’’آفاق محنت ایڈیشن‘‘ بند ہوا توپارٹی نے ہفت روزہ’’پارس ‘‘ لائلپور مستعارلے لیا۔ظاہر ہے کہ ڈیکلریشن کسی اور کے نام تھی ۔ یعنی اخبار کا مالک کوئی اور تھا۔ پارٹی نے اثرورسوخ بمع کرایہ پر اُسے حاصل کیا تھا۔میرے پاس اس کی فائل میں موجود اولین اخبار پریکم جنوری1968کی تاریخ لکھی ہے ۔’’آفاق ‘‘ ہی کی طرح وہی آٹھ صفحے ، سالانہ خریداری وہی آٹھ روپے ، اور فی پر چہ کی قیمت وہی 20پیسے ۔
یہ اخبار ایک عجیب دور میں چلایاگیا ۔ نیشنل عوامی پارٹی بظاہر مضبوط ومرکوز تھی مگر اندرونی طور پرگروہوں میں بٹی ہوئی تھی ۔ ’’پارس‘‘ اُس گروہ کا ترجمان تھا جو سامراج دشمن ، فیوڈلزم مخالف سیاست کرتا تھا۔ اورجو طبقاتی بنیادوں پر سیاست کو استوار کرتا جا رہا تھا۔
گوکہ پارٹی ایوب خان کی چین کے ساتھ دوستی کو پسند کرتی تھی مگر وہ اپنے اس موقف سے کبھی نہ ہٹی کہ ایوب ایک آمر تھا، ون مین ون ووٹ کا مخالف ۔ ایوب پارلیمنٹ کو نہیں مانتا تھا اور بالائی جاگیردار طبقے کے مفادات کو تقویت پہنچاتا تھا۔
اس بارے میں ہم یکم جنوری 1968کا پرچہ دیکھتے ہیں۔ اور اس میں موجود مضمون’’مولانا بھاشانی کا جواب‘‘ دراصل صدر پاکستان اور پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ یعنی ایوب خان کے اُن حملوں کا جواب ہے جو اُس نے نیشنل عوامی پارٹی پر کیے تھے ۔
بھاشانی نے ایوب کی بہتر حکومت کے دعوی کا مذاق اڑایا۔ اور اسے جمہوریت کا متبادل تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ اس نے بنیادی انسانی حقوق پہ ڈاکہ ڈالنے کی ایوبی حکومت کے جرم کی نشاندہی کی اور بالغ رائے دہی کے حق کے لیے پارٹی کی جدوجہد کا اعادہ کیا۔ بھاشانی نے دونوں صوبوں (مشرقی اور مغربی پاکستان) کی خود مختاری کے ساتھ ساتھ پاکستان کے اقلیتی صوبوں کی خود مختاری کا مطالبہ بھی کیا۔ جاگیر داری نظام کے خاتمے کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھنے کی پارٹی پالیسی کا اعادہ کرنے کے ساتھ اُس نے امریکی سامراج سے تعلقات ختم کرنے پر زور دیا۔
اسی شمارے میں ایک اشتھار ہے: ’’سوشلزم کے عملی مراکز ‘‘ ۔ جس میں سوشلسٹ لٹریچر ملنے کے مندرجہ ذیل مقامات کا تذکرہ ہے :پیپلز پبلشنگ ہاؤس لاہور ، عوامی کتاب گھر لاہور ، مولوی غلام محمد ہاشمی لاہور، مکتبہ افکارِ نو ملتان، انٹرنیشنل بک ایجنسی مردان ، حبیب اینڈ کمپنی راولپنڈی ، پروگریسو بکس لائلپور ، پیپلز بک ایجنسی گوجراں والہ ۔(ہم 2018میں کتنے پیچھے چلے گئے !!)۔
1968کے آٹھ جنوری کے شمارے میں ’’یمن کی صورتحال ‘‘ کی سرخی دیکھ کر حیران ہوتا ہوں کہ ربع صدی بعد آج پھر وہی رجعتی سعودی اسرائیل گٹھ جوڑ ہے اور ایک بار پھر یمنی عوام کی وہی بکھری لاشیں ہیں۔ یہ کیا دنیا ہے !۔
