ریوں بلوچستان کو ایک غیر طبقاتی سماج قرار دیتے رہے ہیں وہ سب سچ نہیں ہے۔
اس جلسے کی صدارت کے لئے ریاست خیر پور کا نواب میر ، علی نواز خان تالپور تیار ہو گیا اور اس نے جلسے کے لئے اپنے دربار سے بہت سارے خیمے اور چاندی کی کرسیاں ، قالینیں اور دیگر سامان دے دیا ۔اسی طرح جیکب آباد کے آس پاس سرداروں اور زمینداروں کے جو بنگلے اور گھر تھے وہ بھی زیادہ تر جلسے کے لئے دیئے گئے تھے ۔ ان میں خان بہادر شیر محمد خان ، دلمراد کھوسہ، خان بہادر چاکر خان، دوست محمد کھوسہ ، وڈیرہ اللہ بخش اور سرور خان مغل شامل تھے۔ ( جی بلوچئے کاروان!)
جلسہ شروع ہونے سے ذرا قبل میر علی نواز تالپر کے بیمار پڑ نے کی اطلاع دی گئی ۔ چنانچہ ہنگامی طور پرجلسے کی صدارت کے لیے نام تلاش کیے جانے لگے ۔عاجز مزاج یوسف مگسی نے تو صدارت وغیرہ کرنی نہیں تھی ۔چنانچہ ورکنگ کمیٹی (یعنی پارٹی کی مرکزی کمیٹی)میںیہ معاملہ پیش ہوا۔( ورکنگ کمیٹی کے ممبران کے نام یہ تھے:غلام سرورخان مغل، محمد امین کھوسہ ، نواب محمد جمال خان لیغاری، اخوندزادہ عبدالعلی، عبدالعزیز کرد، میر مٹھا خان مری، محمد ہاشم خان غلزئی ، غلام محمد خان ترین، حسین بخش مگسی، سردار غلام رسول کورائی، حاجی محمد عثمان ، سیٹھ محراب خان، میر تاج محمد خان)۔غورو فکر کے بعد ورکنگ کمیٹی میں جام نور اللہ خان نے کانفرنس کی صدارت کے لیے عبدالصمد خان اچکزئی کانام تجویز کیا ، میر یوسف علی خان نے تائید کی اوریہی فیصلہ ہوا ۔
یوں،آل انڈیا بلوچ کانفرنس کی صدارت خان عبدالصمد اچکزئی نے کی ۔ میں سوچتا ہوں کہ بلوچ ماما نا حق کسی کو اپنا بخار نہیں دیتاتو کُل ہند بلوچ کانفرنس جتنی بڑی اور نمائندہ اجتماع کی صدارت بغیر استحقاق کے کسی کو کیسے دیتا؟۔اعتماد کرنے والے زندہ باد ہوں ، اعتماد علیہ زندہ باد ہو، اور اعتماد کا باعث بننے والا نظریہ زندہ باد ہو۔
میر یوسف عزیز مگسی کا فکری اور عملی کامریڈ ، روزنامہ ’’زمیندار ، لاہور‘‘ کا ایڈیٹر مولانا ظفر علی خان بھی کانفرنس میں شامل نہ ہوسکا اور اُس نے حمایت ومبارکبادی کا ٹیلیگرام بھیجا۔
جلسہ شروع ہوا تو میر علی نواز خان تالپر والیِ خیر پور کی صدارتی تقریر اُس کے پرائیویٹ سیکریٹری نے پڑھ کر سنائی ۔ہم ’’البلوچ‘‘ میں شائع شدہ تقریر یہاں پیش کر رہے ہیں:
’’حضرات ۔ آپ نے کانفرنس کا صدر منتخب کر کے میری عزت افزائی کی ہے ، میں اس کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ بہر حال مجھے مسرت ہے کہ اس طریقے سے مجھے آپ کی خدمت کرنے کا موقع ملا ۔ اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اپنے ملک اور لوگوں کی خدمت کو ہمیشہ اپنے لیے باعث فخر سمجھتا ہوں۔ مجھے صدر منتخب کر کے آپ نے ثابت کردیا ہے کہ آپ مجھے اپنا بھائی سمجھتے ہیں اور میں اپنی طرف سے آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میرے دل میں بلوچ کی عزت و محبت کا جذبہ موجود ہے۔
