ہم امیرہوں یا غریب ، کالے ہوں یا گورے، ایشیائی ہوں یا افریقی ، بلوچ ہوں یا عرب ،سب ایک ہی عالمی نظام میں زندگی گزار رہے ہیں۔۔۔ منافع والی مارکیٹ کے نظام میں، پیسہ رپبلک میں۔
یعنی جس دنیا میں ہم رہتے ہیں، اس کے نظام کو مارکیٹ چلاتی ہے ۔ مارکیٹ، جس کے ہزاروں ہاتھ، پیر، آنکھیں اور کان ہیں ۔ مارکیٹ،جس کا کوئی وطن، کوئی زبان ،رنگ ، نسل اور مذہب نہیں ہوتا ۔ یہ اپنی وسعت ، ہلچل او ربرکت کے لیے کچھ بھی کرسکتی ہے ، کہیں بھی منتقل ہوسکتی ہے ۔مارکیٹ کا نظام اُس شراب کا نشئی ہے جس کو منافع کہتے ہیں۔ ایسی شراب جسے حاصل کرنے کے لیے مارکیٹ کو سفر کرنے پڑتے ہیں، رکاوٹیں عبور کرنی ہوتی ہیں، چھوٹی جھڑپوں سے لے کر عالمی جنگیں لڑنی پڑتی ہیں۔ مگر یہ شراب ہے ، آبِ حیات نہیں کہ آپ نے ایک آدھ گھونٹ پی لیا او رموت ختم ہوگئی۔ منافع نامی اس شراب کو،تو لمحہ لمحہ پینا ہوتا ہے ۔ یہ ہر ہر ساعت میسر ی مانگتا ہے ، ہر ہر گھڑی مسلسل سپلائی چاہتا ہے۔
مذہب کے نام پر اس میں فلسفیانہ یا اخلاقی تبدیلیاں کرنے کی اجازت نہیں ہے ،وطن پرستی کے نام پر اِس نظام کو کچھ علاقوں تک محدود رکھنے کی بات سوچنا غداری ہے،اورملکی مفاد کے نام پر اس کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوئی بھی کوشش موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے ۔
منافع مارکیٹ کی ماں ہوتا ہے۔ اُس گود کی عادی مارکیٹ یہ کبھی نہیں دیکھتی کہ ماں کے کپڑے اور رنگت افریقہ والے ہیں یا وہ یہودی عیسائی ہے ۔منافع نامی ماں پوری دنیا میں بکھری پڑی ہے ۔ چنانچہ مارکیٹ اپنی ماں کی تلاش میں دنیا میں ہر جگہ پر آباد ہونے ، اورہرکونے سے روابط رکھنے پہ ہمہ وقت تیار رہتی ہے ۔مارکیٹ یہ چیزیں یعنی کماڈٹی کار خانے میں تیار کرتی ہے اور بہت مہنگی بیچتی ہے ۔ جسے وہ منافع کہتی ہے۔ منافع نامی اس ماں کا سرچشمہ دنیا کے ہر انسان کی جیب ہوتا ہے ۔ چنانچہ مارکیٹ ہر شخص کی جیب سے منافع نامی شراب کشیدکرتی رہتی ہے ۔اور ایسا وہ عالمی طور پر خریداروں یعنی صارفوں کا کلچر لاگو کرکے کرتی ہے ۔ چنانچہ جس لفظ گلوبلائزیشن سے ہم آپ آشناہیں وہ دراصل کنزیومر کلچر کی گلوبلائزیشن ہے ۔
دنیا بھر میں اپنی پراڈکٹ بیچنے کے لیے مارکیٹ نے ایک اور کمال چیزدریافت کرڈالی: اشتہار ۔ یہ اشتہار پچھلے زمانوں میں اخباروں رسالوں میں چھپتے تھے۔ پھر جب ریڈیو آیا تو اُسے استعمال کیا ، اب توٹی وی اور کمپیوٹر کے بے شمار ہاتھ (انٹرنیٹ، فیس بک ، ٹوئٹر وغیرہ وغیرہ) اس اشتہار بازی کے لیے وقف ہوچکے ہیں ۔
