بہانہ سازی اُسے راس آگئی ہے بہت
گزرتی رات کہانی سناگئی ہے بہت
بڑے سنبھال کے دھویا ہے میں نے زخمیوں کو
محبتوں کی یہ آندھی رلاگئی ہے بہت
تم اس کو خواب کا تعویز کیوں سمجھتے ہو
یہی زمیں تو مرے خواب کھا گئی ہے بہت
یہ آسمان بھی چلتا ہے ساتھ ساتھ مرے
کہ میری دربدری اس کو بھا گئی ہے بہت
سوال کرنے کی طاقت ہی مرگئی شاید
یہ بے حسی ہے کہ جودل پہ چھا گئی ہے بہت
بسرہوئی ہے کہاں اور کہاں قیام رہا
یہ ریت پیر سے لپٹی بتا گئی ہے بہت
جھلستی شام کے ٹوٹے ہوئے گھروندے تھے
یہ زندگی تو بگولے دکھا گئی ہے بہت