22جنوری 1968کے شمارے میں ڈھائی صفحات پر مشتمل سی آر اسلم کا ایک انٹرویو چھپا ہے ۔ وہ لائلپور کے میاں محمود احمد کے ہمراہ مشرقی پاکستان کے دورے سے حال ہی میں واپس آیا تھا۔ اس دورے کی دعوت انہیں مولانا عبدالحمید بھاشانی نے دی تھی۔ اس انٹرویو میں اُس وقت کے مشرقی پاکستان(بنگلہ دیش) میں مزدوروں کسانوں کی تحریک کی فکری اور تنظیمی صورتحال پر تفصیل سے معلومات دی گئی ہیں۔ اسی شمارے میں ابوالقاسم لاہوتی کی زندگی اور جدوجہد کے بارے میں بھی ایک مضمون ہے ۔
19فروری کے پارس میں ایک اشتہار چھپا ہے :
’’فوری توجہ کی ضرورت
’’پارس کے قدردانوں کی اطلاع کے لیے یہ بتانا ضروری ہے کہ اس وقت ’’پارس ‘‘انتہائی مشکلات سے دوچار ہے ۔ اگر اس کے بہی خواہوں نے اپنے بقایا جات ادا کرکے اور فوری طور پر عطیات ارسال کر کے اسے مالی مشکلات سے نجات نہ دلائی تو لاکھ افسوس کے باوجود اس کی اشاعت کا سلسلہ بند کرنا پڑے گا۔ سب دوستوں کو معلوم رہنا چاہیے کہ اگر ایسا کرنا پڑا تو ترقی پسند تحریک کے لیے یہ ایک عظیم سانحہ ہوگا۔ جس کی ذمہ داری ’’پارس ‘‘کے اُن قدردانوں پر پڑے گی جو بقایاجات ادا کرنے میں بہت لعل کر رہے ہیں۔ اور وہ قدرشناس بھی اس سیاسی خسارے کا باعث بنیں گے جو عطیات سے’’ پارس ‘‘کی امداد نہیں کر رہے ‘‘۔
آدرشی لوگوں کے علاوہ اوپر والی عبارت شاید اور لوگوں کے لیے اتنا ہم نہ ہوگا ۔کسی روشن فکر رسالے کا بند ہوجانا تواُس خطے کی ترقی پسند تحریک کے لیے واقعی ایک سانحہ ہوتاہے ۔ یہ بات 1848میں بھی سچ تھا ،1948میں بھی ، اور آج 2018میں بھی۔ ہماری طرف سے ’’بس ‘‘اسی بات کو زیادہ سمجھا جائے!!۔
26فروری1968کے شمارے میں سی آر اسلم کی قیادت پر پختہ عزم پہ مبنی مضمون ہے جس کا عنوان ہے : متحدہ محاذ سے ہی عوامی جمہوریت قائم ہوسکتی ہے ۔ عنوان ہی مضمون کے مواد کی ترجمانی کرتا ہے۔
4مارچ 1968کے ’’پارس ‘‘ نے پورا صفحہ ایک مضمون کے لیے وقف کیا: ’’عوام کا سیاسی شعور بلند کرنے کی جدوجہد وقت کا تقاضا ہے ‘‘ ۔ میں مضمون نہیں پڑھ پارہا ہوں۔ میں دیر تک عنوان پہ ہی اٹک گیا ہوں۔ یہ فقرہ تو دانشور کا مستقل اور پرائم کام ہے ۔ گوکہ یہ قحط الرجال کا زمانہ ہے، ہمارے معاشرے کی ضروریات زیادہ ہیں اور وہ اپنے دانشور سے اور زیادہ کا تقاضا کرتا ہے ۔مگر نوجوان قاری !آپ یقین کریں کہ ایک زما نہ تھا جب دانشور سیاسی کارکن ہوتا تھا ۔ سیاسی پارٹی گلی گلی میں ’’موجود ‘‘ تھی ،سیاسی سرگرمیاں جاری تھیں۔ ہاں آج وہ صورت نہیں ہے۔مشرقی یورپ میں پچھلی صدی کے اواخر میں تباہ کن عوامی شکست سے لے کر آج تک ، سامراجی بلاک سے وابستہ ہرریاست نے سیاست کی آنکھیں پھوڑ ڈالیں ، اُس کی ٹانگیں توڑ دیں۔ ہوائیں ایسی تندو تیز چلیں کہ جینوئن ارواح کو سالم کھڑارہنا جان جو کھوں کا کام ہوگیا۔ ایسے میں سماج کی ضرورتیں ، تقاضے بڑھیں گے ہی !!۔لوگ اُس سے توقعات بھی بہت وابستہ کریں گے !!۔بھئی بہت کام چاہیے، منظم ومربوط کام چاہیے۔ اتنا کام کہ وَن مین تو کیا وَن تھاؤ زینڈ پہلوانوں کے بھی بس کی بات نہیں ۔ اجتماع کی رسی کو تھامیے اور انسانیت کو طبقاتی بندھنوں سے آزاد کرنے کی طویل ، کٹھن ، اور بے مروت راہ کے راہی بن جائیے۔
اسی شمارے میں نیشنل عوامی پارٹی کی مشرقی پاکستان ونگ کی کونسل کی رپورٹ چھپی ہے ، اس کا عنوان دلچسپ ہے : ’’حب الوطنی اور عوام دوستی کی کسوٹی عوامی جمہوریت کی جدوجہد ہے ‘‘۔ سوچتا ہوں آج یہ کسوٹی کیا ہے !!۔ حب الوطنی اور عوام دوستی کی آج کی کسوٹی کیا ہے؟۔
ایک اور کمال بات ہے اس شمارے میں ۔پنجاب وبہاولپور نیشنل عوامی پارٹی کی کونسل کی میٹنگ کی رپورٹ میں موجود ذیلی سرخی ،دیکھیے: ’’پارلیمانی جمہوریت کے ذریعہ سوشلزم تک نہیں پہنچا جاسکتا‘‘۔اس پر بہت بحث کرنے کو دل کرتا ہے مگر میں تو آپ کا دامن پکڑ کر وہ انمول بات پڑھواتا ہو جواس شمارے کے آخری صفحہ میں ایک شعر کی صورت میں دی گئی:
ترسم نہ رسی بہ کعبہ اے اعرابی
کیں رہ کہ تو میروی بہ ترکستان است
(مجھے خوف ہے کہ کعبہ نہ پہنچ پاؤگے اے شتر سوار ۔اس لیے کہ جس راہ پہ تُو جارہا ہے وہ تو ترکستان جاتی ہے)۔
یہ شعر ہر سیاسی انقلابی ورکر کو زبانی یاد کرلینا چاہیے، اور ہمہ وقت دھراتے رہنا چاہیے ۔ تاکہ اپنی سمت اور حکمتِ عملی کو بہتر بنایا جاسکے۔
11مارچ 1968کے شمارے میں افضل حسن نے ہوچی منھ کی شاعری کو چار بیت کی شکل میں ترجمہ کیا۔ یہ اس شمارے کے اولین صفحے کے عین بیچ ایک چوکھٹے کی صورت شائع کی گئی:
ہے یہ بہار پچھلی بہاروں سے شاندار
اب ہے نویدِ فتح سے دھرتی مہک رہی
پنجہ فگن ہے ملک مراسامراج سے
آگے بڑھو کہ فتح یقیناًہماری ہے
18مارچ 1968کے شمارے میں کسانوں کے مسائل پر خبریں او رقراردادیں ہیں ۔اسی طرح ویت نام پہ اپنے مستقل موقف کی مطابقت میں مضامین ہیں۔ لگتا ہے کہ پارٹی اُس وقت کمیونسٹ دنیا کے اتحاد کے لیے ویت نامی انقلاب کی حمایت کرنے کو بہت اہم سمجھتی تھی۔
ایک دلچسپ بات یہ نظرآتی ہے کہ اُس زمانے میں دنیا بھر کی طرح پاکستان کے اندر بھی روس اور چین اختلافات کے نام پر الگ الگ گروپ بن گئے تھے۔مگرآفاق اور پارس اس کا حصہ نہ بنے ۔ بلکہ 25مارچ کے شمارے میں ایک مضمون ہے جس کا عنوان ہے :’’ مبارک تبدیلی اور مزید تبدیلی کی ضرورت ‘‘ ۔ اس مضمون میں اُن پارٹیوں اور گروہوں کے نام لے لے کر انہیں سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے جو روس چین اختلافات کو ہوا دے رہی تھیں۔ مضمون میں انہیں موقع پرست کہا گیا۔