اشتہار کا کیامطلب ہے ؟ ۔ اشتہار کا مطلب ہے نقلی ضرورتیں پیدا کرنا۔ آپ میں بغیر بھوک کے کسی چیز کی بھوک پیدا کرنا ۔یہ ایک غیر انسانی بھوک ہوتی ہے، غیر فطری بھوک ہے جو کہ پیدا کی جاتی ہے ۔ ٹائیڈی سی، پلاسٹکی سی ،سوفسٹی کیٹڈ سی بھوک۔ پانی موجود مگر آپ کو منرل واٹر پر لگایا جاتا ہے ، آپ تمباکونوشی نہیں کرتے مگر اشتہار آپ کو سیگریٹوں پر لگا دیتے ہیں۔شمپو، سے لے کر کارموٹر تک اشتہار آگے آگے ، انسان پیچھے پیچھے ۔ جب تک کہ جیب میں آخری آنہ ٹکہ ہو۔
اتنا کافر ہوتا ہے اشتہار کہ بہت نازوادا سے تسلسل کے ساتھ، آپ سے چیزیں خریدواتا رہتا ہے۔ آپ اشتہار کے زور پہ نیا موبائل فون خریدیں گے مگر اشتہارہی تین ماہ کے اندر اندر آپ کے موبائل کوبے کار اور آؤٹ ڈیٹڈ ثابت کر دے گا۔ اور آپ سے جدید ماڈل خریدوائے گا۔نیا نیا،جدید جدید ،لذیذلذیذ۔ اشتہار آپ کو منڈی کا حتمی غلام بنائے رکھے گا۔ آپ مارکیٹ کے ’’دانگ زدہ‘‘ بگ کے اونٹ بن جاتے ہیں۔ یعنی، غیر ضروری اشیاآپ کی ضرورت بن جاتی ہیں۔آپ کا پیسہ آپ کی جیب سے پھسلتا جاتا ہے اور مارکیٹ کے مالک کی جیب میں گرتا جاتا ہے۔
مارکیٹ نے بہت عرصہ قبل کمپنیاں بنا لیں ۔منافع کی خاطر اُن کمپنیوں نے آپس میں مقابلے کیے ،آپس میں سازشیں لڑائیاں کیں،موٹی کمپنی نے کمزور کو کھالیا،ضم کر لیا ،یاخرید لیا اور بالآخر ملکی سرحدوں سے باہر کی کمپنیوں سے الحاق کیے ، مرجرز کیے اور یوں ایک زمانے کی مقامی مارکیٹ پھر ٹرانس نیشنل کمپنیوں کی شکل اختیار کرگئی ۔ منافع تعداد میں بہت انسانوں اور منڈیوں سے چھنتا گیا اور کم ہوتے ہوتے چند ہاتھوں جمع ہوتا گیا۔
یہ ٹرانس نیشنل کمپنیاں بھی ایک دوسرے کو کھاجانے ، اورایک دوسرے سے منافع میں موٹا ہونے کی تگ و دو میں ہیں۔ چنانچہ مارکیٹ دنیا کا ایک قانون amalgamationیا انضمام ومرجر ہے ۔ ایک ٹیلیفون کمپنی دوسری کمپنی کوخریدتی ہے ، ایک میڈیا دوسرے میڈیا کواپنے اندر جذب کرتا ہے ،دوائیوں کی ایک کمپنی دوسری کوکھا جاتی ہے، اور ایک آئل ٹرانس نیشنل کمپنی دوسری کو خریدتی رہتی ہے ، اپنے میں ضم کرتی رہتی ہے۔
یعنی منافع(سرمایہ ) زیادہ جیبوں سے نکل نکل کر کم سے کم ہاتھوں میں جمع ہوتا رہتا ہے ۔ ارتکاز کا قانون ۔حتی کہ آج تو صورت حال یہ ہے کہ دنیا میں جتنی بھی دولت پیدا ہوتی ہے اُس سب کا 82فیصد کا مالک صرف ایک فیصد لوگ ہیں۔ باقی 99فیصد انسان مارکیٹ کی گماشتگی کرتے ہیں۔یعنی یہ کہ امیر اور غریب کے درمیان گیپ اور خلیج بڑھتا جاتا ہے ۔