’’حضرات !میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے قوم کو کانفرنس منعقد کر کے اپنی فلاح وبہبودی پر غور کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ ۔۔۔
’’حضرات!تمام دنیا پر قبیلہ بلوچ کی جرات وبہادری کی دھاک بیٹھی ہوئی ہے ۔ محض ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ جنگِ عظیم میں ہمارے بھائیوں نے یورپ میں کارنامے دکھائے کہ انہیں وکٹوریہ کراس کا اعزازی تمغہ عطا کیا گیا۔
’’ حضرات ۔اس سلسلے میں آپ کی توجہ اس حقیقت کی طرف مبذول کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارا قبیلہ ہندوستان کی دوسری قوموں کے مقابلہ میں تعلیمی حیثیت سے بہت پیچھے ہے ۔ لہذا اس صورت حالات کے مدنظر ہمارے لیے سیاسیات کیگتھیوں میں الجھنا ابھی خطرہ سے خالی نہ ہوگا۔ ہمیں چاہیے کہ اپنی تمام تر توجہ اور مساعی بلوچوں کے تعلیمی ، اقتصادی ارتقا پر صرف کریں۔ لیکن اس سے میرا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنے جائز حقوق حکومت سے طلب نہ کریں۔
’’حضرات ۔ اب میں سب سے بڑے مسئلہ پر روشنی ڈالنا چاہتا ہوں ۔جو فی الحقیقت ہر قوم کے لیے موت اور زیست کا سوال ہے ۔ وہ مسئلہ تعلیم کا ہے ۔ ہم اس سے انکار نہیں کرسکتے کہ بحیثیت مجموعی ہمارا قبیلہ تعلیم کے لحاظ سے بہت پیچھے ہے ۔ عورتوں اور مردوں کی تعلیم کے لیے محض ہمارے قرآن مجید اور پیغمبر صلعم ہی کی تاکید نہیں بلکہ عقل وفہم کا تقاضا ہے کہ تعلیم سے بے اعتنائی ہر گز برتنی نہیں چاہیے۔ اس سلسلہ میں نے ہمیشہ بڑی دلچسپی کا اظہار کیا ہے اور جب سے میں نے عنانِ ریاست سنبھالی ہے بچوں اور بچیوں کی درسگاہوں میں اضافہ کردیا ہے ۔
’’حضرات ۔ میں آپ سے اپیل کروں گا کہ آپ آپس میں اتحاد ویکجہتی قائم کریں۔ اسلام نے سوسائٹی کے لیے ایسے قوانین مرتب کردیے ہیں کہ اگر ہم ان پر عمل درآمد کریں تو ہم بہت سے مشکلات سے عہدہ بر آمد ہوسکتے ہیں۔ ہمارے مذہب میں غریب اور امیر اعلی وادنی میں کوئی امتیاز نہیں۔ ۔۔ عرب سے ایک چھوٹی سی جماعت ۔۔ اٹھے لیکن ۔۔ بڑی قوموں اور بڑی سے بڑی حکومتوں کے قلعے الٹ کر رکھ دیے ۔ لیکن افسوس جب سے ہم نے اس تعلیم کوبالائے طاق رکھ دیا ہم قعرِ مذلت میں ڈوبتے گئے ۔۔۔