پارس کے تقریباً ہر شمارے میں کتابوں بالخصوص مارکسی کتابوں پر تبصرے موجود ملیں گے ۔
یکم اپریل 1968کے شمارے میں اُس زمانے کے صوبہ سرحد (آج خیبر پشتونخواہ)میں نیشنل عوامی پارٹی کی ڈیلیگیٹ کانفرنس کی تفصیلات درج ہیں ۔اُن انتخابات میں مولانا شاد محمد صدر ، میاں شاہین شاہ جنرل سیکریٹری، اوربنوں کے عبدالرزاق ایڈوکیٹ نائب صدر منتخب ہوئے تھے ۔(میرا افتخار کہ میں نے میاں شاہین شاہ اور رزاق لالا کی قیادت میں سیاسی کام کیا تھا)۔ اس حوالے سے وہاں کسانوں کے مسائل کے بارے میں بہت اہم اور بنیادی قراردادیں موجود ہیں۔ واضح رہے کہ اس زمانے میں وہاں کسان تحریک کا نام تھا: سرحد صوبائی کسان جرگہ ۔ جس کی صدارت میاں شاہین شاہ کے پاس تھی، اورمردان کے ذاکر اللہ خان اس کے نائب صدر تھے۔
ہفت روزہ پارس کے آٹھ اپریل کے شمارے میں ’’کارل مارکس کی ڈیڑھ سو سالہ سالگرہ‘‘ منانے کا فیصلہ اور اپیل کی گئی تھی۔ (آج 2018میں دنیا اُس کی دو سو سالہ سالگرہ منانے کی تیار یوں میں مصروف ہے۔ اس فلاسفر میں کیا جادو ہے کہ اس کی مقبولیت وضرورت کم ہی نہیں ہوتی!! )۔
ہفت روزہ پارس نے اپنے پیش رواخبارکی ہی پیروی میں’’مئی نمبر‘‘ نکالا۔ اس میں ماؤزے تنگ کا ایک مضمون شامل ہے ۔جس کا عنوان ہے : ’’ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ کے قتل پر تبصرہ‘‘ ۔ اس کے علاوہ ایک مضمون ’’کارل مارکس ‘‘ پر ہے۔ یومِ مئی کی تاریخ پہ ایک طویل ومفصل مضمون بھی ہے ۔ ’’عوامی جمہوریت‘‘ نامی ایک مضمون سے دو ایسے منتخب ٹکڑے دے رہا ہوں جو آپ سیاسی کارکن اور دانشور ہمیشہ اپنے ساتھ رکھیے۔ یہ دوٹکڑے کنفیوژن کا جن بھوت بھگانے میں آپ کی خوب مدد کریں گے۔
* ’’سب سے پہلے سماج کا معاشی نظام(معاشی پیداواری رشتے) اس کے سیاسی نظام کو متعین کرتا ہے ۔ اور پھر معاشی وسیاسی نظام اس کے تہذیبی نظام(کلچر) کو متعین کرتے ہیں۔ گویا کہ کسی ملک کا کلچر اس ملک میں موجود پیداواری رشتوں کا نظریاتی اظہار ہے اور اس کا سیاسی نظام بالذات نہیں ہوتا بلکہ اس ملک کے معاشی نظام سے متعین ہوتا ہے ۔ سیاسی نظام وکلچر دونوں سماج کے اوپری ڈھانچے سے تعلق رکھتے ہیں‘‘۔
* ’’انگریزکی آمد کے بعد پاکستان کی خود کفیل معاشی زندگی ٹوٹ گئی۔ اور اس کی جگہ سکّے کی معاشی زندگی نے لے لی۔ جس کے رواج پاجانے سے ہر شئے جنسِ تجارت بن گئی‘‘۔
1968کے اِس مئی نمبر میں مزدور راہنما مرزا ابراہیم کا ایک تفصیلی انٹرویو بھی شامل ہے ۔ اس کے علاوہ نیشنل عوامی پارٹی کی سرگرمیوں کی رپورٹیں ہیں، اُس زمانے میں چھپنے والے سوشلسٹ لٹریچر پہ تبصرے ہیں اور مزدوروں کسانوں کی تنظیموں کی خبریں شامل ہیں۔ یہ 24صفحات پر مشتمل خوبصورت یومِ مئی نمبر ہے ۔(اور یہ ایک اچھا خاصا ضخامت والا ایڈیشن ہے)۔