مگر منافع کی پیاس ایسی ہے کہ اِس ایک فیصد آبادی کے ہونٹ مکران کی ریت کی طرح سوکھے ہی رہتے ہیں۔ العتش ، العتش ۔ پیٹ پانی (منافع) سے پھولا ہوا مگر لب خشک ۔تب وہ اپنے کارخانوں میں کام کرنے والوں کی اجرتیں کم کرکے اپنا پیسہ بڑھاتا رہتا ہے ۔ظاہر ہے مزدور ایسا نہیں چاہتا ، وہ ایسا نہیں کرنے دیتا، ٹریڈ یونینیں اور سیاسی جماعتیں بناتا ہے ۔ ہڑتالیں کرتا ہے ۔ یعنی ایک طبقاتی جنگ شروع ہوتی ہے ۔ اور سچی بات یہ ہے کہ انسان کی اب تک کی تاریخ کو آپ خواہ جس بادشاہ ، خان ، نواب ، یاسردار سے جوڑ دیں ، یہ دراصل طبقاتی سٹرگل کی تاریخ رہی ہے ۔ آپ جس جنگ کو کھنگال کر دیکھیں اندر سے اسی ایک فیصد بمقابلہ 99 فیصد لوگوں کے درمیان جنگ نظر آئے گی ۔
مارکیٹ نے اجرتیں کم کرتے رہنے ، اور مزاحمتی مزدوروں کی رکاوٹ دور کرنے کا راستہ یہ نکالا کہ بے روز گاروں کی ایک خلقت پیداکردی ۔ تاکہ جب مزدور اپنی اجرت کم ہونے پہ کام سے انکار کرے تو اُس کی جگہ پُر کرنے کو دوسوانسان لائن بنائے موجو دہوں۔ روزگار کے لیے منتظر اِس لشکر کو ’’ریزرو انڈسٹریل آرمی‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔
منافع نظام اجرتوں کی کمی کے نفاذ کے لیے ایک اور اقدام بھی کرتا ہے ۔ وہ اپنی انڈسٹری ہی اکھاڑ کر غریب ترین ملک /ممالک میں لے جاتا ہے ۔ جہاں بے روزگاری کی وجہ سے لوگ کم ترین اجرت پہ بھی کام کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ آج کا چین اس کی مثال ہے ۔ مغربی سرمایہ دار دنیا نے آٹو موبیل، الیکٹرانکس ،انفارمیشن ٹکنالوجی اور انفراسٹرکچر سے وابستہ اپنے سارے کار خانے اکھاڑ کر چین منتقل کر لیے جہاں انہیں مزدور کم اجرت پر ملتا ہے ۔ چین اور چین کے غیر ملکی دوست خواہ جتنی بغلیں بجائیں سارا سی پیک ، ساری خوشحالی’’ چیپ لیبر‘‘ کی بدولت ہے۔
چنانچہ جب بھی خوشحالی کی بحث چھڑ جائے اور اعدادوشمار کے کاغذوں کا انبار پیش کیا جائے تو آپ سب کو لات مار کر صرف یہ سوال پوچھ لیں: اُس ملک کے مزدور کی کی قوتِ خرید بڑھی ہے یا نہیں؟۔ یہ سوال بھی پوچھ لیں : وہاں بے روزگاری بڑھی ہے یا نہیں؟ ۔ تیسرا سوال پوچھیں: وہاں بھکاری بڑھے ہیں یا نہیں؟ اور آخری سوال یہ پوچھ لیں : کیا وہاں عصمت وعزت وجسم بیچنے کا کاروبار بڑھا ہے یانہیں؟ ۔۔۔ اِن سب سوالوں کا جواب ’’ہاں‘‘ میں ہوگا۔اور یہ سب منافع نظام کی خصوصیات ہیں۔