’’حضرات۔ ہماری استدعا ہے کہ آپ اپنے قبیلے کی تنظیم کریں کیونکہ بغیر تنظیم کے کسی قسم کی ترقی نہیں کی جاسکتی ۔ ہمارے بلوچ صرف بلوچستان میں ہی نہیں بلکہ ہندوستان کے اور صوبوں میں بھی آباد ہیں۔ جب میں دہلی گیا تھا تو مجھے یہ معلوم کر کے ایک گونہ مسرت ہوئی کہ دہلی اور میر ٹھ وغیرہ اضلاع میں بہت سے بلوچ خاندان آباد ہیں اور وہ لوگ بلوچوں کی رسم رواج پر قائم ہیں۔ یہ فخر بلوچی رشتہ، اخوت کا تقاضا تھا کہ انہوں نے آکر مجھے سپاس نامہ پیش کیا ۔ میری آرزو ہے کہ تمام بلوچ متحد ہو کر اس کانفرنس کو اپنی سرگرمیوں کا واحد مرکز قرار دیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ان مقامات پر جہاں بلوچ آباد ہیں۔ مجالس اور سبجکٹس کمیٹیوں کا قیام نہایت ضروری ہے ۔
’’حضرات ، اب میں جرگہ سسٹم کے اہم مسئلہ پر روشنی ڈالنا چاہتاہوں ۔فی الحقیقت یہ طریقہ جمہوریت کے اصولوں پر مبنی ہے جسے مہذب ممالک کی حکومتوں کا بہترین طریقہ قرار دیا جاتا ہے ۔ یہ جرگہ سسٹم بلوچستان میں اُس وقت سے رائج ہے جب برطانوی ہند کو کونسلوں اور اسمبلی کا خیال تک نہ تھا۔ بجز ناموں کے فرق کے عملی طورسے جرگہ سسٹم اور کونسلوں میں کوئی امتیاز نہیں اور یہ دونوں ہم معنی اور ہم صفت ہیں۔ بہر حال مجھے معلوم ہے کہ بعض طاقتیں اس رواج کو بلوچستان سے معدوم کرنا چاہتی ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ اس کی وجہ غلط فہمی یا رواج کی کوئی خرابی ہو۔ بہر حال اس کی اصلاح کی جاسکتی ہے ۔ اس معاملہ کو آپ بہتر اندازسے بحث وتمحیص کر کے حل کرسکتے ہیں۔
’’حضرات ۔ ہندوستان کے تمام صوبوں میں بلوچستان ہی ایک ایسا صوبہ ہے جسے سوسائٹی اور رواج کے لحاظ سے عرب سے بہت زیادہ قربت ہے ۔ہر وہ شخص جو بلوچستان آتا ہے تعلیمی اور دوسری خوبیوں کی کمی کے باوجود اس خاص وصف کو دیکھے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ بلوچ خوداری اور بہادری میں خاص شہرت رکھتے ہیں اور یہ اسلام کی تعلیمات کے نتائج ہیں۔ مجھے یہ سن کر افسوس ہوا کہ وہ صنف نازک کے حقوق او راُن کی ضروریات کو نظر اندا زکرتے جارہے ہیں ۔ اسلام کی کھلی ہوئی تعلیم کے برخلاف لڑکیوں کو حقوقِ وراثت سے بھی محروم رکھا جاتا ہے ۔ مجھے امید ہے کہ ہمارے بھائی رسم ورواج سے گمراہ نہیں ہوں گے بلکہ اس اہم مسئلہ کا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مطالعہ کریں گے ۔
’’حضرات ۔مجھے یہ دیکھ کر بڑی مسرت ہوئی ہے کہ ہمارے افغان بھائی بھی بلوچوں کی جہد الحیات میں اپنا ہاتھ بٹا رہے ہیں ۔ میرے دل میں افغانوں کی بڑی وقعت ہے جو شریف اور بہادر قوم ہے ۔ افغان اور بلوچوں کا اتحاد کوئی نیا اقدام نہیں ہے ۔ بلکہ ان دونوں قبیلوں میں بہت سی خصوصیات ایسی مشترک ہیں کہ انہیں ہمسایہ قوم کہا جاسکتا ہے ۔
’’ مجھے امید ہے کہ ہمارے افغان بھائی جو بلوچستان میں رہتے ہیں باہمی ترقی اور کامگاری کے لیے ہمیشہ بلوچوں کا دست راست ثابت ہوں گے ۔
