۔” 1886 ء کے موسمِ گرما کے دوران محدود حالات اور وسائل کی وجہ سے لینن اور اس کا بھائی ایک ہی کمرے میں سوتے تھے۔جب اس کا بھائی ساشا(الیگزینڈر) "داس کیپیٹل” کے مطالعے میں مستغرق ہوتا تھاتو لینن چارپائی پر لیٹ کر ٹرگنیف کے ناولوں کو بار بار پڑھ رہا ہوتا تھا اور ان میں مکمل طور پرمحو ہوجاتا تھا۔مگر وہ اس کتاب میں ذرا سی بھی دلچسپی ظاہر نہیں کرتا تھا ، جس کے مطالعے میں اس کا بھائی محو ہوتا تھا۔لینن اکثر اپنے سکول کے دوست اپولون اپولونووچ کے گھر اس سے ملنے جایا کرتا تھا، جو ایک رئیس اورجاگیر دار اشرافیہ کا لڑکا تھا۔اس کے گھر میں ایک بہت بڑی لائبریری تھی۔لینن سب سے اوپر والے شیلف پر چڑھ جاتا اور سیڑھی کے سب سے اوپر والے زینے پر بیٹھ کر مسلسل مطالعہ کرتا تھا۔جب وہ گھر واپس لوٹتا تھا تو اس کے بارے میں بہت ہی پر جوش ہوتا تھا ، جو کچھ اس نے پڑھا ہوتاتھا۔اس کا ذہن شاعری اور ناول کے علاوہ کسی اورموضوع کی طرف راغب نہیں تھا۔لینن کے اساتذہ نہیں جانتے تھے کہ لینن ڈوبرولیبوف، پساریف، اور ہرزن ایسے انقلابی جمہوریت پسندوں کی کتابوں کا مطالعہ کرچکا تھا۔اس نے وہ وہ چیزیں سیکھ لی تھیں، جوسکول میں اس نے کبھی بھی نہیں سیکھی تھیں۔ ان کتابوں نے معاصر سماجی نظام کی نا انصافیوں پر اس کی آنکھیں کھول کر رکھ دی تھیں۔”
رابرٹ سروس مزید تحریر کرتا ہے:۔
"اس کی پنسلیں ہمیشہ ترشی ہوئی رکھی ہوتی تھیں اور اس کا ڈیسک بہت خوب صورتی سے منظم ہوتا تھا۔وہ اسے روزانہ صاف کرتا تھا۔اسے اسراف سے بھی نفرت تھی۔جب وہ خالی جگہوں کے ساتھ خطوں کو وصول کرتا تھا تو ان خالی جگہوں کو کاٹ کر غیر استعمال شدہ کاغذوں کو اپنے پاس رکھ لیتا تھا۔وہ اپنے پیسوں کے بارے میں بہت محتاط تھا اور ڈمٹری کو کتاب فروشوں کی دھوکہ دہی کے خلاف تنبیہہ کرتا تھا۔
"لینن نے زندگی کو اپنے طورطریقوں سے گزارا تھا۔وہ گھر اور سکول میں ایک خوش باش بچہ تھا۔اس نے بلوغت میں بھی یہی معیار قائم رکھا۔اس کی کتاب بینی کا ذوق،دوسروں کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کرنے کا رحجان،باقاعدہ ورزش کرنے کا معمول اور دوسروں کو سیاست ،فلسفے اور میڈیکل علاج معالجے تک کے موضوعات پرمشورے دینے کی عادت۔۔ اس کی شخصیت کے یہ سب کے سب پہلو اس کی عبقریت کی شہادت دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لینن ہر چیز کو تریب و تنظیم سے رکھتا تھا۔۔۔۔آیا اس کے ڈیسک پر پنسلوں کی قطار ہو یا روسی سوشل ڈیموکریٹک لیبر پارٹی کی سیاسی اور معاشی حکمتِ عملی ہو۔
لینن بچپن میں امریکی خاتون ناول نگارہیریٹ بیچرسٹو کے خلافِ غلامی مشہورِ زمانہ ناول "Uncle Tom’s Cabin”کو بھی پڑھتا تھا۔اس ناول نے اپنے عہد میں پوری دنیا میں تہلکہ مچادیا تھا اور یہی ناول امریکہ میں غلامی کی تنسیخ کا بہت بڑا محرک تھا۔روس میں 1861ء کی رعیتی غلاموں کی نجات میں بھی اس کے اثرات سے انکار کرناممکن نہیں۔لینن کے محبوب و ممدوح ادیب چرنی شوفسکی اورلیو ٹالسٹائی بھی اس سے بہت متاثر ہوئے۔لینن نے اس کتاب کا اکثر ذکر کیا۔اس نے کہا کہ بچپن میں یہ اس کی پسندیدہ کتاب تھی۔وہ اسے اپنے کمرے میں ایک خاص جگہ پر رکھتا تھا۔یہ وہ کتاب ہے،جو زندگی بھر کے لیے اثرات مرتب کرتی ہے۔