اگلے دو شماروں میں ملک بھر میں یومِ مئی کی تقریبات کا تذکرہ اور مقررین کی تقریروں کی چیدہ چیدہ ٹکڑیاں دی گئی ہیں۔ جاگیرداری اور سامراجی نظام کی مخالفت میں مضامین اور شاعری دی گئی ہے اور ہندوستان میں فرقہ پرستی کے بڑھتے ہوئے خطرات سے خبردار کیا گیا ہے۔
3جون 1968کے شمارے میں ایک مضمون ہے: ’’مسٹر ذوالفقار علی بھٹو وضاحت فرمائیں‘‘ ۔گوکہ یہ مضمون بھٹو کے اقتدار میں آنے سے قبل کا لکھا ہوا ہے مگر اس میں اُن ساری مُرداریوں کے بارے میں سوالات ، خدشات اور تنقید یں موجود ہیں جو بھٹو نے بعد میں اقتدار میں آکر عملاً کیے۔ اُس کی سامراج نوازی ، سرمایہ پرستی اور فیوڈلزم کی برقرار ی والی پالیسیوں پر مبنی اُس کی آئندہ سیاست کی اتنی خوبصورت پیش گوئی کی گئی جو بعد میں حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوئیں۔
24جون کا پارس شاید وضاحت کے ساتھ پارٹی اختلافات پر بات کرتا ہے ۔ سوال اٹھایا گیا کہ پارٹی کی قیادت کونسا طبقہ یا، اُس طبقے کا نظریہ کرے۔ اگر محکوم طبقے نے قیادت کرنی ہے تو یہ سوال اپنے ساتھ اگلی ذمہ داری بھی لیے ہوئے تھا۔ اگر نچلے طبقات کے نظریے نے پارٹی قیادت کرنی ہے تو پھر خود اُن طبقاتی تنظیموں اور تحریکوں کو مضبوط ہونا ہوگا۔ یعنی مزدور فیڈریشن اور کسان کمیٹی جس قدر مضبوط ہوگی اسی قدر امکانات بڑھیں گے کہ وہ نیشنل عوامی پارٹی کی ریڑھ کی ہڈی بن سکیں۔ لہذا نظریہ جتنا ضروری ہے ، طبقاتی تنظیموں کی تنظیم اور شعور بھی اتنا ہی ضروری ہوتا ہے۔
جولائی1968میں سی آر اسلم نیپ مغربی پاکستان کا صدرمنتخب ہوا اور میاں شاہین شاہ جنرل سیکریٹری ۔ یہ گویا مغربی پاکستان کی حد تک نیشنل عوامی پارٹی کی قیادت حتمی طور پر سوشلسٹ نظریات والے لوگوں کے ہاتھ میں جانے کی بات تھی۔
15جولائی 1968کے پارس میں واضح طور پر کہا گیا کہ مزدوروں کسانوں ، درمیانہ طبقہ، اورانقلابی دانشوروں کے اشتراک عمل سے سوشلزم کا حصول پارٹی کا نصب العین ہوگا۔
***
اسی زمانے میں پارس اخبار کے ساتھ ساتھ پارٹی نے ’’نگار ‘‘لاہورکے مالکان سے بھی ہفتہ وار اشاعت کا تعاون حاصل کیا۔ یوں بہ یک وقت دو اخبار پارٹی کی ترجمانی کرنے لگے ۔
’’نگار‘‘ نے بھی وہی نظریاتی لڑائی جاری رکھی ۔حتی کہ اس کے 25دسمبر1968کے شمارے میں نیپ جھنگ کے اجلاس میں سرے سے پارٹی کا نام نیشنل عوامی پارٹی کے بجائے سوشلسٹ پارٹی رکھنے کا مطالبہ کر ڈالا۔
پارٹی نے اِن کرائے یا مانگے تانگے کے اخبارات کواُس وقت تک مورچہ بنائے رکھا جب بالآخر 1969میں ہفت روزہ’’عوامی جمہوریت‘‘ کی ڈیکلریشن حاصل ہوئی۔یہ ڈیکلریشن ہمارے محبوب مرحوم دوست خواجہ رفیق کے نام سے ملی۔
ہم اسی ہفت روزہ ’’عوامی جمہوریت ‘‘کی پچاسویں سالگرہ منا رہے ہیں۔