عالمی منافع نظام کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اِس میں ہر چند سال بعد بحران پیدا ہوتا ہے۔منافع کی لالچ میں پیداوار بڑھاتے بڑھاتے اتنی بڑھ جاتی ہے کہ اس کی فروخت ناممکن ہوجاتی ہے ۔ گودام بھر جاتے ہیں ، سڑ جاتے ہیں۔چنانچہ اب وہ کار خانے مکمل طور پر بند کرکے مزدوروں کو نکال باہر کرتا ہے ، یاپھر مزدور وں کی تعداد میں بہت کمی کرتا ہے اور ایک عالمی انسانی المیہ رونما ہوجاتا ہے ۔ایسا کسی غلطی وغیرہ کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ یہ منافع اور منڈی کے اس نظام کی پیدائشی اندرونی خصوصیت ہے ۔ چنانچہ1929میں سٹاک مارکیٹ کریش سے لے کر 2007کے بحران تک ایک پورا سلسلہ ہے جو ہر چھ آٹھ سال بعد چلتا آرہا ہے ۔ اس لیے ماہرین نے اس کا نام منافع مارکیٹ کا Cyclic Crisis رکھا ہے۔
منافع مارکیٹ میں خودکشی کرنے کا بھی بہت طاقتور رجحان موجو د ہے۔ منافع تو انسانیت کی صداؤں التجاؤں ماتموں کے سامنے بہرا اور اندھا نظام ہے ۔ اُسے پتہ ہی نہیں چلتا کہ اس کی اندھا دھند ،بے اصول و بے قانون وسعت کی بیماری اُس کی ہست ہی کو خطرات سے دوچار کرتی جاتی ہے ۔ دھڑا دھڑ صنعتیں لگاتے جاؤ، بے روک ٹوک کنزیومر اور صارف پیدا کرتے جاؤ۔ وہ اس بات پہ کان ہی نہیں دھرتا کہ اس کے بہرے حرص اوراندھی لالچ سے دنیا گلوبل ٹمپریچر، گرین ہاؤس اثرات اور ایٹمی جنگ کے کنارے پہ لاکھڑی کردی گئی ہے۔ سب کچھ بھسم ہونے کو ہے ۔ مگر سرمایہ داری نظام کے اس خودکش رجحان کااُس کے اپنے پاس کوئی علاج موجو د نہیں ہے ۔یہ تیزی سے انسانیت کو ختم کرنے جارہا ہے۔
منافع منڈی کی آخری خاصیت یہ ہے کہ اُسے ختم کیا جاسکتا ہے ۔ وہ جو انڈسٹری لگاتا ہے ، وہ خواہ جتنا بھی ٹکنالوجی اس میں استعمال کرے اُس میں مزدور کی بہر حال ضرورت ہوتی ہے ۔ اور یہی مزدور اس پورے آفت نظام کو ڈھاسکتا ہے ۔ وہ ایسا اپنے آپ کی آزادی کے لیے کرتا ہے ۔ وہ تو انسان تھا، اسے ظلم ونابرابری میں دھکیل کر بھوک ، کم اجرت اور افلاس کا جانور بنادیا گیا ۔ وہ دوبارہ اشرف المخلوق بننے کی آزادی کے لیے تن من سے لڑتا ہے۔مرجاتا ہے ، ناکام ہوتا ہے، برباد ہوتا ہے ، فتح پاتا ہے ، پھر شکست کھاتا ہے۔مگر لڑنا ترک نہیں کرتا ۔فتح تک لڑائی اُس کی مجبوری ہوتی ہے۔ ہم نے اُسے ایسا کرتے دیکھا ہے: روس میں ، چین میں ، وتینام میں،کیوبا میں۔جہاں اس نے سرمایہ دارانہ نجی ملکیت کی ’’ماتمی گھنٹی‘‘ بجائی تھی ۔ اور سماج کی ازِسر نو تنظیم کاری کی تھی ۔ اور ایسا کرتے ہوئے مزدور اِس منافع مارکیٹ کے گلوبل مظہر کے سامنے گلوبل حل ہی پیش کرتا ہے :
دنیا بھر کے مزدو ر! ایک ہوجاؤ۔