ایسا ہی اثر اس پر روسی ادب نے مرتب کیاتھااور اس کے کچھ پسندیدہ ادیبوں میں گلیگ اوسپنسکی تھا،جس نے روسی کسانوں کے بارے میں کہانیاں تحریر کی تھیں۔ان کہانیوں نے معاصر کسانوں کے رویوں کے خوشگوار پہلو کے بارے میں اس کی تشکیک پسندی کو مضبوط کیا۔بعدازاں اس نے میکاولی اور ڈارون کے خیالات سے بھی استفادہ کیا۔لینن کے دیگر پسندیدہ ادیبوں میں گلیگ اوسپنسکی بھی شامل تھا،جس نے روسی کسانوں کے متعلق کہانیاں تحریر کیں۔سامارا میں لینن کی والدہ کی جاگیر آلاکاوکا کاا علاقہ درحقیقت اپنے وسیع وعریض جنگل والے گھر اور شان دار مناظر کے ساتھ بہت خوب صورت تھا۔وہاں پر جنگل اور پہاڑیاں چہل قدمی کے فاصلے پر واقع تھے ۔ وہاں پر ایک تالاب بھی واقع تھا،جہاں اناڑی مچھیرے بھی مچھلیاں پکڑسکتے تھے۔ادیب گلیب اوسپنسکی نے اپنی مختصرکہانیوں میں لافانی بنادیا تھا۔بقول لینن روسی قارئین گلیب اوسپنسکی کابہت احترام کرتے تھے۔
درحقیقت گلیگ اوسپنسکی اس علاقے میں سبریاکوف کی جاگیر میں 1870ء کے اوایل میں رہ چکا تھا۔اس کی بیوی یہاں ایک سکول میں پڑھاتی تھی،جسے سبریاکوف نے تعمیر کروایا تھا۔سبریاکوف اوسپنسکی کی کتابوں کا مالی سرپرست بھی تھا۔اس نے اس ادیب میں مقامی مناظرَفطرت اور لوگوں کے مصورکے طور پر پہچاناتھا۔اس مصنف نے مفلس کسانوں کی مقروضیت،زمین کی کمی اور پولیس تشدد وغیرہ ایسی مشکلات کو منعکس کیا تھا،جو مفلس کسانوں کو درپیش تھیں۔لیکن وہ اپنے اکثر معاصر ناول نگاروں کے برعکس وہ کسانوں کو اپنا آدرش بھی نہیں سمجھتا تھا۔وہ دیکھتا تھا کہ کس طرح سے ہر گاؤں زراور زمین کے تنازعے کی وجہ سے تقسیم ہے۔اس نے دہقانوں کی شراب نوشی،تشدداور اجنبی لوگوں کو برداشت نہ کرنے کے رحجان کی مذمت کی۔اس بات نے گلیگ اوسپنسکی کو سوشلسٹوں میں غیر مقبول بنادیا تھا۔لیکن لینن کے نزدیک وہ ناپسندیدہ ادیب نہیں تھا۔لینن نے اپنی بہن والگا الچینا کے ساتھ مل کر مقامی علاقے کے بارے میں گلیگ اوسپنسکی کی کہانیوں کا مطالعہ جاری رکھا۔
لینن لڑکپن سے ٹرگنیف کے ناولوں کو بہت پسند کیا کرتا تھا۔ انہیں اپنی چارپائی پر رکھتا تھا اور بار بار پڑھتا تھا۔اینا لینن سے متعلق اپنی یادداشتوں میں لکھتی ہے:”ہماری گفتگو میں کوئی موضوع سیاسی نہیں ہوتا تھا۔میں اس بات کی قائل ہوں کہ ہمارے تعلقات ،جس نوعیت کے بھی اس زمانے میں تھے، اگروولودیا کی ایسی دلچسپیاں ہوتیں تو وہ مجھ سے بالکل نہیں چھپاتا۔لینن مکمل طور پر سیاست سے بے نیاز تھااور معاشیات کی ان کتابوں میں ذرا سی بھی دلچسپی ظاہر نہیں کرتا تھا،جن سے ان کے مشترکہ کمرے میں الیگزینڈر کا شیلف بھرا ہوا تھا۔