’’حضرات ! مجھے افسوس ہے کہ وقت کی کمی اور ناسازی طبیعت کی وجہ سے میں کانفرنس کی کامیابی کے لیے کوئی ٹھوس اور نمایاں اقدام نہ کرسکا، لیکن مجھے امید ہے کہ آگر آپ میرے مشوروں پر عمل کرتے رہے تو آئندہ سال میں اس کی کامیابی کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کروں گا۔
’’حضرات! میری استدعا ہے کہ آپ میرے ساتھ بارگاہِ ایزدی میں دعا کریں کہ وہ ہمیں صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری کوششوں کو بار آور کرے۔
’’حضرات !میں اپنی تقریر ختم کرتے ہوئے آپ کو اجازت دیتا ہوں کہ اپنی قرار دادیں پیش کریں ۔ بہر حال مجھے قوی امید ہے کہ آئندہ سال تک آپ اپنی عملی اور تعمیری سرگرمیوں سے قوم کی حالت بڑی حد تک درست کر لینے میں کامیاب ہوسکیں گے ‘‘۔
والیِ خیر پور کی تقریر کاایک پیرا گراف جناب انعام الحق کوثر نے’’ نقوشِ بلوچستان ‘‘ نامی اپنی کتاب میں شائع کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے اس کانفرنس سے متعلق مرید حسین مگسی کے کتا بچے کا حوالہ دیا ہے ۔ وہ تو ہمیں دستیاب نہیں لیکن جو پیرگراف ڈاکٹر صاحب نے اپنی کتاب میں دیا وہ کانفرنس کے ترجمان اخبار ’’البلوچ ‘‘ میں شائع شدہ تقریر میں موجود نہیں ہے ۔ وہ پیراگراف یوں ہے :
’’عزیز ان مِن! میں آپ کو صاف لفظوں میں آگاہ کر دینا چاہتا ہوں کہ آپ سیاسیات کے تخریبی پہلو سے ہر گز دلچسپی نہ لیں جو قوموں کی زندگی میں بتاہی وبربادی پر منتجہوتا ہے ۔ ایک زندہ قوم کو ، جو جہدا لحیات میں حصہ لینا چاہتی ہے ، ان قوائے عملی کو بیدار کرنا چاہیے جو امن و سلام کے قصرہائے رفیع کی شمولیت پر قادر ہوں۔ میں آپ سے یہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ کانفرنس کی تجویز حکمت عملی اور اس کی قانون شکنی کو میں مسلمانوں اور بلوچوں کی سوسائٹی کے لیے ایک خطرہِ عظیم تصور کرتا ہوں۔ مجھے مسرت ہے کہ پچھلے دنوں میں نے اپنے مسلمان بھائیوں سے کانگریس کی تحریک میں عدم شمولیت کا جو مطالبہ کیا تھا وہ پورا ہوا اور مسلمان تحریک میں شریک نہ ہو ئے۔ (6)
کانفرنس کے اِس پہلے دن بلبلانِ خلافت نے قومی ترانہ پڑھا تھا جس کا پہلا شعر یہ ہے :
وقت آگیا کہ باغ میں بلبل ہو نغمہ سنج
اور شاخ گل کو مژدہ فصل بہار دے (7)
حوالہ جات
۔1۔ اچکزئی ، صمد خان ۔ عدالتی بیان بلوچستان جدید 8مئی 1934
۔2۔ اچکزئی ، عبدالصمد خان۔ زما ژوند او ژوندون۔ جلد 3۔2004کوئٹہ صفحہ 266
۔3۔ ایضاً
۔4۔ 4جنوری1933کو ایس پی کوئٹہ پشین کی جانب سے سیکرٹری اے جی جی کو رپورٹ۔ آل انڈیا بلوچ کانفرنس فائل نمبر11، جلد11
۔5۔ بلوچ کانفرنس کے بعد۔ البلوچ 15جنوری 1933
۔6۔ کوثر ، انعام الحق ۔نقوشِ بلوچستان۔ صفحہ 138،بحوالہ مرید حسین مگسی ۔ کانفرنس روداد۔
۔7۔ نقوشِ بلوچستان ۔صفحہ 139