رہاہونے سے پہلے میں اِس نتیجے پر پہنچا تھا کہ سیاسی محاذ پر ہم بے ہمتی کے درجے پر پہنچ چکے تھے۔ ہم اکثریت ’’ سرکار کی دعائیں‘‘ کی صفات اختیار کر چکی تھی۔ سیاسی آزادی ، یکجہتی اور قوم پرستی کا پودا عارضی طور پر سو کھ چکا تھا۔ عصری حادثات نے ہماری سیاسی راہ میں ایسی مشکل رکاوٹیں ڈال دی تھیں جن کو پار کرنا ہماری طاقت سے باہر تھا۔ ایسے حالات میں قوموں کے قافلوں کو سازگار موسم تک رکنا پڑتا ہے ۔ اس دوران قوتِ عمل کو کسی دوسرے راستے پر مشغول کرنا پڑتا ہے ۔ تاریخ میں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں۔ جب کسی قوم کو سیاسی واقتصادی طور پر ملیا میٹ کیا گیا۔ لیکن ان کی ثقافتی اور اخلاقی بنیادیں مضبوط ہونے کی وجہ سے تھوڑے ہی وقت میں دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوگئے ۔ یونان پر روم کے قبضے کے بعد یونانی سیاسی طور محکوم بن گئے ۔ لیکن ثقافتی نقطہ نگاہ سے وہ مستقل اور مضبوط تھے۔ تھوڑے ہی وقت میں انہوں نے رومیوں کو اپنے رنگ میں رنگ لیا۔ ابھی تک مغربی تہذیب یونانی تہذیب کی بنیادوں پر قائم چلا آرہا ہے ۔ ایسی ہی حالت مسلم ایرانیوں کی ہوئی۔ منگولوں کے ہاتھوں وسطی ایشیا کے مسلم دنیا کی پامالی اور تباہی کے بعد کوئی نہیں سمجھتا کہ وہ پھر پہلی جگہ پرواپس آئیں گے ۔ لیکن اپنی تہذیب اور ثقافت کی مضبوطی (سلامتی ) کی وجہ سے کم ہی وقت میں انہوں نے فاتحین کو اپنے رنگ میں رنگ کر مفتوح بنا دیا۔
ایسی حقائق کو نظر میں رکھ کر میں نے سوچا کہ موجودہ سیاست سے کنارہ کش ہوکر قوم کو اتحاد ، حب الوطنی، قوم پرستی ، خود شناسی ، امن اور اصلاحِ نفس کی پیغام دینے کے لیے کلچرل پلیٹ فارم سے تعلیم وتربیت کی کوئی ایسی مہم شروع کی جائے جس میں نہ حکامِ وقت کو اس کے رموز مملکت میں دست اندازی کا خدشہ پیدا ہو۔ اور نہ مختلف سیاسی گروہوں اور مُفاد کو اس کے حصول اور کار کردگی میں دخل اندازی کا خطرہ محسوس ہو۔ بلکہ سب میں ’’ محبوب کو پانے‘‘ کی نقطہ نگاہ سے ایک ایسا پلیٹ فارم کیا جائے جس پر مختلف عقائد ، سیاسی نظریوں ، جماعتی گرہوں اور طبقاتی مفاد کے لوگ رواداری کے بنیاد پر اپنا نقطہ نگاہ اور مفاد محفوظ رکھتے ہوئے ملک کے مشترکہ مفاد اور تحفظ کے لیے ایک جگہ پر مل کر صلاح ومشاورت ومصلحت ، تبادلہ خیالات کر کے مشترکہ قدم اُٹھا سکیں۔ ان باتوں کا سیاست سے کوئی واسطہ نہ رہے۔