اس نوجوان کے لیے مارکس کا نام کوئی اہمیت نہیں رکھتا تھا،جس کی دلچسپیاں مکمل طور پر ادب میں تھیں۔اس نے مکمل طور پر خود کو جنون کے ساتھ ادب پہ وقف کردیا تھا۔وہ سارا سارا دن اپنی چارپائی پرٹرگنیف کے ناولوں کے صفحات میں کھویا رہتا تھااور اس کے اشرافیہ ہیروؤں اوراشرافیہ پارکوں میں سدا بہار درختوں کے نیچے تصوراتی خواتین کے کرداروں کی دنیا میں کھویا رہتا تھا۔ ان ناولوں کو شروع سے لے آخر تک پڑھنے کے بعد دوبارہ شروع کرتا۔اس کی پیاس تھی کہ بجھنے کا نام ہی نہیں لیتی تھی۔وہ سکول میں ایک ذہین طالب علم تھا ۔ وہ گوئٹے اور ٹرگنیف کی تحریروں کو پڑھتا تھا، جنہوں نے زندگی بھر اسے متاثر کیا۔لینن نے اپنے گھر ایک خط لکھتے ہوئے بیان کیا: یہ بہت ناقابلِ یقین سوچ ہے کہ میں کبھی ٹرگنیف کے مکمل مجموعہِ تصانیف کا مالک بن سکوں گا۔لینن کی ٹرگنیف کے ناولوں میں دلچسپی پوری زندگی قائم رہی ۔وی ڈی بونچ بروئیچ بھی لینن کی ٹرگنیف میں گہری دلچسپی اور اشتیاق کے بارے مندرجہ ذیل الفاظ میں تحریر کرتا ہے: "جنیوا میں قیام کے دنوں میں لینن اکثر کہا کرتا تھا کہ وہ ٹرگنیف کی کچھ کتابوں کا مفصل طور پر تجزیہ کرنا چاہتا ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ وہ اکثر ٹر گنیف کے حوالے دیتا تھا اور مثال کے طور پر اس کے ناول ”دھواں” کے کردار ورشیلوف سے اپنے سیاسی مخالفین کا موازنہ کرتا تھا۔ اس کی باتوں اور تحریروں میں ٹرگنیف کے ناولوں کے بے شمار حوالوں سے ظاہر ہوتاتھا کہ وہ اس حیرت انگیز مصنف کے پیداکردہ کرداروں پر کس قدر گہرائی سے غور کرتا تھا۔مثال کے طور پر لینن ٹرگنیف کی مختصر کہانی "کولوسوف کی کہانی”اور اس کے ہیرو کولوسوف کو بہت پسند کرتا تھا اور وہ اس ہیرو کو غیر معمولی کردار تصور کرتا تھا۔ کروپسکایا نے اس کہانی میں لینن کی گہری دلچسپی کے متعلق ویلینٹوف کو بتایا:
"جب ہم سائبیریا میں تھے تو میں نے اور لینن نے اس کہانی کے کئی صفحات جرمن میں ترجمہ کیے تھے۔اپنی جرمن کو بہتر بنانے اور بیک وقت ادب کے پسندیدہ صفحات سے گہری آگہی حاصل کرنے کا لینن کے پاس یہی ایک طریقہ تھا۔
علاوہ ازیں لینن لڑکپن سے چیخوف کو بھی بہت دلچسپی سے پڑھتا تھااور اس کے اسلوب کو بہت پسند کرتا تھا، "،جس میں زندگی کی اعلیٰ صداقت ، اور فن کا رانہ زبان کا ایجاز ایک خاص ہم آہنگی سے باہم دگرملے ہوئے ہیں۔سامارا میں قیام کے دوران لینن نے ایک رات چیخوف کی ایک کہانی ”وارڈنمبر6 ” پڑھی،جواس وقت ایک رسالے میں شائع ہوئی تھی۔ اس کہانی کے بارے میں اس کے تاثراتی ردِعمل کو ظاہر کرتے ہوئے اس کی بہن اینالینن کے الفاظ کا حوالہ دیتی ہے:”گزشتہ شب جب میں نے اس کہانی کو ختم کیاتو میں اس قدرخوف زدہ ہو گیا کہ میں اپنے کمرے میں نہیں رہ سکا۔بلکہ مجھے اٹھنا اور باہر نکلنا پڑا ۔مجھے ایسے محسوس ہورہا تھا جیسے کہ میں وارڈنمبر 6میں مقید ہوں۔