مجھے تاریخ کے مطالعے سے یہی معلوم ہوا کہ نہ صرف دنیا کی تاریخ بلکہ مسلم تاریخ اور سندھ کی تاریخ میں ایسے بھی مواقع آئے جن کا سامنا کرنے کے لیے ہمارے بزرگوں نے درج بالا طریقوں پر کام کیا ہے ۔ بنی اُمیہ، بنی عباس یا دوسرے حکمرانوں کے دورِ حکومت میں جب خود مطلبی ، نفس پرستی اور خانہ جنگی بڑھ گئی تو راسخ العلم ، صالح اور دور بین حضرات نے قوم کے شیرازے کو درہم برہم ہونے اور بداخلاقی سے بچانے کے لیے ملکی سیاست سے کنارہ کش ہو کر عوام کی بنیادی خامیوں کو تالیف قلوب کے ذریعے نفسی اور ذہنی تربیت دینے کی طرف توجہ دی۔ جس کو قدیم مذہبی زبان میں’’ روحانی طریقہ کار ‘‘ کہا گیا۔ اس کا جدید زبان میں ترجمہ’’ کلچرل اصلاح ‘‘ کیا جاسکتا ہے ۔
سندھ میں بھی ایسے حالات کو مدِنظر رکھ کر ہمارے بزرگانِ طریقت جیسے کہ حضرت شہباز قلندرؒ ، شاہ عبدالطیفؒ ، شاہ عنایت اللہ صوفی ؒ ، مخدوم بلاول ؒ ، سچل سرمت ؒ ، پیر صاحب بھر چونڈی اور کئی دوسرے بزرگوں نے مردہ قوم میں خود شناسی ، حب الوطنی ، اتحاد محبت اور امن کے پیغام کو پھیلایا۔ افسوس یہ ہے کہ سالوں گزرنے کے بعدکئی لوگوں نے ان کی سادی اور آسان تعلیم کو صرف کرامت، خدارسیدگی اور روحانیت سے منسوب کر کے مافوق الفطرت باتوں سے مشابہت دے کر بعدکے لوگوں کے لیے کمائی کا ذریعہ بنادیا۔ دوسروں نے ان کے جگہ لینے والوں کو نفس پرستی ، رجعت پسندی ، تو ھمات اور بدعت کا ذریعہ سمجھ کر نظر انداز کردیا۔۔۔جب بھی کسی قوم میں تنزلی کے آثار نظر آتے ہیں تو ان کے اصلاحی رہبروں ، قومی ہیروں ، ذہنی حکما ، کی روایتی ، قول اور احکام سے مددلینا پڑتا ہے ۔
جس طرح ان اصلاحی بزرگوں کے نام لیے ہیں ۔ اسی طرح ہماری دنیاوی مجاہدوں کی زندگی کے کارنامے بھی ہم میں وطن پرستی اور ہمت افزائی پیدا کرسکتے ہیں۔ مثلاً۔ دودا سومرو، نواب دریا خان، مخدوم بلاول ، سید حیدر ؒ ، میر شیر محمد خان تالپور، رئیس غلام محمد خان بھرگڑی ، میٹھ ہر چند رائے وشنداس، مسٹر جمشید مہتا ، مولانا عبیداللہ سندھی، مرحوم اللہ بخش سومرو، شیخ عبدالمجید سندھی اور دوسرے قومی سرفروشوں کی زندگی کا احوال ہم میں کافی بیداری اور حوصلہ افزائی پیدا کرسکتے ہیں۔
اسی نقطہِ نگاہ سے جب حکومت نے مجھ سے نظر بندی کے احکامات ہٹا کر باہر گھومنے پھرنے کی اجازت دی تو سب سے پہلے سندھ کے بڑے صوفیائے کرام کی درگاہوں کی زیارت کر کے سروے کیا کہ آیا یہ حضرات جنہوں نے سندھی کی تہذیب ، اصلاح نفس ، خود شناسی اور حب الوطنی کے لیے اپنے قول وفعل کے ذریعے خدمت کی تھی ان کے درگاہوں پر ابھی تک لاکھوں لوگ سال بسال آتے ہیں۔ ان مراکز کے ذریعے سندھیوں کومذکورہ بالا باتوں کا پیغام پہنچایا جاسکتا ہے یانہیں؟ ۔میرے کئی دوستوں نے مجھے میرے مذہبی عقائد اور گزشتہ روایات کو مدِ نظر رکھ کر ان کو کیمو فلاج، منافقت اور خوش فہمی سے تعبیر کیا۔ کچھ نے اس تحریک کو گمراہی ،رجعت پسندی ، شکستہ خیالی اور کج فہمی سے تشبیہہ دی ۔ میں نے مذکورہ بالا کسی بھی عتاب یا طعنے کی پرواہ کیے بغیر طے شدہ پروگرام کو پورا کیا ۔مجھے خبر تھی کہ میں ان درگاہوں پہ فیض حاصل کرنے ، کرامات طلبنے،اور روحانی رمز جاننے کے لیے نہیں جاتا تھا۔ نہ ہی پیر پرستی ، سجادہ نشینوں کو بڑھاوا دینے (ان کے اقتدار کو) لوگوں کو توھمات میں پھنسا کے کی خیال سے زیارات کیے۔ میرا مقصد ظاہر تھا۔ ان بزرگوں کو میں نے محبت ، حب الوطنی، خودشناسی ، امن وقربانی کا پیغامبر جانا۔ ان کی سلامی دینے میں کیا عیب تھا!؟ آج کل جب لینن، نپولین، سن ییت سین ، مصطفےٰ کمال ، مہاتما گاندھی اور جناح صاحب کے مزاروں اور مرقدوں پر جانا نہ صرف عیب شمار نہیں کیا جاتا ہے بلکہ قومی فرض سمجھا جاتا ہے ۔
اس سفرمیں میں نے نہ صرف صوفیا ئے کرام کی زیارت کی بلکہ نواب دریا خان، بلاول شہید، اللہ بخش سومرو کے مزاروں پر بھی سلام بھرا۔ آخری سلامی زندہ لوگوں میں میاں محمد امین کھوسہ کو دی۔ اب سوال اٹھے گا بزرگوں اور قومی ہیرؤوں کی زیارت سے کچھ معنیٰ اور مطلب نکل سکتا ہے ۔ پر محمد امین کھوسہ جیسے گوشہ نشین ، نیم مجذوب سیاستدان میں میں نے کیا دیکھا تھا جو اس کے پاس اس کے گاؤں گیا ۔ اس کے لیے اس کے سیاسی اور مذہبی اعتقادات اور کردار کا ذکر کر کے قارئین پر چھوڑوں گا کہ وہ اپنا نتیجہ خود نکالیں ۔
محمد امین کھوسہ کا سیاسی اور مذہبی نظریہ اور اعتقاد
یہ بنیادی طور پر جذباتی آدمی ہے ۔ مگر غور وفکر کے صفات سے خالی نہیں ہے ۔ اس کے اکثر سیاسی اور مذہبی نظریات اور اعتقاد سوچ خیالات پر مشتمل ہوتے ہیں جو زمانے کی تبدیلی سے مختلف مراحل سے گزرے ۔ ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہونے کی وجہ سے دینی اثر اس پر شروع ہی سے تھا۔ لیکن ہر تعلیم یافتہ صاحبِ فکر نوجوان کی طرح ایک وقت اس پر ایسا بھی گزرا ہے ۔جب وہ تقریباً دھریہ ہوچکا تھا۔ لیکن آہستہ آہستہ واپس اپنی ڈگر پر آگیا۔ اس وقت خدا، پیغمبر ، اولیا اور دینِ اسلام کی افادیت پہ مکمل بھروسہ رکھتا ہے ۔ روزہ نمازکاپابنداور تہجد گزار ہے ۔ پیر صاحب بھر چونڈی کی روحانی رہبری مولانا عبیداللہ سندھی کے سیاسی نظر ئیے،سرزمین سندھ کے روشن مستقبل اور اتحادِ انسانی ، امنِ عالم اور لوگوں کی ترقی کے لیے سندھ کی خاص حیثیت اور پیغام میں اس کو مکمل بھروسہ ہے ۔
وہ اکثر مختلف خیالات اور نقطہ نگاہوں کو کثرت الفاظ میں اِس طرح الجھا دیتا ہے کہ عام طریقے سے ان کو سُلجھا کر معنیٰ اور مطلب نکالنا مشکل لگتا ہے ۔ اگر چہ باتیں آسان اور عام فہم کرتا ہے ۔ لیکن الفاظ کے انبار میں وہ پہیلی بن جاتی ہیں ۔ آج کل مصروفیت کی وجہ سے لوگ ہر چیز پہ سطحی نظر ڈالنے کے عادی بن چکے ہیں ۔کس کو فرصت ہے جو لمبی تقاریر اور لمبے خطوط پڑھے ۔ ان میں معنیٰ اور مطلب نکالنے کی کوشش کرے ؟ ۔جہاں تک میں نے اس کے سیاسی اور مذہبی نقطہ نگاہ کو سمجھاہے ۔ ان کالبِ لباب یہ ہے:
۔1۔دینِ اسلام کو وہ آخری اور مکمل مذہب سمجھتا ہے ۔
۔2۔ وہ انسانیت کا نجات دین کی پیروی سے ہونے کا قائل ہے ۔
۔3۔حقیقی اسلام کی صحیح تشریح اور تعبیر صرف سرزمین سندھ سے ہونے پر یقین رکھتا ہے ۔
۔4۔ اِسی تعبیر کا اولیا ء کرام سندھ کی طرف سے آخری مفسر پیر صاحب بھر چونڈی کو سمجھتا ہے ۔
۔5۔ اس کا کہنا ہے کہ مولانا عبیداللہ سندھی پیر صاحب بھر چونڈی کا فیض یافتہ تھا اس لیے اس کے پیغام کی، شاہ ولی اللہ دہلوی کے فلسفے اور حاصل شدہ تجربے کی بنا پر اس نے صحیح ترجمانی کی ہے ۔
۔6۔ مولانا عبیداللہ سندھی کی اس ترجمانی اور تعلیم کو سمجھنے کے لیے جس روحانی اور علمی کلیہ کی ضرورت ہے ۔ وہ اس (یعنی میاں محمد امین ) کے ہاتھ میں دی گئی ہے ۔
یہ ایسے دعوے ہیں جس میں آج کے دور کا مذہب سے دور (بددل) نوجوان اعتبار کرے، یہ بات ذرا مشکل نظر آتی ہے ۔ یہاں تک کہ روایتی مذہب کے دعویدار بھی ان کو اتنی اہمیت دینے کو تیار نہیں ہیں۔
آج کل کے مذہب سے بیزار نوجوان کا اس کے مندرجہ بالا خیالات کے بابت درج ذیل تاثرات ہیں۔
۔1۔ جس دین اسلام کو دنیا کا آخری اور مکمل مذہب سمجھا جاتا ہے۔ا س کی ترجمانی اور تشریح اکثر جاہل مولوی اور وہم پرست پیروں کی طرف سے کی جاتی ہے ۔ جو ہمیشہ سے حکمران طبقے کا حامی (زرخرید) اور پیٹ کے پجاری رہتے آئے ہیں ۔ ان کے دین کی تشریح چند عبادات رسومات ، توھمات، قدیم فرسودہ اعتقادات اور قوانینِ شریعت تک محدود رہتی ہے۔ جو موجودہ تیزرفتار اور سائنسی دور کے تبدیل شدہ معاشرے ، وقتی تقاضوں اور نئی علمی تحقیقات کی وجہ سے بیکار اور بے معنیٰ دیکھنے میں آتے ہیں۔
۔2۔ سندھ کے بزرگوں اور درویشوں نے پہلے کیا کیا۔ یقیناًملک اور لوگوں کی رہبری اور خدمت کے لیے اپنے تئیں کوشش کی ۔ان کی اصلاح کی ۔ مگر اِس وقت ان کے اکثر جانشین قدیم روایات اور ’’پیغام سندھ ‘‘بُھلا کر درگا ہوں کو اپنی گزر معاش ، ہوس پرستی، اقتدار اور معتبری کے حصول کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ان کا یہ گروہ بیکار اور نقصاندہ بن چکا تھا۔اِس زمانے میں روحانیت کے نام پر لوگوں کو پھر اس طرف رجوع کرانا رجعت پسندی کے اڈوں کو تقویت پہنچانے کے برابر تھا۔
۔3۔مذاہب کا کردارگزشتہ زمانے میں کیسا بھی رہا ہو، اِس وقت وہ لوگوں میں نفاق ، نفرت ، فرقہ پرستی اور رجعت پسندی پھیلا کر عقل سے منحرف کرنے کا ذریعہ بن چکے تھے ۔ یہ چند کتابیں ، بزرگوں کی صداقت اور معصومیت میں بھروسہ (یقین) رکھوا کر مولوی کا عوام پر تسلط قائم رکھنے کا ذریعہ بن کر کام آتے ہیں ۔ترقی پسند ،صاحبِ علم نوجوان سمجھ نہیں سکتا ہے کہ اِس قسم کے مذہب سے انسانیت کی نجات کس طرح حاصل کی جاسکتی ہے ۔
۔4۔ ان کو میاں محمد امین کھوسہ کا یہ دعویٰ کہ ’’اسلام کی صحیح تعبیر اور تشریح سرزمین سندھ سے ہونی ہے ۔ اس کا آخری پیغام رساں پیر صاحب بھر چونڈی اور ترجمان مولانا عبیداللہ سندھی ہے ‘ سمجھنا ذرا مشکل لگتا ہے ۔ خصوصاً جب دیکھتے ہیں کہ پیر صاحب بھرچونڈی کے موجودہ پیروکار اس تعلیم کا صحیح نمونہ پیش نہیں کرتے ہیں۔
۔5۔ مولانا عبیداللہ سندھی بے شک موجودہ دور کے عالموں میں جلیل القدر بزرگ ہوگزرا ہے ۔ لیکن اس نے ولی الاہی فلسفے کی بنیاد پر جو اِسلام کی نئی تعبیر کی ہے وہ موجودہ دور کے مذہبی علماء جیسے علامہ شیخ محمد اقبال ۔ مولانا مودودی اور دوسروں کی تشریح اور قدیم روایتی اسلامی تعبیر سے مختلف تھی۔ یہاں تک کہ وہ تشریح بھی موجودہ ٹکنالوجی اور سائنسی دنیا کی معلومات اور ضروریات کے کسوٹی پر پورا نہیں اُترتا۔
۔6۔ کھوسہ صاحب کو اس کی کثرتِ گفتگو، مذہب سیاست اور روحانیت کی متضاد تشریحات کی موجودگی میں آجکل کانو جوان مذہب، روحانیت اور سیاست کا علمبردار تسلیم کرے یہ ایسی کڑوی گولی ہے جو نگلنا ان کے لیے مشکل نظر آتی ہے ۔
کھوسہ صاحب نے اب جونئی تحقیق اور دعویٰ کیا ہے وہ اِس طرح ہے :
۔1۔مذہب کی غلط تشریح اور اس کا استعمال ایکسپلاٹیشن کر کے دہریت کو بڑھنے سے روکنے کے لیے لازمی ہے۔
۔2۔ مذہب اور روحانیت کی عدم موجودگی میں اتحاد اور امن عالم کا حصول مشکل ہوجائے گا ۔
۔3۔اتحاد اور امن کی غیر موجودگی میں دنیا ترقی کی بجائے تباہی کی طرف بڑھ رہی تھی۔
۔4۔اسی عالمی مشن کو سرانجام دینے کے یے سرزمین سندھ کو خاص پیغام دینا تھا۔
۔5۔ اس پیغام کو پھیلانے کے لیے سندھ کی سیاسی، اقتصادی اور ذہنی آزادی کی ضرورت تھی۔
۔6۔ یہ آزادی پاکستان کی مضبوطی اور حفاظت کی عین ضمانت تھی۔
۔7۔ ایشیائی اور افریقی ممالک کی آزادی ، اتحاد ، امن اور ترقی کے لیے ہندوستان اور پاکستان میں باہمی سمجھوتے کی بے حد ضرورت تھی۔
۔8۔ایشیائی اور افریقی ممالک کی آزادی اور ترقی امن عالم کی ضمامن تھی۔
۔9۔ ان سب کاموں کو سرانجام دینے کی ذمہ داری بقول کھوسہ صاحب کے سندھ کے ولیوں بزرگوں اور قدرت کی طرف سے مجھ پر یعنی جی ایم سید پہ رکھا گیا تھا!۔
’’ آسماں بارامانت فتواں کشید، قرعہ فال بمن دیوان زدند۔‘‘!
یہ ایسی دعوائیں ہیں جن کی صداقت اور صلاحیت میں عوام اور خواص کو اعتبار آئے وہ تو مشکل نظر آرہا ہے ۔ میرے لیے تو یہ بات کرنا بھی اپنے آپ سے مذاق کرنے سے کم نہیں۔مجھے اپنے عیبوں اور کمزوریوں کے مدِ نظر کھوسہ صاحب سے ایسی باتیں سنتے خوف لگنے لگتا ہے۔